جعفر روناس
( ڈائریکٹر جنرل خانہ فرہنگ ایران )
پاکستان اور ایران کے باہمی تعلقات کی جڑیںبہت گہری ہیں۔دونوںممالک کی تاریخ اور ثقافت کے ڈانڈے ایک دوسرے کے ساتھ اٹوٹ بندھنوں میں بندھے ہوئے ہیں۔ علامہ اقبال کی شخصیت دونوں ممالک کے درمیان مشتر کہ ثقافتی پل کی مانند ہے۔ علامہ محمد اقبال مفکر پاکستان ہونے کے ساتھ ساتھ ایرانیوں کی اسلامی فکر کی تعمیر نو کے رہنما بھی ہیں۔ ایرانی انقلاب کے بیشتر رہنما علامہ اقبال کی فارسی شاعری کے مداح رہے اور ان کی فکر سے رہنمائی حاصل کی۔
اسلامی ممالک ہونے کے ناطے پاکستان اور ایران کے دیرینہ تاریخی، ادبی، ثقافتی اور مذہبی رشتوں کی بنیاد پر تعلقات ہیں۔ 805 کلومیٹر طویل مشتر کہ سرحد کے باوجود دونوں ممالک محض ہمسائیگی کے رشتے میں نہیں تہذیبی رشتوں کی لڑی میں پروئے ہوئے ہیں۔ سرحد پار دونوں ممالک میں بسنے والے بلوچوں اور عوام کی آپس میں رشتہ داریاں بھی ہیں۔ قیام پاکستان کے بعد ایران واحد ملک ہے جس نے پاکستان کو سب سے پہلے تسلیم کیا جبکہ 1979ء کے انقلاب کے بعد پاکستان نے نئی بننے والی اسلامی حکومت کو تسلیم کیا۔ 1965ء کی جنگ میں جب امریکہ نے پاکستان کی فوجی امداد بند کی تو ایران نے نوے 86- F سیر جیٹ جنگی طیارے جرمنی سے خرید کر پاک فضائیہ کو بھجوائے۔ پیٹرول ، ڈاکٹر، پیرا میڈیکل سٹاف اور ادویات بھجوائیں۔ 1971ء کی جنگ کے دوران ملٹری ایڈ کے ساتھ سفارتی محاذ پر بھی ایران پاکستان کے ساتھ رہا۔ ایران نے اقوام متحدہ میں مسئلہ کشمیر پر ہمیشہ پاکستان کی موقف کی تائید کی۔ پاکستان نے بھی آڑے وقت پر ایران کا ساتھ دیا ہے اور یہ ثابت کر دیا ہے کہ :
دوست آن با شد ک گیر دست دوست
در پریشان حالی و درماندگی
1979ء کے اسلامی انقلاب کے بعد پاکستان کے وزیر خارجہ آغا شاہی نے اسلامی جمہوریہ ایران کا دورہ کیا، نئی حکومت کو تسلیم کیا اور آیت اللہ خمینی سے ملاقات کی۔ علامہ اقبال نے اپنے فاری مجموعہ کلام زبور عجم میں انقلاب ایران سے بہت عرصہ پہلے ہی آیت اللہ خمینی کی آمد کی پیشگوئی کر دی تھی۔ دانائے راز کی پیش گوئی بالآخر سچ ثابت ہوئی۔ اقبال اپنے زمانے سے آگے کے آدمی تھے۔ انہوں نے
مستقبل کے منظر نامے کا ذکر کیا ہے۔ ایران کے مستقبل کے بارے میں ایک جگہ فرماتے ہیں۔
سبزہ ناروئیدہ زیب گشنم گل بشاخ اندر نہاںدردامنم
ترجمہ: وہ سبزہ جو ابھی تک اگا ہی نہیں ہے وہ میرے گلشن فکار کی زینت میں چار چاند لگا رہا ہے اور وہ پھول جو ابھی شاخوں کے رگ وپے میں ہی پوشیدہ ہے، وہ میرے دامن افکار میں موجود ہیں۔
خاک من روشن تر از جام جم است محرم از ناز ادبانی عالم است
