پردیسیوں کی عید 


جھروکا…چوہدری بلال حسن
بھائی ٹکٹ کنفرم ہوگئے ہیں اور ہم عید آپ کے سنگ پاکستان میں منائیں گے ۔ اس ایک جملے نے ماضی کے کتنے حسین دریچے وا کر دئے اور امیدوں نے ایک نیا پیرہن بُننا شروع کر دیا جس کی بنا ئی کا عمل بچپن کے پیا ر اور رفاقت کے دھاگوں سے تھا ۔ ہماری ہمشیرہ اپنی دو بیٹیوں اور ایک نومولود بیٹے مصطفی کے ہمراہ آسٹریلیا سے پاکستان کا رختِ سفر باند رہی تھی ۔ اس خبر نے جیسے ہمارے گھر میں ایک ہلچل سی مچادی تھی ۔ دائمی جوڑوں کے درد میں مبتلا والدہ اور نئے نئے بھلکڑ پن کا شکار والد صاحب میں زندگی کی ایک نئی لہر دوڑ گئی تھی ۔ ہمارے آبائی گھر میں نئے مہمانوں کی جگہ بننا شروع ہو گئی تھی ۔ موجودہ فرنیچر کو گھر کے کونو ں کھدروں میں سرکا کر ننھے مصطفی کے جھولے کی جگہ بنائی گئی تاکہ اس کے آرام میں کوئی خلل نہ ہو ۔ والدہ مارشل لا ء ایڈمنسٹریٹر اور ہم بھائی سپاہی ان کے ہر حکم کو بجا لانے کی تگ و دو میں مصروف تھے ۔ اسی افراتفری میں وہ دن بھی آ پہنچا جب مہمانوں نے اسلام آباد ہوائی اڈے پر اترنا تھا ۔ پوری رات ہم ایک بے کلی کا شکار رہے ۔ میری بیٹی بار بار پوچھ رہی تھی کی بابا پھوپھو نے کب آنا ہے؟  کیا پھوپھو کا جہاز چل پڑا ہے؟ اور میں اس کو تسلی دیتا تھا کہ صبح آپ کے جاگنے سے پہلے پھوپھو آچکی ہوں گی ۔ رات بھر دل کی بے چینی کا سبب شائد وہ طویل اور تھکا دینے والا چوبیس گھنٹوں پر محیط سفر بھی تھا جس میں اوپر صرف اللہ تعالیٰ کی ذات اور نیچے خشکی اور سمندر کا لا امتناہی ملاپ تھا ۔
علی الصبح جب میں ائیر پورٹ کی جانب روانہ ہوا تو راستے بھر ماضی کی حسین یادیں ذہن میں نقش و نگار بناتی رہیں ۔ ہم دو بھائی اور ایک بہن ہیں جو کہ مجھ سے آٹھ سال چھوٹی ہے مجھے آج بھی 16 اکتوبر 1986کا وہ دن یاد ہے جب سکول سے واپسی پر نارنجی کمبل میں لپٹی ایک چھوٹی سی گڑیا ہمارا انتظار کر رہی تھی ۔ ہماری خالہ نے بتایا کہ اللہ نے آپ کو ایک چھوٹی سی بہن سے نوازا ہے ۔ ہم حیرانگی اور خوشی کے ملے جلے جذبات کے تحت اس کے پنگھوڑے کے پاس ٹک کر کافی دیر تک کھڑے رہے ۔ اس ننھی پری نے ہمارے دو کمروں کے فلیٹ میں زندگی کی ایک نئی روح پھونک دی تھی ۔ اس نے جیسے ہم سب کو مصروف کردیا اور اب ہم سب کی توجہ کا مرکز صرف وہ تھی ۔اس کی آمدمیرے والد صاحب (جو سخت گیر انسان تھے)  انکے مزاج میں وہ نرمی لے آئی جو باقی سب کیلئے ایک خوشگوار ہو کا جھونکا تھا ۔ اس نے ہمارے سب خواب پورے کئے اور ترقی کی منازل طے کرتے ہوئے آخر کار ایک کامیاب ڈاکٹر بن گئی ۔ نارنجی کمبل کب ڈاکٹر کے سفید کوٹ میں تبدیل ہوا ، خبر ہی نہ ہوئی ۔ پھر ایک دن والدین کی دعائوں اور بھائیوں کے پیار کے سائے میں پیا گھر سدھار گئی ۔ انہی خیالات کے زیر اثر پتا ہی نا چلا کہ کب میں ائیر پورٹ پر پہنچ چکا تھا ۔ بین الاقوامی آمد کے کائونٹر کے سامنے ہم دونوں بھائی اپنے والد صاحب کے ہمراہ اس انتظار میں تھے کہ کب مہمان ائیر پورٹ سے باہر آئیں اور ہم اپنی ہمشیرہ کو گلے لگا سکیں ، ننھے مصطفی کا لمس محسوس کرسکیں اور بھانجیوں کو پیار کر سکیں ۔ آخر کار مہمان باہر تشریف لائے اور ہم چہروں پر خوشی سجائے اپنے گھر روانہ ہوئے ۔ رمضان کا مہینہ کیسے گذرا اور کیسے عید آئی معلوم ہی نہ ہوسکا ۔ اور چالیس دن پلک جھپکتے ہی گذر گئے ، اور وہ شام آئی جس کی سحر پھر ایک سفر کی متقاضی تھی لیکن اب کی بار عازمِ سفر جدائی کا پیغام تھا ۔پھر ایک بے چین رات اور صبح کا انتظار ، آنسو بارہا چھلکتے ہوئے آنکھوں کی دہلیز پار کرتے تھے ۔ بھائیوں کا بے لوث پیار اپنی جگہ لیکن ضعیف والدین کیلئے رونق سے بھر پور گھر کا ایک دم خاموش ہو جانا نہائت دل سوز ہوتا ہے۔ پورے گھر میں ایک عجب سی فضا قائم تھی ہر کوئی نظریں چرا رہا تھا کہ کہیں ضبط کا بندھن ٹوٹ نہ جائے ۔یہ ہر اس گھر کی کہانی ہے جس کی نوجوان نسل بہتر مستقبل کی تلاش میں اپنوں کو چھوڑ کر بیرونِ ملک منتقل ہو چکی ہے ۔  صد افسوس  ہم 74 برسوں میں ہم اس مملکتِ خداداد کو اس قابل بھی نہ بنا سکے کہ تعلیم یافتہ نوجوان اپنے خوابوں کی تکمیل کیلئے بیرونِ ملک ہجرت کی اذیت سے دوچار نہ ہوں ۔ لاکھوں مائیں اپنے دل کے ٹکڑوں کو جدا کرکے سوشل میڈیا کے ذریعے ان سے رابطے میں ہیں ۔ بے شک مالی لحاظ اور زندگی کی بنیادی سہولتوں  کے لحاظ  سے  ترقی یافتہ ممالک خود کفیل ہیں لیکن اس ذہنی نشوونما کا کیا کریں جو کہ انسان کی روحانی خوراک ہے اور جس کا حصول اپنے ہی وطن کی مٹی میں ممکن ہے ۔
غیر معیاری تعلیمی نظام ، بنیادی انسانی سہولتوں کا فقدان اور ترقی کی شاہراہ پر جہالت کا قبضہ وہ وجوہ ہیں جن کی وجہ سے نوجوان نسل اپنی مٹی سے تعلق توڑنے پر مجبور ہے ۔ اگر تاریخ کے اس موڑ پر بھی ہم قومی ترجیحات کو مختص کر نے میں کامیاب نہ ہوئے تو ہماری داستان بھی نہیں ہوگی داستانوں میں ۔ اسی طرح اگر ہمارے ملک کے بہترین اذہان ترقی یافتہ ممالک میں منتقل ہوتے رہے تو بین الاقوامی آمد کے کائونٹر پر انتظار کرتے پر امید چہرے اور بین الاقوامی روانگی کے کائونٹر پر لگی اداس آنکھوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا رہے گا ۔ اپنے پیاروں کو سالوں خود سے جدا کرنا ایک روح فرساں عمل ہے اور ایک ایسی ذہنی اذیت ہے جس کا مداوا کوئی نہیں کر سکتا ۔ 

ای پیپر دی نیشن