کتب بینی ناپید ہو گئی

کتب بینی ایسا مشغلہ ہے جس کے سامنے دنیا کی ہر دولت اور سلطنت بھی ہیچ ہے۔ آپ کتب بین ہیں اور رات کو اپنی خواب گاہ سے محض اس لیے دور رہتے ہیں تاکہ آپ اپنا قیمتی وقت عظیم لوگوں کی صحبت میں گزار سکیں، تو یہ آپ کے لیے بہت مبارک اور اچھا شگون ہے۔ کتب بینی کی عادت جس بھی شخص میں پیدا ہو گئی، سمجھ لیں، اُسے سارے جہاں کے خزانوں کی چابیاں مل گئیں۔ اس کے برعکس جو شخص کتب بینی سے محروم رہتا ہے وہ دنیا کی بہت بڑی نعمت سے محروم ہو جاتا ہے۔
یاد رکھیں، کتب بینی ایسا عمل ہے جو آپ کو فرش سے عرش اور خاک سے افلاک تک پہنچا دیتاہے۔ علم کی دولت سے مالا مال شخص خود بھی سیدھے راستے پر چلتا ہے جبکہ دوسروں کے لیے مشعلِ راہ کا کام دیتا ہے۔ ہر وہ شخص جس کے اندر کتب بینی کا جذبہ، لگن، شوق اور اس حوالے سے مستقل مزاجی ہو وہ کتب بینی کے عمل کو پروان چڑھا کر عمل کے سمندر سے دُرِنایاب سمیٹ سکتا ہے۔
ہمارے اسلاف میں کتب بینی کا وصف بدرجۂ اتم موجود تھا۔ اس لیے ایک طویل زمانہ گزر جانے کے باوجود بھی اُن کے نام آسمان ِ علم کے افق پر جگمگا رہے ہیں۔ امام غزالی، ابو نصر الفارابی، ابنِ سینا، ابِن راشد، جابر بن حیان، اور الخوارزمی جیسی جلیل القدر شخصیات کی کتابیں آج بھی یورپ اور امریکہ کے کتب خانوں کی زینت ہیں۔ ویسے تو ہمارے اسلاف میں علمی دنیا کے وہ قدآور ستون موجود ہیں جن کے کارناموں کا احاطہ کرنا مشکل ہی نہیں، بہت دشوار بھی ہے۔ انہوں نے ’’مطالعہ‘‘ اور ’’کتب بینی‘‘ کا ذوق ابھارنے کے لیے تمام عمر کام کیا اور یہ درس دیتے ہوئے کبھی ہمت نہیں ہاری۔ پورے عالم کو علم کی تابانی سے منور کرنے والے اور ہرسو علم کا اجالا پھیلانے والے ایسے لوگ گزرے ہیں جن کا اوڑھنا بچھونا ہی کتب بینی اور کتاب دوستی تھا۔
اپنے ذوقِ مطالعہ کا حال بتاتے ہوئے حکیم ابو نصر الفاربی فرماتے ہیں کہ ’’تیل کے لیے پیسے نہ ہونے کی وجہ سے میں رات کو چوکیداروں کی قندیلوں کے سامنے کھڑے ہو کر کتاب کا مطالعہ کرتا تھا‘‘۔ امام زہری کے مطالعہ کا یہ عالم تھا کہ مطالعہ میں ایسے مصروف ہوتے کہ دنیا و مافیہا کی خبر نہ رہتی۔بیوی اُن کی اس عادت سے بہت پیچ و تاب کھاتی۔ ایک دفعہ بیوی نے بگڑ کر کہا ’’اللہ کی قسم یہ کتابیں تین سوکنوں سے زیادہ بھاری ہیں۔‘‘ میکالے کا قول ہے ’’وہ شخص نہایت ہی خوش نصیب ہے جس کو مطالعہ کا شوق ہے‘‘۔ مشہور انگریز شاعر ’’شیلے‘‘ کہتا ہے ’’مطالعہ ذہن کو جلا دینے کے لیے بہت ضروری ہے‘‘۔ سابق امریکی صدر ابراہم لنکن کے مطابق کتاب کا مطالعہ دماغ کو روشن کرتا ہے۔ ’’کتب بینی کے حوالے سے دنیا کی مشہور اور بڑی شخصیات اس بات پر متفق ہیں کہ جن قوموں میں کتب بینی کا ذوق رہا ہے انہیں ترقی کرنے اور آگے بڑھنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔
ترقی پذیر ممالک کتب بینی کو ایک بہترین مشغلہ قرار دیتے ہیں اور کتب بینی کو دل سے اپنائے ہوئے ہیں۔ تاہم ہمارے نوجوانوں میں کتب بینی کا ذوق قریباً دم توڑ چکا ہے۔ بہت ہی کم نوجوان ایسے ہیں جو کتاب دوستی پر نازاں رہتے ہیں۔ ورنہ اکثریت کتاب سے دُور اور بیزار نظر آتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب ہر سال سکول اور کالجز سے نصابی نتائج سامنے آتے ہیں تو انہیں دیکھ کر بہت مایوسی اور شرمندگی ہوتی ہے۔
سمجھنے کی بات یہ ہے کہ کتاب وہ ذریعہ ٔ علم ہے جس نے دنیا میں بہت سے موجد اور سائنس دان پیدا کئے۔ آج ہم جو نت نئی سائنسی ایجادات دیکھ رہے ہیں۔ وہ انہی سائنس دانوں ہی کی مرہون منت۔ جو کتاب کے توسط سے اس اعلیٰ مقام تک پہنچے اور کامیاب ایجادات کیں۔ جو دنیا کی ترویج و ترقی کا باعث ہیں۔
کتب بینی سے دور ی ہی کا نتیجہ ہے کہ آج ہم ترقی کی دوڑ میں دنیا سے بہت پیچھے رہ گئے ہیں۔ ہمارے نوجوانوں میں اپنے اسلاف کی قدر اور مرتبہ شناسی کا عنصر ناپیدہو چکا ہے۔ جس کے باعث ترقی کے سب راستے مفقود ہیں۔ بدقسمتی سے ہمیں وہ اساتذہ بھی میسر نہیں جو کتاب سے محبت کا درس دے سکیں۔  جب تک ہمیں کتاب سے محبت کرنا نہیں آئے گی ہم زندگی کی کسی بھی دوڑ میں آگے نہیں بڑھ سکیں گے اور تاریکیاں ہماری منزل ہوں گی۔
فی زمانہ مطالعے کا شوق کم سے کم ہوتا جا رہا ہے۔ مگر اس کی اہمیت آج بھی مسلم ہے۔ لفظ بھی رزق کی طرح ہوتے ہیں۔ جو نصیب کی طرح ملتے ہیں اور مقدر بدل ڈالتے ہیں۔ دیکھا جائے تو کتاب انسان کی بہترین ساتھی ہے۔ مگر کتب بینی کا شوق کم ہونا لمحۂ فکریہ ہے۔ کہا جاتا ہے بہترین لیڈر، بہترین ریڈر ہوتے ہیں۔ کتاب واحد چیز ہے جس میں کھو کر اپناآپ ڈھونڈا جاتا ہے۔ تھامسن جیفرن لکھتا ہے ’’میں کتابوں کے بغیر نہیں رہ سکتا۔‘‘ مقولہ ہے ایک قاری مرنے سے پہلے کئی زندگیاں جیتا ہے لیکن جو لوگ مطالعہ نہیں کرتے وہ تنہائیو ں کا شکار رہتے ہیں اور ایک تنہا زندگی گزارتے ہیں۔
چینی کہاوت ہے ’’جب تم پہلی بار کتاب پڑھتے ہو تو کسی سے پہلی بار ملاقات کرتے ہو لیکن جب اسی کتاب کو دوسری بار پڑھتے ہو تو جیسے کسی پرانے دوست سے ملاقات کرتے ہو۔‘‘ پوری دنیا ہی ایک کتاب کی مانند ہے۔ حضرت واصف علی واصف فرماتے ہیں ’’زمین پر پڑے کاغذ سے بھی نصیحتیں ملنا شروع ہو جاتی ہیں۔ ‘‘ راہ چلتے کہیں کوئی صفحہ دیکھیں، کوئی بورڈ ،بینر یا اشتہار دیکھیں تو اس سے بھی سیکھنے کو ملے گا۔ سیکھنے کی عادت آپ کو کتاب سے جوڑتی ہے اور آپ کے مستقبل پر گہرا اثر ڈالتی ہے۔