ترجمہ: میرا خا کی وجود جمشید کے جہاں نما پیالے سے بھی روشن ہے۔ یہی وجہ ہے کہ میں ان تمام حوادث سے بخوبی آشنا ہوں جو ابھی دنیا میں رونما نہیں ہوئے ہیں۔
نغمہ ام، از زخمہ بے پرواستم من نوائے شاعر فرد استم
ترجمہ: میں وہ نغمہ ہوں جو ساز مضراب کا محتاج نہیں۔ میں آنے والے کل یعنی مستقبل کے شاعر کی آواز ہوں۔
اقبال آیت اللہ خمینی کی آمد کے بارے میں فرماتے ہیں :
می رسد مرد ے کہ زنجیر غلامان بشکند
دیدہ ام از روزن دیوار زندان شما
ترجمہ: وہ مرد حر آیا ہی چاہتا ہے جو غلاموں کی زنجیریں توڑ کر رکھ دے گا۔ میں نے تمہارے زندان کی دیوار کے روشن دان سے اسے آتے ہوئے دیکھ لیا ہے۔
ایران کی نئی نسل کے نام کس قدر واضح اور غیر مبہم نوید ہے۔ غلامی اور محکومی کے دور میں غلام قوم کو آزادی کا مژدہ سنانا باعث حیرت نہ تھا، بلکہ اس سے بڑھ کر حیرت ناک بات یہ ہوئی کہ وہ نوید سچ ثابت ہوئی۔ بالآخر وہ مرد حر آزادی کی سوغات لے کر آہی گیا۔ انہوںنے نا صرف ایران کو طاغوت کی غلامی سے نجات دلا دی بلکہ ایران کو طاغوت مخالف قوتوں کا مرکز بنا کر اقبال کی اس آرزو کو عملی جامہ پہنا یا جوایران کے متعلق ان کے دل میں کروٹیں لے رہی تھی۔ ایران کے بارے میں اقبال نے فرمایا ہے۔
پانی بھی مسخر ہے، ہوا بھی ہے مسخر
کیا ہو جو نگاہ فلک پیر بدل جائے
دیکھا ہے ملوکیت افرنگ نے جو خواب
ممکن ہے کہ اس خواب کی تعبیر بدل جائے
تہراں ہو گر عالم مشرق کا جنیوا
شاید کرہ ارض کی تقدیر بدل جائے
جس دور میں علامہ اقبال نے یہ اشعار کہے تھے ، اس دور میں ایران کو قوموں کی امامت کا اہل سمجھا ہی نہیں جا سکتا تھا۔ اس دورکے بارے میں جاوید نامہ میں اقبال رقمطرار ہیں۔ نادر شاہ جب اقبال سے ایران کے بارے میں سوال کرتے ہیں تو اقبال نے اس زمانے کے حالات کے بارے میں یہ کہا تھا کہ ایران نے فقط وطن دوستی اور ایرانی قومیت پر توجہ کی ، اپنا دل رستم پہلوان سے ملایا اور علی مرتضی ؓسے دور چلے گئے ملکی نظام کو چلانے کے لیے اس دور میں شہنشاہیت بر سر اقتدار تھی ، جو اقبال کی نظر میں ہر لحاظ سے معتوب ومعیوب تھی۔ اقبال ہر طرح کی شہنشاہیت کے خلاف ہیں خواہ وہ انگریزی سامراج ہو، عرب یا مجھی شہنشاہیت۔ اقبال کو یقین تھا کہ ایک مضبوط اور مستحکم ایران وجود میں آئے گا جس میں مشرق کا جنیوا بنے کی اہلیت ہوگی۔
اقبال صرف پاکستان کے نہیں عالمی سوچ و فکر رکھنے والے شاعر تھے جو مسلمانوں کو حرم کی پاسبانی کے لیے یکجا دیکھنا چاہتے تھے۔انہوں نے اپنے کلام میں فلسطین ، اسپین ، عرب ، ہندوستان کے مسلمانوں کا ذکر کیا۔ شاعر فردا منتظر فردا نے لاہور تا خاک بخارا و سمرقند کوولولہ تازہ دیا۔ ایران کی نئی نسل سے مخاطب ہو کر اقبال نے فرمایا ہے :۔
