محمد شکیل بھنڈر
bhinder1973@gmail.com
علامہ اقبال آنے والے عہد کے پیام بر تھے جنہوں نے آج سے تقریباً سو سال قبل اپنے اس شعر میں مسلمانوں اور کافروں میں فرق کو واضح کرتے ہوئے بتادیا تھا کہ مسلمان اپنے دین کی عظمت اور اللہ کی راہ میں بغیر کسی سرو سامان کے بھی راہ حق کے لیے لڑتا ہوا اپنی جان قربان کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتا جبکہ آج یہی صورت حال فلسطین میں ہے جہاں فلسطین کے نہتے مسلمان اسلام اور قبیلہ اؤل کی حفاظت کے لیے اسرائیلی یہودیوں سے مسلسل بے سرو سامانی کے ساتھ مقابلہ کر رہے ہیں اور اس میں بچے ، جوان ، بوڑھے ، مرد اور خواتین سب اللہ کی راہ میں قربان ہو رہے ہیں یہ سلسلہ پچھلے کئی ماہ سے جاری ہے۔ ہزاروں فلسطینی اپنی جانوں کے نذرانے پیش کر چکے ہیں،شاید اسی موقع کے لیے اقبال نے فرمایا تھا۔۔۔۔۔
شان آنکھوں میں نہ جچتی تھی جہان داروں کی
کلمہ پڑھتے تھے ہم چھاؤں میں تلواروں کی
پوری دنیا دیکھ رہی ہے کس طرح نڈر اور بہادر فلسطینی ظالم یہودی افواج کے سامنے ڈٹے ہوئے ہیں اور ان کی بمباری کا مقابلہ اپنی جانوں کو اللہ کی راہ میں قربان کر کے کر رہے ہیں لیکن ان کے حوصلے بلند ہیں وہ اپنے گھر بار اپنی آنکھوں کے سامنے تباہ ہوتے دیکھ رہے ہیں، فلسطینی اپنے بچوں کو اپنے سامنے شہید ہوتے دیکھ رہے ہیں عورتیں اپنے سوہاگ اپنے سامنے قربان ہوتے دیکھ رہی ہیں ، بچوں کے سامنے ان کے ماں باپ قربان ہو رہے ہیں، آفریں ہے فلسطینی ماؤں پر، بہنوں پر، بیٹیوں پر ، ہر ہر فرد پر جن کے سامنے ان کے پیارے قربان ہو رہے ہیں۔ لیکن ان کے حوصلے متزلزل نہیں ہیں، مسلمانوں کے لیے تو حکم ہے مومن ایک دوسرے کے لیے ایک جسم کی مانند ہے جب جسم کے کسی ایک حصے میں درد ہوتا ہے تو تکلیف پورے جسم کو ہوتی ہے اس درد کو محسوس کروانے کے لیے اقبال فرماتے ہیں۔
یا رب دل مسلم کو وہ زندہ تمنا دے
جو قلب کو گرما دے ، جو روح کو تڑپا دے
اقبال اپنے رب سے مخاطب ہوتے ہوئے اے اللہ پاک مسلمانان عالم کے دلوں کو ایک بار پھر زندہ کر دے، جیسے تو نے ہمارے آباؤ اجداد کے دلوں کو امان کے نور سے روشن کیا تھا آج کے مسلمان کے دل میں بھی وہ جوش اور ولولہ پیدا کر دے اور ان کے اندر کے مومن کو بیدار کر کے اس کی روح میں ایسی تڑپ پیدا کر دے جو مسلمانوں کا طرہ امتیاز رہا ہے۔
اقوام متحدہ کی پیش رو " مجلس اقوام عالم کا رویہ مسئلہ فلسطین پر پہلے ہی سے انتہائی سرد مہری سے عبارت رہا ہے۔ ایسے عالمی امن کے اداروں کا کیا فائدہ جہاں ان کا زور چلتا ہے وہاں وہ اپنا حکم صادر کر کے رہتے ہیں جہاں ان سے طاقتور ممالک کی بات آتی ہے وہاں وہ بے بسی کی تصویر بن جاتے ہیں۔ عالمی اداروں کی بے حسی پراسی تناظر میں آپ یوں فرماتے ہیں۔۔
ہے خاک فلسطین پہ یہودی کا اگر حق
ہسپانیہ پر حق نہیں کیوں اہل عرب کا
" اگر فلسطین پر یہودی اپنا حق سمجھتے ہے اور مسلسل نہتے فلسطینیوں پر حملے کیے جا رہے اور ان کی نسل کشی کرنے پر تلے ہوئے ہیں جو ہر گز قابل قبول نہیں ہے۔ تو پھر آج کا اسپین اور ماضی کے وہ تمام یورپی علاقے جن کو ہسپانیہ کے نام سے جانا جاتا تھا جو کئی سالوں تک مسلمانوں کے زیر انتظام رہے ہیں ان پر مسلمانوں کا حق کیوں نہیں ہے۔ کیا آج صرف اس وجہ سے اسپین مسلمانوں کو دے دینے پر یورپ آمادہ ہو سکتا ہے کہ یہ علاقے کبھی مسلمانوں کے زیر انتظام رہے ہیں"
