صابر بخاری
bukhariaims@gmail.com
عہدِ حاضر کے اردو شعراءکا ذکر چل نکلے تو بہت سے خوبصورت نام اپنے کام کے ساتھ ذہن و دماغ سے ابھرنے لگتے ہیں۔ ان سب کی پہچان، ان سب کا مقام‘ ان کے کام کے حوالے سے متعین ہے۔جدید شعراءکی ایک لمبی قطارہے جس میں بڑے بڑے نامی اپنے قدو قامت کے حساب سے کھڑے ہیں۔ اسی صف میں ایک شخص ....حیات ملکا بھی قطار بنائے کھڑا ہے۔ حیات ملکا سے ایک خوبصورت سیر حاصل انٹرویو کیا۔ جس کی روداد حاضر ہے۔ ملکا صاحب اس وقت غزل کے ایک کہنہ مشق اور مستند شاعر ہیں۔ ان کا پہلا شعری مجموعہ ”دھوپ اور سائے“ ہے جس کا دیباچہ خالد احمد مرحوم(نوائے وقت کے معروف کالم نگار اور صدارتی ایوارڈ یافتہ شاعر) نے لکھا۔
نوائے وقت: جناب ملکا صاحب! کہیے کیسا گزرا لڑکپن، زمانہ طالب علمی، یوں تو یہ طے ہے کہ ہر شاعر کی جوانی کی کہانی عشق و آوارگی سے مربوط سمجھی جاتی ہے۔
ملکا صاحب: سوال کی کاٹ تیز ہے بہر حال آپ پر یہ واضح کردوں کہ شاعری کسی حادثے یا اچانک رونما ہونے والے جذباتی واقعہ کا ردعمل نہیں اور یقینا نہیں۔ یہ ایک فطری تسلسل کا نام ضرور ہے۔ جو انسانی رویوں کی گود میں پھلتا پھولتا ہے۔ یہ وہ رجحان ہے جو معاشرتی، سماجی اور سیاسی ناہمواریوں کے ہاتھوں پروان چڑھتا ہے اور گمنام پگڈنڈیوں سے گزرتا ہوا معلوم سے نامعلوم منزل کی جانب بڑھتا ہے۔ اس دوران جس قدر مصائب و آلام سے پالا پڑتا ہے۔ اسی قدر اس رویے کے اظہار میں شدت، تندی و تیزی آتی چلی جاتی ہے۔ سچ کی تکرار شاعر کی جبلّت میں داخل ہو جاتی ہے۔
ہم نے عرض کیا دیکھئے ملکا صاحب ہمیں اپنے سوال کے جواب لینے میں کچھ زیادہ عجلت بھی نہیں۔ ساتھ ساتھ غزل کارومان بھی برقرار رہنا چاہیے۔
ملکا صاحب: بنیادی طور پر میرا تعلق ضلع ننکانہ صاحب کے قصبہ سید والہ کے نواحی گاﺅں ملکا موج سے ہے۔ ملکا کھرل برادری کی ذیلی برانچ ہے۔ اسی مناسبت سے ملکا میرے نام کا حصہ ہے۔ وہیں پلے بڑھے، راوی کی لہروں سے کھیلے کودے۔ میٹرک مقامی سکول سے پاس کیا۔ بی اے کا امتحان گورنمنٹ ڈگری کالج جڑانوالہ سے پاس کیا یہیں سے میرا ادبی ذوق پروان چڑھا۔ یہ 1976ءتا 1980 کا زمانہ تھا۔ جب ایک جمہوری تحریک دم توڑ رہی تھی اور مارشل لاءکے آمرانہ دور کا آغاز ہو رہا تھا۔ انہی دنوں میرا یہ شعر طلباءاور اساتذہ میں یکساں طور پر مقبول ہوا۔
منزلوں دور کوئی سناٹا
تیری یادوں نے خود کشی کر لی
درد جذبہ جنوں کی مالا ہے
جب سے پائل نے خامشی کرلی
اسی غزل کا ایک شعر اور سن لیں
اَوس پڑتی رہی حوادث کی
سربرہنہ سی زندگی کر لی
نوائے وقت: لکھنے لکھانے کا باقاعدہ آغاز کب ہوا۔
حیات ملکا: یہ سب اسی زمانہ کے قصے ہیں۔ کالج لائف سے باقاعدہ افسانہ نویسی کا شوق چرایا۔ کالج میگزین ”رچنا“ کا دو سال تک چیف ایڈیٹر رہا۔ اس وقت میں افسانے لکھا کرتا تھا۔ پہلا افسانہ ”بستی سے دور“ لکھا جو باقاعدہ شائع ہوا۔ باقاعدہ افسانہ نویس اور شاعر مانے جاتے تھے۔ ساتھ ساتھ غزل کی طرف بھی میلان بڑھتا رہا۔ ہوتے ہوتے بالآخر غزل کے ساتھ ہی رشتہ پکا ہو گیا۔ آغاز میں ہم اس کی انگلی پکڑ کر چلتے رہے۔ آج اللہ کا شکر ہے کبھی کبھی ہم اس کی ضرور بن جاتے ہیں تو یہ ہمیں تنہائی میں آگھیرتی ہے۔
نوائے وقت: واہ کیا خوبصورت رومانٹک جملہ ہے۔
افسانے کا کیا ہوا؟
