آج کل جو کچھ محکمہ پولیس کے ساتھ ہو رہا ہے اچھا ہو رہا ہے یا برا اس میں ظالم کون مظلوم کون اس کا فیصلہ کرنے والے ہم کون ہوتے ہیں وقت ایک دن خود ہی سب کچھ بتا دیتا ہے کہ کون ظالم ہے اور کون مظلوم ہے حضرت شیخ سعدی رحم? اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ آپ اپنی زندگی میں ’’جو بوگے وَہی کاٹو گے‘‘ اچھا کرو گے تو اچھے کا پھل پا لو گے برا کرو گے تو برے کا نتیجہ پا لو گے جی ہاں یہ دنیا مکافاتِ عمل ہے آج کسی کی راہ میں تم پتھر رکھو گے تو آنے والا وقت تمہاری راہ میں پہاڑ بن جائے گا۔
ازل سے ہے مکافاتِ عمل کا سلسلہ قائم رلایا جس نے اوروں کو وہ خود بھی چشم تر ھو گا یہ ممکن ہی نہیں کہ جو ہم دوسروں کے ساتھ کریں وہ ہمارے ساتھ نہ ہو یہ بھی یاد رکھو کہ ٹوٹے ہو? دل جب اللہ کے سامنے رو پڑتے ہیں تو یقین جانو اس وقت سے ہی مکافاتِ عمل شروع ہو جاتا ہے۔ یہ مکافاتِ عمل ایک ایسا عمل ہے خواہ آپ کسی بھی شعبے سے تعلق رکھتے ہوں سرکاری ہو یا غیر سرکاری جہاں بھی ہوں جیسے بھی ہوں ایک دن وقت آپ کو بتاتا ہے کہ آپ اپنی زندگی میں کیا کرتے رہے۔ جس طرح آئینہ سچ بولتا ہے اسی طرح وقت بھی اپنے کام میں دیر نہیں کرتا یہ ایک دن ضرور بولتا ہے اور پھر وقت وہ ہوتا ہے کہ جو اسے بولنے سے بھی کوئی روک نہیں سکتا اسی لیے تو کہا جاتا ہے کہ وقت بدلتے دیر نہیں لگتی۔
ذرا غور کریں ہم جمہوری ملک کے شہری ہیں۔ ہمارے تحفظ کے مقصد سے قانون کی بالادستی کو قائم رکھنا پولیس کی ذمہ داری ہے مگر عموماً پولیس اپنے منصبی تقاضوں اور فرائض کو بھول جاتی ہے۔ ایسے میں انصاف کو یقینی بنانا مشکل ہوجاتا ہے۔ ضرورت ہے پولیس کی ذہنی و نفسیاتی تربیت ہو ، جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ عوام اْنہیں اپنا محسن سمجھیں گے۔ مگر ایسا ہو جانے سے پولیس کی کرپشن اور ان کی غنڈہ گردی ختم ہو جائے گی گزشتہ ایک طویل عرصہ سے بے لگام محکمہ پولیس کے رویہ اور ان کی بدمعاشیوں کے حوالہ سے آئے دن اخبارات میں خبریں ، کالم اور ٹی وی پر نشر ہونے والی ان کی زیادتیوں کے متعلق بھرپور ذکر ہوتا رہتا ہے مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے آج تک محکمہ پولیس کے ذمہ داران اور حکومتی نمائندوں میں سے کسی نے بھی کوئی توجہ نہیں دی بلکہ ہم تو اکثر گزشتہ کئی کالموں میں ان کی ایسی زیادتیوں اور ناانصافیوں کے متعلق کالم شائع کر چکے ہیں۔ لیکن سنتے یہ آرہے ہیں کہ پولیس کا فرض ہے مدد آپ کی پولیس اسٹیشنوں کے باہر بھی یہ الفاظ لکھے ہوتے ہیں اور پولیس جوانوں کو محافظ بھی کہا جاتا ہے لیکن یہ تو سب جانتے ہیں کہ یہ کس قسم کے محافظ ہیں شہریوں کو کسی بھی قسم کا کوئی تحفظ نہیں ہے جس میں لوگ اپنے گھروں میں بھی چوروں ڈاکوں کے خوف سے ساری ساری رات آنکھوں میں بسر کرتے ہیں دن بدن سٹریٹ کرائم شہروں میں بڑھتا جا رہا ہے چوری چکاری منشیات فروشی کے دھندے عروج پر ہیں پولیس کے محافظ نہ صرف ان سے منتھلی لیتے ہیں بلکہ جس چھوٹے دکاندار کے پاس بھی جاتے ہیں جو کچھ کھاتے پیتے اپنی وردی کی دھونس میں پولیس والا ہونے کا فائدہ اٹھاتے ہیں اور تو اور ان کا اخلاق دیکھیں کہ کسی کے ساتھ بھی ان کو بولنا نہیں آتا یہ نہ عمر کا لحاظ رکھتے ہیں نہ عہدے کا یہ ہر کسی کو اوئے کر کے پلاتے ہیں اور سَب کو ایک ہی لاٹھی سے ہانک?نا ان کا معمول بن چکا ہے جب آپ ایسے حالات پیدا کر لیں گے تو پھر کسی دوسرے سے اچھے کی امید کیسے رکھ سکتے ہیں۔لہذا بہاول نگر میں پولیس کے ساتھ ہونے والے واقعہ میں ہم کوئی فیصلہ نہیں کرتے کہ کون غلط تھا اور کون صحیح تھا وقت خود بتائے گا کہ کون غلط ہے اور کون صحیح ہے کیونکہ وقت نے اب لگتا ہے کہ اپنا عمل شروع کر لیا ہے بلکہ ہمیں تو اس بات کا خطرہ ہے کہ جس عوام کے ساتھ ان پولیس والوں کا ہر دور میں ظالمانہ رویہ رہا ہے کہیں ایسا نہ ہو کہ ایک دن یہ مظلوم عوام ان کے سامنے اسی طرح کھڑے ہو جائیں کیونکہ مکافت عمل کو تو روکا نہیں جا سکتا اسی کو کہتے ہیں وقت کا انصاف لہذا اب بھی وقت ہے کہ اپنے آپ کو سدھار لو اپنے بگڑے ہوئے قبلہ کو درست کر لو ہم نے گزشتہ کئی بار اپنے کالم کے ذریعے آئی جی پنجاب عثمان انور صاحب کو درخواست کی تھی کہ آپ ہمارے ساتھ بھیس بدل کر کانسٹیبل کی وردی پہن کر موٹر سائیکل کو میں ڈرائیو کروں گا آپ صرف پیچھے بندوق پکڑ کر بیٹھے رہیں میں آپ کو دکھاؤں گا کہ یہ پولیس اہلکار غریب عوام کے ساتھ کیسا رویہ اور کیسا سلوک کرتے ہیں۔ مگر افسوس کہ ہماری بات پر کوئی دھیان نہ دیا گیا اور اب آپ دیکھ لیں کہ پولیس والوں کے ظلم اور زیادتیاں کتنی بڑھتی جا رہی ہیں یہ بڑھتی ہوئی مہنگائی کی ذمہ دار بھی پولیس والے ہیں کیونکہ انہوں نے کھانے پینے والی دکانوں ہوٹلوں پر جا کر کھانا کھاتے ہیں اور اشیاء لے لیتے ہیں پیسے نہیں دیتے تو دکانداروں کا کہنا ہے کہ پھر ہم کہاں سے اپنا پورا کریں مہنگائی نہ کریں تو اور کیا کریں آئی جی صاحب اب بھی وقت ہے کہ پولیس والوں کا بگڑا ہوا قبلہ درست کرنے کے لیے ابھی سے عملی کام کرنا شروع کر دیں باتوں سے کچھ نہیں بنے گا ہر جگہ پر سیاست کام نہیں آتی بہرحال مکافاتِ عمل کو روکنے کے لیے کچھ ضرور کریں