علامہ محمد اقبال اور امت مسلمہ

علامہ محمد اقبال 9 نومبر 1877 کو اس دنیائے فانی میں تشریف لائے اور صرف 60 سال کی عمر میں 21 اپریل 1938 کو واپس اصل دنیا میں تشریف لے گئے لیکن اس ساٹھ سال کے عرصہ میں علامہ اقبال نے ہندوستان کے مسلمانوں کے دور زوال کے دوران میونخ یونیورسٹی سے فلسفہ میں پی ایچ ڈی کی ڈگری بھی حاصل کی اور بیک وقت شاعر مشرق بھی ' بہتریں مصنف بھی ' بہترین قانون دان بھی ' زبردست سیاستدان بھی اور سب سے بڑھ کر امت مسلمہ کے ایسے رہنما کے طور پر ایسا زبردست کردار ادا کر گئے کہ سوئی ہوئی امت مسلمہ کو جگا دیا علامہ محمد اقبال کو 1922 میں سر کا خطاب دیا گیا اور 1926 میں آپ باقاعدہ طور پر پنجاب لیجسلیٹو اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے 
1930 اس حوالے سے یادگار کہ اس سال علامہ محمد اقبال نے الہ باد میں مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے نظریہ پاکستان پیش کر دیا اور ہندوستان کی امت مسلمہ کو واضح طور پر ایک واضح سمت دے دی۔
علامہ محمد اقبال صرف قیام پاکستان کے محرک رہنما ہی نہیں بلکہ پوری امت مسلمہ کے لئے درد دل رکھنے والے ایسے رہنما تھے جنہوں نے سپین کے دورے کر کے مسجد غرناطہ میں آنسو بھی بہائے اور پھر موتمر عالم اسلامی کے تحت ہونے والی کانفرنس میں شرکت کر کے تمام شرکا کو کھل کر یہ بتایا کہ برطانیہ سرکار اور دیگر غیر مسلم طاقتیں فلسطین کے اندر اسرائیل نامی یہودی ریاست قائم کرنے کے لئے کمر بستہ ہو چکی ہیں اس لئے فلسطینی مسلمان یہودیوں کو اپنی زمینیں نہ بیچیں بلکہ پوری امت مسلمہ اپنا پورا زور اس بات پر لگائے کہ امت مسلمہ کے قلب میں اسرائیل نامی خنجر دشمن پیوست نہ کر سکے  اسی حوالے سے علامہ محمد اقبال کا ایک شعر ہمیں انکی دور رسی اور درد امت مسلمہ کے بارے میں بتاتا ہے 
بقول علامہ اقبال 
ہے خاک فلسطیں پر یہودی کا اگر حق
ہسپانیہ پر کیوں حق نہیں اہل عرب کا
قارئین گرامی آج بھی آپ دیکھ رہے ہیں کہ اسرائیل فلسطینی مسلمانوں کو فلسطین سے مکمل طور پر ختم کرنے بلکہ انہیں سپین کی طرع صفحہ ہستی سے مٹا دینے کے لئے جتنے بھی ظلم کر رہا ہے اس پہ نہ تو اقوام متحدہ کچھ کر رہا ہے اور نہ ہی فرنگی بلکہ امریکہ نے تو اسرائیل کے مظالم کے حوالے سے اقوام متحدہ میں پیش کی گئی قراردادوں کو ویٹو کیا ہے  اس لئے ہمیں علامہ محمد اقبال کی فہم و فراست سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی درست سمت متعین کر لینا چاہئے تاکہ ہم اسرائیلی مظالم  کے آگے چٹان کی طرع ڈٹ کر خود اپنی سطح پر ہی اپنے فلسطینی بھائیوں کا دفاع کر کے انکا تحفظ کر سکیں مختصر یہ کہ اگر ہم اقوام متحدہ کی طرف یا امریکہ برطانیہ کی طرف دیکھتے رہے تو پھر یہ مسئلہ بد سے بد ترین صورتحال اختیار کرتا جائے گا لیکن جس دن ہم نے علامہ اقبال کے بتائے گئے راستے پر چلنے کا فیصلہ کر لیا اور یہ سمجھ لیا کہ ان کی تو رگ جان ہی یہودیوں کے قبضہ میں ہے اس لئے یہ یہودیوں کو روکنا تو دور کی بات بلکہ ان کی مذمت بھی نہیں کریں گے تو پھر یقینی طور پر ہم اسلامی سر براہی کانفرنس بلا کر اسرائیل کو یہ واضح پیغام دے پائیں گے کہ اگر اس نے اپنا جارحانہ رویہ نہ بدلا تو پھر امت مسلمہ مل کر اس چھوٹے سے ناسور کو صفحہ ہستی سے ہی مٹا دے گی۔ آج انتہائی ضرورت ہے اس بات کی کہ ہم خواب غفلت سے بیدار ہوں اور غزہ کے مجبور مسلمانوں کو اپنا بھائی سمجھتے ہوئے نہ صرف خوراک اور میڈیسن سے ان کی مدد کریں بلکہ اپنے میزائلوں اور ضرورت پڑنے پر ایٹمی صلاحیت سے بھی اپنے ان بھائیوں کی مدد کریں یقین کیجئے جس دن اسرائیل کو خالی ایک پیغام ہی مل گیا کہ اگر اسرائیل نے مظالم کا سلسلہ جاری رکھا تو پھر ہمارے میزائیل اور ایٹمی صلاحیت اس کی ننگی جارحیت کو بزور طاقت روکیں گے تو پھر اسرائیل بھی اور اس کے بڑے بھی پم سے معافیاں مانگیں گے۔
قارئین گرامی جو بات علامہ اقبال نے اسرائیل کے قیام سے بھی پہلے محسوس کر لی تھی ہم آج بھی اسے اس طرع سے محسوس نہیں کر پا رہے اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اقبال کے فلسفہ پر یقین کرتے ہوئے خود اپنے زور بازو پہ بھروسہ کرتے ہوئے غزہ کے مسلمانوں کو صفحہ ہستی سے مٹنے سے بچائیں 
بقول علامہ اقبال
" کافر ہو تو شمشیر پہ کرتا ہے بھروسہ"
مومن ہو تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی "
ہمیں بے تیغ لڑنے والی صورتحال کا سامنا بھی نہیں ہے ہمارے پاس تو ایٹمی صلاحیت تک موجود ہے ہمیں تو بس ضرورت صرف ایک بات کی ہے کہ ہم پوری دنیا کو یہ بتا دیں کہ وہ اسرائیل کو روک لے ورنہ پھر جب ہم اسرائیل کو روکیں گے تو پھر اسرائیل نام تک کا نشان دنیا سے غائب ہو جائے گا۔