حیات ملکا: افسانہ ایک مشقت طلب کام ہے اس میں قباحت یہ رہی ہے کہ یہ ایک طویل عمل ہے۔ اس کے لئے وقت چاہئے۔ الگ بیٹھنا راتوں کو جاگنا، صفحوں پر صفحے لکھتے جانا اور مٹاتے جانا۔ اس میں الفاظ کی نشست و برخاست کی گنجائش اس قدر ہے کہ فیصلہ کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ طبیعت جھنجھلاہٹ کا شکار ہو جاتی ہے۔ یہ سب میرے بس کی بات نہیں تھی۔ چنانچہ میں نے شاعری کے ساتھ تعلق قائم کیا۔ اگرچہ اس میں بھی دوسرا مصرعہ تلاش کرتے کرتے عمر یں گزر جاتی ہیں۔
نوائے وقت: اب تک کتنا کچھ لکھ پائے۔
حیات ملکا: بہت کم لکھا اور لکھا بھی کم جاتا ہے تاکہ قاری بآسانی ہضم کر سکے۔ ابھی تک ایک ہی شعری مجموعہ ”دھوپ اور سائے“ کی منزل طے ہوئی ہے۔ اس میں غزلیں ہیں۔ غالباً یہ پچاس کے اوپر ہیں۔ اس میں ایک نظم بھی شامل ہے۔ جو محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے موقع پر لکھی گئی۔
پچھلی برسی کے موقع پر نوائے وقت نے اس نظم کو شائع کیا۔ احباب کی جانب سے اچھا رسپانس ملا۔
نوائے وقت: آپ اردو شاعری کا مستقبل کیا دیکھتے ہیں؟
حیات ملکا: یقینا آج کا شاعربا شعور ہے اور اس کا رابطہ اپنے قاری سے ہے۔ یہ قاری کے مسائل کو سمجھتا ہے۔ بلکہ بعض معاملات میں تو یہ قاری کے غم میں گھائل بھی ہے۔ بیسویں صدی کے شعراءکی ایک لمبی فہرست ہے جنہوں نے اردو شاعری میں لازوال تخلیقات کیں اور ہمیشہ زندہ رہنے والا کام کیا۔ اس فہرست میں اقبال بہت بڑا نام ہے جس کے ذہن سے آفاقیت نے جنم لیا۔ فیض احمد فیض، ناصر کاظمی، احمد ندیم قاسمی، فراز اور منیر نیازی یہ سب اپنے کام کے حساب سے بہت معتبر ہیں۔ میں سمجھتا ہوں معاشرتی اقدار زندہ ہیں تو شاعری کی سانسیں بھی رواں دواں ہیں۔ اکیسویں صدی کا آغاز شاندار ہے ۔اس کے خوبصورت انجام کے لیے دعا گو ہیں۔
نوائے وقت: آپ کا پسندیدہ شاعر
حیات ملکا: جدید عہد کے فیض احمد فیض جس نے ہجرو فراق کی گرمی کو اپنے مزاج کی ٹھنڈک سے پرسکون کیا، اندر کے انقلاب کو رومان میں تبدیل کیا۔ منیر نیازی یقینا جدید نظم کے عہد آفریں شاعر ہیں۔ باو ا آدم کی بھول منیر نیازی کی حیرت میں آکر تجسیم ہوئی۔گلزار نئے عہد کے تجربات سے گزر رہا ہے۔ نظم کی زبان میں بولتا ہے تو کمال کر دیتا ہے۔
نوائے وقت: پسندیدہ سیاسی لیڈر:
حیات ملکا: ذوالفقار علی بھٹو جن کا رومانس تیسری نسل تک آپہنچا ہے چشمِ فلک نے دیکھا، بھٹو صاحب کے جنازے کے ساتھ ننگے پاﺅں، پھٹے کپڑوں میں ملبوس بچے بھاگ رہے تھے۔ یہ انسان کیا تھا ایک بھونچال تھا۔ان کا ایٹمی پروگرام ریاست کی بقاءکی ضمانت ثابت ہوا۔ خدا اس جیسا ایک اور لیڈر پیدا کردے۔
آخر میں حیات ملکا کا کچھ کلام بطور نمونہ پیش ہے۔
حیات ملکا نے زندگی کے تلخ حقائق کو سفر کے استعارہ سے تعبیر کیا ہے شاید ان کی زندگی میں سفری لمحات کچھ زیادہ آئے۔ شام، شہر، سفر، زندگی کی اصطلاحات کا استعمال کثرت سے ہے۔ یہ غزل دیکھئے:
اب قیام آیا سفر کے بعد کو
بھول بھی جاﺅ سفر کی یاد کو
چھوڑ بھی دو مکاں کی فکر کیا
کھود ڈالو گے نئی بنیاد کو
آنکھ سے ہے آنکھ تک کا واقعہ
کون سمجھائے دلِ ناشاد کو
انقلابِ دَہر کی اس جنگ میں
ڈھونڈ کے لاﺅ میرے اجداد کو
اب طباعت کا لبادہ چاہیے
حسرتِ ناکام کی روداد کو
دوسرا مصرا تلاش کرتے عمریں گذر جاتی ہیں
Aug 21, 2013