برصغیر پاک و ہند میں حضرت علامہ اقبال شاید پہلے شاعر اور فلسفی تھے جو جدید مشرقی اور مغربی علوم پر یکساں دسترس رکھتے تھے اور آپ نو آبادیاتی نفسیات اور سامراجی چالوں سے خوب آگاہ تھے، اس لیے آپ کی شاعری اور نثر دونوں میں نو آبادیاتی سوچ کے بارے میں منطقی اور سائنسی اظہار خیال ملتا ہے۔ آپ نے برصغیر پاک و ہند کے جغرافیائی خدو خال کے ساتھ ساتھ فلسطینی حدود کا جائزہ لیا آپ گول میز کانفرنس کے بعد فلسطین بھی گئے اور اپنی نظم ذوق و شوق کے متعدد اشعار فلسطین میں قبیلہ اؤل مسجد اقصی میں لکھے۔
علامہ اقبال فلسطین اور بیت المقدس کے بارے اس قدر فکر مند تھے کہ آپ نے قائد اعظم محمد علی جناح کو اپنے ایک خط میں تحریر کیا کہ " میں فلسطین کے مسئلے کے لیے جیل جانے کے لئے تیار ہوں اس لیے کہ میں جانتا ہوں کہ فلسطین نہ فقط ہندوستان کے لیے بلکہ اسلام کے لیے بہت عظیم ہے۔" اس سے علامہ اقبال کی فلسطین کے بارے میں فکر مندی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ کیوں کہ علامہ اقبالؒ اپنے دور کی وہ شخصیت تھے جو دور اندیشی کیساتھ ساتھ حقیقت پسند تھے۔ آپ جانتے تھے یہود اور نصارا کبھی بھی اسلام اور مسلمانوں کے دوست نہیں ہو سکتے ہیں اور آج جو کچھ بھی فلسطین اور خاص طور غزہ میں اسرائیلی افواج ظلم اور بربریت کی داستانیں رقم کر رہی ہیں وہ تاریخ کا حصہ بن گئی ہیں اسی ظلم وبربریت کے خلاف فلسطینیوں کے عزم واستقلال کے بارے میں اقبال نے فرمایا تھا
تجھ سے سر کش ہوا کوئی تو بگڑ جاتے تھے
تیغ کیا چیز ہے ، ہم توپ سے لڑ جاتے تھے
علامہ اقبال ؒ نے اپنی شاعری میں بھی جمعیت اقوام عالم کے اس طرح کے کردار کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے، آپ نے قیام یورپ کے دوران اپنی تعلیم کے ساتھ دنیا میں رونما ہونے والے حالات واقعات کا بغور جائزہ لینے کے ساتھ عالم اسلام کے لیے فکرمند بھی رہے، آپ پوری دنیا کے مسلمانوں ایک جھنڈے تلے جمع ہونے کے خواہش مند رہے ہیں ، اقبال اپنی تصنیف ضرب کلیم کی مختصر نظم " مکہ اور جنیوا " میں فرماتے ہیں۔۔
اس دور میں اقوام کی صحبت بھی ہوئی عام
پوشیدہ نگاہوں سے رہی وحدت آدم
تفریق ملل حکمت افرنگ کا مقصود
اسلام کا مقصود فقط ملت آدم
آپ اس مساوات محمدیؐ کے آرزہ مند تھے جس میںآزادی ہر شخص کا بنیادی حق ہے۔ اس حق کا استعمال صرف طاقت ور اقوام اور ممالک کو حاصل نہیں ہو بلکہ اس کو پوری دنیا کے انسانوں کے لیے یکساں تسلیم کیا جائے
اس کے ساتھ ساتھ علامہ اپنی تصنیف ضرب کلیم کی ایک نظم " فلسطین عرب سے " میں مسلم حکمرانوں اورفلسطینی عوام سے مخاطب ہو کر فرماتے ہیں اے فلسطینی عرب تیرے وجود میں جو آگ کے شعلے موجود ہیں اس سے زمانے کو جلا کر راکھ کیا جا سکتا ہے ، تیرا علاج لندن یا جنیوا میں نہیں کیوں کہ دیار فرنگ کی چالبازی پر مبنی خارجہ پالیسی اس وقت یہودی تاجروں کی مکمل گرفت میں ہے ، تو امن کی بجائے اپنی خودی کو بیدار کر کیونکہ امتوں کی نجات خودی کی نشوونما اور اس تجلی کی مرہون منت ہوتی ہے جس کے پیدا ہو جانے سے اقوام عالم کی طاقت ور ریاستیں بھی لرز جاتی ہیں بس اقوام اسلام کو متحد ہونے کی ضرورت ہے علامہ فرماتے ہیں
زمانہ اب بھی نہیں جس کے سوز سے فارغ
میں جانتا ہوں وہ آتش تیرے وجود میں ہے
تری دوا نہ جنیوا میں ہے نہ لندن میں
فرنگ کی رگ جاں پنجہ یہود میں ہے
اللہ پاک سے دعا ہے اپنے پیارے حبیب خاتم النبیین ،غریبوں ، یتیموں اور بیکسیوں کے والی حضرت محمد ؐکے صدقے مسلمان جہاں بھی ظلم و ستم کا شکار ہیں غائب سے ان کی مدد فرما، خاص طور پر فلسطین اور کشمیر کے مسلمانوں کو آزادی نصیب فرما ۔