الطاف حسین نے شکایت کی ہے کہ حکومت نے آئی بی، اور ایف آئی اے کے ذریعے کراچی کے فسادات کے حوالے سے ایم کیو ایم کے بارے میں مبالغہ آمیز اطلاعات فراہم کی ہیں۔ زرداری حکومت کی جا نب سے تردید کی گئی ہے۔ اسی سے اندازہ لگا لیجئے کہ دونوں ”اتحادیوں“ میں باہمی اعتماد کا کیا عالم ہے۔ یہی ”اعتماد“ جب حکومت کے ایوانوں سے باہر نکلتا ہے تو انسانی خون کے فوارے چھوٹ پڑتے ہیں اور دونوں جماعتیں ایک دوسرے کے کارکنوں پر غارتگری کا الزام عائد کرتی ہیں۔ کیا حکومت کرنا اس کو کہتے ہیں۔ جناب زرداری کو اپنی مفاہمت کی جس پالیسی پر بڑا ناز ہے اس کی عملی شکل یہی ہے۔ الطاف حسین کو جو جاگیرداروں کے مقابلے میں نچلے متوسط طبقے کے مفادات کی نگہبانی کا بہت دعویٰ یہ ہے۔ کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ کراچی کے قریب اور معصوم شہریوں کو نسلی فسادات کی بھینٹ چڑھا دیا جائے۔
پہلے مختلف سیاسی عناصر کا مطالبہ تھا۔ اب شہر قائد کی کئی ایک تجارتی اور سماجی تنظیموں نے بھی آواز اٹھائی ہے کہ منی پاکستان کو فوج کے حوالے کر دیا جائے میڈیا کے ایک حصے نے بھی اس کی تائید کی ہے۔ یہ ان تمام جماعتوں پر عدم اعتماد ہے جن کے پاس کراچی کی حکومت یا اس میں شریک رہی ہیں۔ گورنری ان کے پاس ہے۔ ایو ان ہائے وزارت میں دوبارہ داخلے کےلئے پا بہ رکاب ہیں--- آئین کے تحت اگر حالات انتظامیہ کے کنٹر ول سے بالکل باہر ہو جا ئیں تو فوج کو وقتی طور پر مدد کےلئے بلایا جا سکتا ہے۔ لیکن یہ آخری چارہ کار ہوتا ہے اور کراچی بلاشبہ حکومت کی انتہا درجہ نااہلی کی وجہ سے اس کے دھانے پہنچ چکا ہے۔ زرداری جمع گیلانی حکومت اگرچہ یہ منظور نہیں مگر ان کے پاس اپنی حکمت عملی کیا ہے؟ لیاری گینگ کے بارے میں جو خبریں آ رہی ہیں صرف انہیں سامنے رکھ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ پیپلزپارٹی کی حکومت Part of Problem ہے Part of solution نہیں قبل اس کے کہ فوج کو پورے ملک پر قبضہ کرنے کا موقع ملے۔ بہتر ہو گا کہ سندھ کی صوبائی حکومت اسے آئین کی حدود میں رہتے ہوئے شہر کا گند صاف کرنے کی دعوت دے اور فوج بھی اپنی ذمہ داری سے عہدہ برا ہونے کے بعد واپس چلی جائے۔