لیکن اس سب کے لئے ہمیں علامہ محمد اقبال رحمتہ اللہ علیہ کی شخصیت کے ایک اور پہلو کو دیکھ کر اس پر عمل کرنا ہو گا اور وہ ہے علامہ محمد اقبال کا عشق مصطفے صل اللہ علیہ وسلم۔ قارئین گرامی عشق سے پہلے اطاعت اور ادب کے مرحلے آتے ہیں جو علامہ اقبال نے عبور کر کے عشق مصطفے صل اللہ علیہ وسلم میں قدم رکھا علامہ صاحب نے فرمایا،"مسلمانوں کی سرشت ایک موتی کی ہے جس کو آب و تاب بحر مصطفوی صل اللہ علیہ وسلم سے ہی حاصل ہوتی ہے۔
قارئین گرامی یقین مانئے اگر ہم علامہ اقبال کی رہنمائی سے فائدہ اٹھائیں تو ہم ان کے بتائے گئے فارمولے پر عمل کرتے ہوئے یعنی اسوہ رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم کی اتباع کی بدولت ہم مکارم اخلاق سے پھر سے آراستہ ہو سکتے ہیں اور ہم علامہ صاحب کی طرع خوددار' شاہین صفت'شفیق صفت'جمہوریت پسند ' صاف گو اور مرد مومن بن سکتے ہیں اور یقین مانئے جس دن ہم یہ بن گئے اس دن پوری امت مسلمہ کے کسی بھی حصے میں کسی بھی مسلمان کے ساتھ دنیا کی کوئی طاقت ظلم نہ کر پائے گی اور امت مسلمہ پھر سے دنیا کی بہترین امت بن کر پوری دنیا کے لئے ایک نمونہ بن جائے گی۔

ای پیپر دی نیشن