کتب بینی کے حوالے سے ہمارے اسلاف میں ایسی ایسی مثالیں ملتی ہیں جو کسی اور قوم اور نسل میں ناپید ہیں۔ ابنِ جوزی کے بارے میں کہا جاتا ہے انہوں نے اتنی کتب تالیف کیں، کہ فہرست بنانا بھی مشکل اور ناممکن ہے۔ امام شیبہ بصری ایسے عالم تھے جنہوں نے ساڑھے بارہ من سیاسی سے تفاسیر اور کتابیں لکھیں۔
عصرِ حاضر کے عظیم عالم ڈاکٹر حمید اللہ جنہوں نے ساری عمر فرانس میں بسر کی، ایک کمرے کے فلیٹ میں رہتے تھے جو چاروں طرف کتابوں سے بھرا ہوتا، کمرے میں صرف سونے کی جگہ ہی خالی ہوتی جہاں رات کو سوتے۔
کتب بینی کا شوق کیسے پیدا ہو؟ اس عادت کو ڈیولپ کیا جا سکتا ہے۔ بالکل ایسے ہی، جیسے آپ کوئی ڈش پہلی بار کھاتے ہیں تو وہ اچھی نہیں لگتی لیکن وہی ڈش جب آپ تین بار کھاتے ہیں تو’’ ٹیسٹ ‘‘ ڈیولپ ہو جاتا ہے، بالکل اسی طرح مطالعہ کی عادت بھی ہے۔ اپنے سرہانے کتاب رکھئے ، گاڑی میں بھی آپ کے پاس کتاب ہونی چاہیے، ریل یا جہاز میں سفر کر رہے ہیں تب بھی کتاب سے آپ کی دوستی نظر آنی چاہیے۔ تاکہ جیسے ہی فرصت میسر آئے، آپ مطالعہ شروع کر سکیں۔
مطالعہ کیسے کیا جائے؟ رضوان رضی معروف دانشور ہیں اُن کا کہنا ہے ’’کتاب کو تین بار پڑھا جائے، پہلی دفعہ سرسری طور پر، دوسری مرتبہ زبان کے چٹخارے کے لیے اور تیسر ی بار اس لیے کہ یہ کتاب آپ سے کیا کہنا چاہ رہی ہے۔ بعض لوگ کہتے ہیں کتاب ختم کرنے کے بعد نوٹس بنائیں کہ آپ نے اس سے کیا حاصل کیا؟ تاہم درج بالا حقائق سے جو بات عیاں ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ مطالعہ ایک طرزِ فکر کا نام ہے۔ اگرآپ چاہتے ہیں کہ آپ کے بچے مطالعہ کے شوقین ہوں تو اُن کی یہ عادت بچپن سے بنائیے۔ کیا ہی اچھا ہو اگر وہ موبائل کی بجائے ہاتھ میں کوئی اچھی اور معلوماتی کتاب پکڑے نظر آئیں۔ خود کو مثال بنائیں گے تو اس کا اثر بچوں پر بھی ہو گا۔
کئی کتابوں کی مصنفہ پروفیسر ڈاکٹر فضیلت باز کہتی ہیں ’’ کتب بینی کے رجحان میں کمی کی وجوہات میں سے ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ ہم نے اپنے بچوں کو کتاب سے بہت دور کر رکھا ہے۔ جس میں سوشل میڈیا کا بھی اہم کردار ہے۔ موبائل ہر بچے کی پہنچ میں ہے جبکہ کتاب سے دور ہونے میں بچے کا کوئی قصور نہیں۔ کیونکہ بڑوں کے ہاتھ میں بھی اب کتاب کی بجائے موبائل ہوتا ہے۔
کتاب ایک تحفہ ہے۔ ایک آفاقی حقیقت۔ کتاب نے ہی کائنات کو تسخیر کیا۔ ہمیں بچوں کو ازبر کرانا ہو گا کہ اصل علم کتاب کے اندر ہے۔ ماضی میں لوگ اردو اخبار پڑھ کر اپنی زبان کی اصلاح کرتے تھے۔ کتاب میں لوگوں کی دلچسپی بڑھانے کے لیے ہمیں ہر شہر میں کتاب میلوں کے ساتھ ساتھ سیمینارز بھی منعقد کرانے ہوں گے جن کو حکومتی سرپرستی حاصل ہو۔ ایسا کر کے ہی ہم کتاب کی اہمیت، فوقیت اور توقیر کو بڑھا سکتے ہیں جو قومیں کتاب پڑھنا چھوڑ دیتی ہیں ، خسارے میں رہتی ہیں۔

ای پیپر دی نیشن