اسلام آباد (نیٹ نیوز + بی بی سی ڈاٹ کام + ثناءنیوز) پاکستان پیپلز پارٹی کے ایک رہنما کا کہنا ہے کہ صدر آصف علی زرداری سے متعلق ”مائنس ون“ فارمولا خفیہ فرشتوں کی سازش ہے جو ایسا پراپیگنڈہ کر رہے ہیں۔ پاکستان بھارت تعلقات کے حوالے سے بعض حلقے صدر کے م¶قف سے خوش نہیں۔ بی بی سی کے مطابق پاکستان میں ایک بار پھر ”مائنس ون فارمولے“ کا تذکرہ ہونے لگا ہے اور اب کی بار یہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی بجائے صدر آصف علی زرداری کے تناظر میں ہو رہا ہے۔ آئے روز کوئی نہ کوئی وزیر یا پیپلز پارٹی کا کوئی سرکردہ رہنما یا رکن اسمبلی بیان دے رہا ہے کہ ”ہمیں مائنس ون فارمولا کسی قیمت پر قبول نہیں‘ یہ غیر جمہوری قوتوں کی سازش ہے۔ آج کل صدر آصف علی زرداری کے تناظر میں جب مائنس ون فارمولے کا ذکر ہو رہا ہے تو صوبہ سندھ کے وزیر اعلیٰ سید قائم علی شاہ سے لے کر وزیر اطلاعات قمر الزمان کائرہ تک اکثر اس کی تشریح یہ کرتے ہیں کہ بعض غیر جمہوری قوتیں چاہتی ہیں کہ صدر آصف علی زرداری کے علاوہ پیپلز پارٹی کی حکومت چلتی رہے۔ پیپلز پارٹی کی سرکردہ حکومتی شخصیات یہ تو کہتی ہیں کہ انہیں یہ فارمولا کسی قیمت پر قبول نہیں لیکن یہ نہیں بتاتے کہ ”مائنس ون فارمولے“ کی تجویز یا مطالبہ کہاں سے آیا؟ ایکنک کے اجلاس کے بعد جب بعض صحافیوں نے وزیر اطلاعات سے یہ سوال پوچھا کہ ”مائنس ون فارمولا“ کس نے پیش کیا ہے تو انہوں نے کوئی واضح جواب دئیے بنا کہا کہ اس پر بعد میں بات ہو گی۔ 1988ءمیں جب ضیاءالحق فضائی حادثے میں مارے گئے اور انتخابات ہوئے تو اس وقت بھی پاکستان کے ”مقتدر حلقوں“ نے بےنظیر بھٹو کے علاوہ باقی پیپلز پارٹی کو اقتدار دینے کی پیشکش کی تھی۔ اس زمانے میں یہ شوشہ بھی چھوڑا گیا کہ اسلام عورت کی حکمرانی کے خلاف ہے لہٰذا پیپلز پارٹی کسی مرد کو وزیراعظم نامزد کرے۔ پیپلز پارٹی کے وزیر نے کہا ہے کہ کئی قومی معاملات کے بارے میں صدر آصف علی زرداری نے جو م¶قف رکھا ہے اور خاص کر کے پاکستان اور بھارت کے تعلقات کے حوالے سے جو ان کے خیالات ہیں‘ اس تناظر میں بعض حلقے خوش نہیں‘ سید قائم علی شاہ‘ میاں رضا ربانی‘ قمر الزمان کائرہ‘ خورشید احمد شاہ اور دیگر کا یہ کہنا ہے کہ مائنس ون کی بات پیپلز پارٹی کے لئے نئی نہیں۔ وزیر تجارت مخدوم امین فہیم کے مطابق 1988ءمیں شیخ رشید سمیت کچھ لوگ ان کے پاس یہ پیغام لائے تھے کہ وہ بےنظیر بھٹو کو سمجھائیں اور اگر وہ نہ مانیں تو وہ انہیں چھوڑ کر خود وزیراعظم بن جائیں گے لیکن مخدوم کے بقول انہوں نے یہ پیشکش ٹھکرا دی تھی لیکن دائیں بازو کی سوچ کے حامل کچھ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بےنظیر بھٹو کی حیثیت اور 1988ءکی صورتحال موجودہ حالات سے کافی مختلف تھی۔ ایک تو بےنظیر بھٹو ذوالفقار علی بھٹو کی بیٹی تھیں اور ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے بعد پہلی بار پیپلز پارٹی انتخاب جیتی تھی لیکن ان کے مطابق بےنظیر بھٹو کی ہلاکت کے بعد آصف علی زرداری اتفاقی طور پر پارٹی کے سربراہ بنے اور پیپلز پارٹی کے اندر انہیں وہ قبولیت حاصل نہیں جو بےنظیر بھٹو کو حاصل تھی۔ ان کے مطابق اگر مقتدر حلقے مائنس زرداری فارمولے پر سنجیدہ کوشش کرتے ہیں تو پیپلز پارٹی دو دھڑوں میں تقسیم ضرور ہو سکتی ہے لیکن پیپلز پارٹی ایسے کسی امکان کو سختی سے مسترد کرتی ہے۔