ہمارے بے شمار مظلوم قسم کے دوستوں نے بھی اس کانفرنس کے جملہ اغراض و مقاصد کو سراہتے ہوئے اسی کی طرز پر اپنے یہاں بھی ایسی پرآشوب تقاریب کی اشد ضرورت بیان کی ہے۔ ویسے خدا لگتی تو یہی ہے کہ اس طرح کا کم از کم ایک آدھ فورم تو یہاں ضرور ہونا چاہئے تاکہ بے زبان یعنی شریف ٹائپ شوہر حضرات بھی ایک جگہ بیٹھ کر غم غلط کر سکیں۔ ہمارا اپنا شمار بھی شوہروں کی اسی کیٹیگری میں ہوتا ہے مگر ہم ذاتی طور پر اس قماش کے کسی اکٹھ میں شریک ہونے کا رسک ہرگز نہیں لے سکتے کیونکہ کسی نہ کسی طور ہماری اس حرکت کی مخبری ہمارے گھر پہنچ سکتی ہے اور اس کا انجام کافی عبرتناک بھی ہو سکتا ہے چنانچہ ہم خود تو ایسی متنازعہ قسم کی کسی کانفرنس میں شریک نہیں ہونگے مگر جو احباب ’’کثرتِ غم خواری‘‘ کے سبب اب اپنی ہڈیوں کے اندربیگمات کی متشددانہ کارروائیوں (مراد لتریشن وغیرہ) کا ڈر خوف محسوس نہ کرتے ہوں یا جن کے ہاتھ‘ پیر‘ منہ‘ سر و دیگر مقامات حوادث زمانہ کے سبب سن ہو چکے ہوں‘ ان کے لئے ہم ہر طرح کی معاونت کرنے کو تیار ہیں بشرطیکہ کسی بھی معاملے میں ہمارا نام نہ آئے۔
بعض دوستوں کا خیال ہے کہ واپڈا اور پولیس کے ستائے لوگوں کی بھی ایک آدھ دو تین روزہ کانفرنس ہونی چاہئے۔ یہ خیال ہے تو خاصا نیک مگر اس میں صرف ایک ہی قباحت ہے اور وہ یہ کہ ان محکموں کے متاثرین تعداد میں اس قدر زیادہ ہیں کہ انہیں یکجا کرنے کیلئے کم از کم میدانِ حشر ہی درکار ہو گا۔
ہمارے بعض بیوقوف دوستوں کا ایک مشورہ یہ بھی ہے کہ واپڈا کے ہر گرڈ کے سامنے ایک عدد چھوٹا سا موبائل نوعیت کا احتجاجی کیمپ لگایا جائے جس میں کم از کم دو گھنٹے کیلئے لائوڈ سپیکر کے استعمال کی اجازت ہو۔ لائوڈ سپیکر پر ملی نغمے سنائے جائیں اور ہر نصف گھنٹے بعد پانچ منٹ کا ’’وقفہ برائے مغلظات‘‘ کیا جائے تاکہ علاقہ کے چھٹے ہوئے بدمعاش‘ لفنگے‘ کن ٹُٹے و دیگر معززین ان پانچ منٹوں میں اپنی اور اہل محلہ کی اجتماعی بھڑاس نکال سکیں۔ گو کہ کثرتِ غم خواری (جس کا اوپر تذکرہ کیا جا چکا ہے) کے سبب واپڈا پر بھی اس لتریشن کا چنداں اثر نہیں ہو گا تاہم عوام قدرے پرسکون ہوتے چلے جائیں گے۔
اسی قماش کے احمق دوستوں میں سے چند ایک یہ بھی کہتے پائے گئے ہیں کہ بیویوں کے ستائے شوہروں اور واپڈا و پولیس کے ہاتھوں خوار و خستہ ہونے والے شہریوں کیلئے فورم قائم کرنا بہت اچھی بات ہے مگر ان کم نصیبوں کی بھی تو کچھ نہ کچھ دادرسی ہونی چاہئے جو حکمرانوں کے ستائے ہوئے ہیں۔ آخر انہیں بھی تو بھڑاس نکالنے کے یکساں مواقع ملنے چاہئیں۔ کیا ہی اچھا ہو اگر واپڈا اور پولیس کے خلاف مجوزہ احتجاجی کیمپوں کی طرز پر حکمرانوں کے خلاف بھی گلی گلی احتجاجی کیمپ قائم کر دیئے جائیں اور پانچ منٹ کے وقفہ برائے مغلظات کا اہتمام بھی کر دیا جائے۔
یہ آئیڈیا تو بہت اچھا ہے بلکہ آج سے برسوں پہلے انگریز کو بھی سوجھ چکا ہے اور اس نے لندن کے شہرہ آفاق ہائیڈ پارک کا ایک گوشہ اس نیک کام کیلئے مخصوص بھی کر رکھا ہے مگر ہمارے خیال کے مطابق اس آئیڈیا میں ایک بڑی قباحت ہے… اور وہ یہ کہ ہمارے حکمران کثرتِ ذلت کے باعث دماغی طور پر نہ صرف مائوف بلکہ پوری طرح سے سُن ہو چکے ہیں۔ آپ لائوڈ سپیکر پر پانچ منٹ تو کیا‘ اگر روزانہ پانچ گھنٹے بھی انکی ’’خدمت‘‘ کرتے رہیں‘ یہ تب بھی ٹس سے مَس نہیں ہونگے۔ اس لئے کہ اب تنقیدی الفاظ انکے لئے کلیشے بن چکے ہیں۔ انکی کھلڑیاں اس قدر موٹی اور قوتِ سماعت اس قدر کمزور ہو چکی ہیں کہ اب کسی بھی طرح کے الفاظ ان پر اثر نہیں کرتے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو دن رات جاری ٹی وی مذاکرے اور اخباری کالم و اداریئے انکا حشر کر ڈالتے مگر بے سود!
سچ پوچھیں تو ہمارے حکمرانوں کو جو بیماری لاحق ہے‘ اس کا علاج کم از کم کسی انسان کے بس کا تو روگ ہے ہی نہیں‘ کوئی غیبی ہاتھ اس بدنصیب قوم کی مدد کو آئے تو آئے ورنہ صرف کہے سنے کا ان پر کوئی اثر نہیں ہو گا‘ آزمائش شرط ہے! بلکہ اب تو بیچارے حکمران بھی اپنے لاعلاج ہونے کا گلہ کچھ یوں کرتے ہیں؎
وہ کسی اور دوا سے مرا کرتا ہے علاج
مبتلا ہوں میں کسی اور ہی بیماری میں!