میں تمہاری بصیرت اور ہمت پر اپنی جان وارے جا رہا ہوں۔
چون چراغ لالہ سوزم در خیابان شما
ای جوانان عجم جان من و جان شما
ترجمہ: اے جوانان ایران قسم ہے مجھے اپنی اور تمہاری جان کی ، میں تمہارے چمن میں چراغ لالہ کی طرح فروزاں رہوں گا۔ علامہ اقبال نے اپنی مادری زبان اردو کی بجائے فارسی کو اظہار خیال کا وسیلہ بنایا۔ ان کا کلام اردو سے زیادہ فارسی زبان میں ہے۔ انقلاب ایران کی بنیاد کلام اقبال ہے۔ پاکستان کا قومی ترانہ بھی فارسی زبان میں ہے۔ کلام اقبال کی ایران میں مقبولیت کے بعد زبان وادب کے اس رشتے میں مزید پختگی آئی۔ رہبر انقلاب آیت اللہ خامنہ ای علامہ اقبال پر کتاب بھی تحریر کر چکے ہیں اور اقبال کو مرشد قرار دیتے ہیں۔
آیت اللہ خامنہ ای نے پہلی انٹر نیشنل اقبال کا نفرنس جو تہران میں ہوئی اس کے افتتاحی اجلاس میں کہا اقبال کی مادری زبان فارسی نہیں تھی مگر انہوں نے اعلیٰ پایہ کی فارسی میں کلام کہا جو روزمرہ کی زبان نہیں تھی۔ ادبی طبقے کی زبان تھی۔ اقبال کی فارسی شاعری کو اہل ایران نے نہایت پسند کیا ہے اور اس کی بے حد پذیرائی کی ہے۔ اقبال کے نظریات کی ترویج کے لیے ان پر تحقیق کو فروغ دینا ہوگا اور ان کے نام پر ادارے بنانا ہوں گے۔
علامہ اقبال نے ایرانی شعراء فردوی، شیخ سعدی، حافظ شیرازی، قرۃ العین طاہرہ کا تذکرہ اپنے کلام میں کیا ہے۔ ایرانی دانشور ڈاکٹر عبد الکریم سروس، مہدی بازرگاں بھی علامہ اقبال سے متاثر ہوئے اور رہنماؤں نے ان سے فکری رہنمائی لی۔ مرتضیٰ مطہری اور ڈاکٹر علی شریعتی جیسے انقلابی رہنما ان سے فکری رہنمائی لیتے رہے۔ علامہ اقبال کا اردو سے زیادہ کلام فارسی زبان میں ہے اس لئے ایرانی عوام اقبال سے عقیدت کا رشتہ رکھتے ہیں۔ ایران میں بیشتر سڑکوں، کتب خانوں، جامعات اور اداروں کے نام اقبال کے نام پر ہیں۔اقبال کی عقیدت کی شمع آنے والی نسلوں کے دلوں میں فروزاں رہے گی۔ علامہ اقبال کا پی ایچ ڈی کا مقالہ بھی ایرانی تہذیب و فلسفہ پرمشتمل ہے۔ 2010 میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں لیکچر دیتے ہوئے۔اقبال نے کہا تھا یونان کو فتح کرنے سے روم کو جو نعمتیں ملی ہیں، اسی طرح ایران کی فتح سے مسلمان بھی مالا مال ہو گئے۔ مطلب یہ کہ ایرانی تہذیب اتنی ترقی یافتہ ہے کہ اس کی فتح سے مسلم تہذیب کو ان گنت فائدے پہنچے۔ علامہ اقبال کے بارہ ہزار اشعار میں سے سات ہزار فارسی زبان میں ہیں۔ آپ کی شاعری کے دس مجموعے ہیں جن میں سے 6 فارسی زبان میں ہیں۔یہ کلام اقبال کی عظمت کو ثبوت ہے کہ یہ کلام انقلاب ایران کے بعد ایران کے بڑے شہروں کی دیواروں پر خوبصورت خطاطی میں آویزاں ہے۔