اقبالؒ عہد رفتہ کی قابل فخر تہذیب کے پیام بر

بابو عمران قریشی سہام
imran.tanveer@hotmail.com
مسلمان قوم کو اسلامی ریاست کے قیام کی جدوجہد کیلئے تیار کرنے اور ان کے جذبہ کو ابھارنے والی ہستی کانام محمد اقبال ہے۔ آپ سیالکوٹ میںشیخ نور محمد کشمیری کے ہاں 9نومبر 1877ء کو پیداہوئے ،دین سے محبت آپ کووراثت میں ملی۔مولوی میر حسن جیسی علمی ادبی شخصیت کے ہاتھوں آپ کی عربی ، فارسی اور دیگر دینی علوم کی تعلیم وتدریس ہوئی جس کے بعد آپ نے رسمی علوم اور فلسفہ کی تعلیم مغربی طرز کے سکولوں اور کالجوں میں حاصل کی۔ آپ کی شخصیت پرپروفیسر آرنلڈ کا بے حد اثررہا۔انگلستان سے اعلیٰ تعلیم کے شعبے میںپی ایچ ڈی اور بیرسٹرکی ڈگری لیکر آپ ہندوستان واپس آئے۔پہلے درس وتدریس کا سلسلہ شروع کیا اور پھر وکالت کی پریکٹس شروع کردی۔ قوم وملت کی خدمت کیلئے ساری عمر کمر بستہ رہے اور تقریباً 61برس کی عمر میںاپنے خالق حقیقی سے جاملے۔ حکیم الامت علامہ ڈاکٹر محمد اقبال صرف شاعر ،ادیب اور سیاست دان ہی نہ تھے بلکہ وہ دین مصطفویٰ ؐکے داعی بھی تھے۔ مسلمانوں کے جذبے اور عقیدے کو ابھارنے کیلئے اپنی تمام صلاحیتوں کو بروئے کار لاکر اور توحید ،رسالت ،عشق رسول ؐ ، فکر آخرت ، اتباع رسولؐ ، محبت اسلاف اور عظمت رفتہ کی یاد دلاکر قوم کے اندر ایک نئی روح پھونک دی۔ مسلمان قوم کو اور خاص طورپر نوجوان طبقہ کو اپنی عظمت رفتہ یاد دلاتے ہوئے آپ نے اسلامی انقلاب کی دعوت ان الفاظ میں دی۔
افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
 ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ 
 ان کی نظر میں مغربیت اور اشتراکیت دونوں کی بنیاد مادیت پرہے جسکی مثال یْوں ہے جیسے کوئی ریت پر محل تعمیر کرے۔ اْنہوںنے دین حق کی روشنی میں توکل علی اللہ۔ اپنی ذات کا شعو ر اور خود اعتمادی پیداکرنے کا نام ''خودی ''رکھااور اسکا راز (سرنہاں) لااَلہ اَلا للہ قرار دیااور مردمومن کی تعریف یہ فرمائی کہ جب اْسے موت آئے تواْس کے ہونٹوں پر تبسم ہو۔ ڈاکٹر اقبال تمام مسلمانوں کو ایک ملت سمجھتے تھے چاہے وہ دْنیا کے کسی بھی خطے سے تعلق رکھتے ہوں وہ مسلمانوں میں اتحاد اور استحکام کے بے حد خواہشمند تھے۔ فرماتے ہیں
 ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کیلئے
 نیل کے ساحل سے لیکر تابخاک کا شغر
 قرآن کریم میں ارشاد ربانی ہے :'' تم سب اْمتوں میںسب سے بہتر ہو جو لوگوں کیلئے بھیجی گئی ہو۔ اچھے کاموں کا حکم کرتے ہواور بْرے کاموں سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان لاتے ہو''۔ علامہ اقبال نے مذکورہ آیت کا حوالہ دیتے ہوئے 21مارچ 1932ء￿  کو آل انڈیا مسلم لیگ کانفرنس منعقدہ لاہور میں اپنے صدارتی خطبے میںکہا'' تم دْنیا میں سب سے زیادہ قابل فخر تہذیب کے مالک ہو۔ تمہارے پاس دْنیا کا بہترین نظام حیات اسلام کی شکل میں موجود ہے تم دوسروں کی تقلید کیلئے نہیں بلکہ امامت اور رہنمائی کیلئے پیدا کئے گئے ہو''۔ علامہ اقبال کو صرف شاعر سمجھ لینا یا یہ کہ ان کے خیالات یا تصورات تمام کے تمام ان کے کلام میں مقید ہوچکے ہیں درست نہیں ہے ان کے فکر ونظر کابہت کم حصہ ان کے کلام میں منتقل ہوچکاہے اکثر ایسابھی ہواہے کہ بعض بالکل نئی باتیں ان پر بغیر کسی کو شش کے منکشف ہوجاتی تھیں۔ اسلامی فقہ میں اجتہاد کے مسئلے پر بھی اْنہوںنے انگریزی میں بھی بہت کچھ لکھا۔ اْنہوںنے ایک موقع پر فرمایا ''میں مسلمان ہوں میرا عقیدہ ہے اور یہ عقیدہ دلائل پر مبنی ہے کہ انسانی جماعتوں کے اقتصادی امراض کا بہترین علاج قرآن کریم نے تجویز کیاہے۔ اس میں شک نہیں کہ سرمایہ داری کی قوت جب حدِاعتدال سے تجاوز کر جاتی ہے تو وہ دْنیا کیلئے ایک لعنت ہوجاتی ہے لیکن دْنیا کو اس کے مضر اثرات سے نجات دلانے کا طریقہ یہ نہیںہے کہ معاشی نظام سے اس کو خارج کردیاجائے جیسا کہ بالشیوک تجویز کرتے ہیں۔ قرآن کریم نے اس قوت کومناسب حدود کے اندر رکھنے کیلئے قانون وراثت اور زکوٰۃ وغیرہ کانظام تجویز کیاہے''۔علامہ ڈاکٹر محمد اقبال پاکستان کے خالق ہیں ان ہی کی فکر نے ایک نئی مملکت کی اہمیت اور افادیت کو بیان کیا جہاںسے مسلمانوں کے سیاسی مستقبل کاتعین ہوتاہے۔ آپ نے 1937ء میں قائداعظم محمد علی جناح کو ایک خط لکھاتھا جسکا متن یہ تھا'' مسلمانوں کے تمام مسائل کا حل صرف اسلامی آئین اور اسلامی قانون میںہے''۔ ایک نئی مملکت کے قیام کے بارے میں کہا'' میری خواہش ہے کہ پنجاب ، صوبہ سرحد ،سندھ اور بلوچستان کو ایک ہی ریاست میں ملا دیا جائے خواہ یہ سلطنت برطانیہ کے اندرخود اختیاری حاصل کرے خواہ اسکے باہر، مجھے تو ایسا نظر آتاہے اور نہیں تو شمال مغربی ہندوستان کے مسلمانوں کو بالآخر ایک منظم اسلامی ریاست قائم کرنی پڑیگی۔ آ پ کو مسلمان قائدین میںایک اعلیٰ مقام حاصل ہے اْنہوںنے عملی سیاست میں بھی بہت حد تک حصہ لیاتھا لیکن اْنہوںنے مسلمانوں کیلئے تعمیری کردار اداکیا او ر بحیثیت مجموعی ان کی اسلام اور مسلمان قوم کیلئے خدمات دور رس نتائج کی حامل تھیں۔ اْنہوںنے نہ صرف ترکی کی بے حد حمایت کی بلکہ اتحاد ملی کو ابھارا اور سامراجیت کو بھرپور طریقہ سے بے نقاب کیا۔ حمایت اسلام لاہور کے ارکان میں پیدا ہونے والے اختلافات کو دور کرنے میںاہم کردار اداکیا۔ میثاقِ لکھنوکی اگر بھر پور مخالفت نہ کرتے تو مسلمان اس میثاق سے ہندئووں میں جذب ہوکررہ جاتے اور ان کی انفرادی حیثیت ختم ہوجاتی۔حکیم الامت نے خطبہ الہ آباد میں واضح کردیاتھا کہ ہندوستان میںبہت سے فرقے بستے ہیںجو لسانی اور ثقافتی اعتبار سے ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہیں۔ ہندوستان کے مسلمانوں کی اپنی قدیم تہذیب ہے جو اْسے باقی ماندہ قومو ںسے ممتاز کرتی ہے۔ مذہب سے بیگانگی کے باعث ہندوستان میں مسلمانوں کی حکومت جاتی رہی اب اس غلطی کودہرانا نہیں چاہئے۔یہاں مغربی دستور نہیں چل سکتا،چنانچہ انہوں نے مسلمانوں کیلئے علیحدہ اسلامی ریاست کا مطالبہ کرتے ہوئے کہاکہ اسی میں ہندوستان اور اسلام کابہتر مفادہے اور ہندئووں کو ہندواکثریتی علاقوںمیں ایک الگ حکومت بنانے کا حق حاصل ہے۔ اپنے زندگی کے آخری ایام میں مولانا محمد علی جوہر اور سر شفیع کی وفات، ابوالکلام آزاد اور ڈاکٹر انصاری کی کانگرس میں شمولیت اور قائد اعظم محمد علی جناح کے انگلستان میں قیام کی وجہ سے مسلم لیگ کی تمام ترذمہ داریاں علامہ اقبال پر آن پڑی تھیں۔ صحت اور بینائی کے مسائل کے باوجود آپ کمر بستہ رہے ،آپ نے قا ئداعظم کو ایک خط لکھا اور تمام صور ت حال سے آگاہ کر دیاجنہوںنے آکر مسلم لیگ کی تنظیم نو کر کے اْسے فعال بنایا جسکی بدولت مملکت پاکستان کاقیام ممکن ہوا۔ آپ نے 21 اپریل 1938 کو وفات پائی اور بادشاہی مسجد لاہور کے ایک پہلو میں دفن ہوئے۔

ای پیپر دی نیشن