”ڈینگی ڈے“........ پر مات کیسے؟

فرزانہ چودھری
ڈینگی بخار نے تو لوگوں مےں ملیریا اور ٹائفائیڈ بخار کے ڈر کو بھی مات دے دی ہے آج کل ہر کوئی ڈینگی مچھر سے خوفزدہ نظر آتا ہے۔ ڈبلیو ایچ او کے مطابق ایشیا میں ڈینگی کے بڑھتے ہوئے کیسز کی وجہ درجہ حرارت میں اضافہ‘ شدید بارشیں‘ سیلاب اور بڑھتی ہوئی آبادی ہے ۔ پاکستان دنیا کے ان سو ممالک میں سے ایک ہے جہاں ڈینگی وائرس پایا جاتا ہے۔ پاکستان میں 1995ءمیں ڈینگی وائرس سے متاثرہ ایک مریض کراچی میں رپورٹ ہوا۔ اس کے بعد 2006ءمیں ڈینگی وائرس سے متاثرہ اےک مرےض لاہور میں رپورٹ ہوا۔ اب تو پنجاب سمیت دوسرے صوبوں میں ڈینگی وائرس سے متاثرہ مریض رپورٹ ہو رہے ہیں۔ ان دنوں لاہور کے علاوہ سندھ میں بھی 20 کے قریب ڈینگی بخار میں مبتلا مریض رپورٹ ہوئے ہیں۔ شروع میں یہ مرض صاف پانی میں پیدا ہونے والے مچھر کے ذریعے پھیلتا ہے مگر بعد میں گندے پانی میں پیدا ہونے والا مچھر ڈینگی وائرس کے مریض کا خون چوس کر صحت مند افراد کے خون میں یہ وائرس منتقل کرنے کا ذرےعہ بنتے ہیں‘ جس سے ڈےنگی بخار کے مریضوں میں اضافہ ہونے لگتا ہے۔ ڈینگی بخار کی عام علامات تیز بخار‘ جسم میں شدید درد اور منہ اور بازوںپر سرخ دھبے پڑنا ہے۔ ماہرین طب کے مطابق ڈینگی وائرس انسانی خون میں داخل ہو کر سب سے پہلے تلی کی کارکردگی کو متاثر کرتا ہے۔ تلی انسانی جسم کا وہ عضو ہے جو جسم کا خون صاف کرتی ہے۔ تلی کا اہم ترین کام اینٹی باڈیز بنا کر جسم کے اندر جراثیم کے خلاف قوت مدافعت کو بڑھانا اور جسم میں پلیٹ لیٹس کی کمی کو پورا کرنا ہے۔ جب ڈینگی وائرس جسم میں داخل ہو تا ہے تو پلیٹ لیٹس اور خون کے سفید خُلےے تیزی سے تباہ ہونے لگتے ہیں اور جب ہزاروں کی تعداد میں تباہ شدہ خون کے سفےد خُلےے اور پلیٹ لےٹس تلی میں پہنچتے ہیں تو تلی پر ورم ہو جاتا ہے ےہ صورتحال نہ صرف انسانی صحت کے لےے بلکہ زندگی کے لےے بھی خطرناک ہوتی ہے۔
آج کل ڈینگی مچھر کی افزائش کے لئے بہترین ترین ماحول سمجھا جا رہا ہے۔ لوگ پچھلے سال ڈینگی بخار کے کئی                                                                مریضوں کی حلاکتےں دیکھتے ہوئے خوف زدہ ہیں۔ ذراےع کے مطابق سرکاری ہسپتالوں مےںڈےنگی بخار کی علامات کے آنے والے مرےض کو ڈےنگی بخار کے مرےض کے طور پر رجسٹر نہےں کےا جارہا ہے اس کی وجہ مےڈےا سے ڈےنگی کے مرےضوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کو چھپانا ہے۔ مےوہسپال مےں اس وقت رجسٹر پانچ چھ ڈےنگی بخار مےں مبتلا مرےضوں کا علاج ہورہا ہے دوسرے سرکاری ہسپتالوں بھی رجسٹر ڈےنگی کے مرےضوں کی تعداد لگ بھگ اتنی ہی بتائی جاتی ہے ۔ہم نے ڈےنگی کی موجودہ صوتحال کے بارے میں مےڈےسن کے معروف ڈاکٹرز سے بات کی کہ لوگوں کو ان حالات میں ڈےنگی سے بچاو¿ کے لےے کیا کرنا چاہئے۔
 ایسوسی ایٹ پروفیسر میڈےسن ڈاکٹر خالد محمود خان گنگا رام ہسپتال میں اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں۔ وہ حکومتی ڈینگی ایکسپرٹ ٹیم کے ممبر بھی ہیں۔ انہوںنے مون سون بارشوں اور سےلاب کی موجودہ صورتحال کے پیش نظر ڈینگی مچھر کی افزائش اور اس سے بچاو¿ کے حوالے سے بات کرتے ہوئے بتایا ” یہ حقیقت ہے کہ لاہور کے مختلف علاقوں میں ڈےنگی کا لاروا رپورٹ ہوا ہے مگر لوگوں کو خوف زدہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ لاروا سے مچھر بننے کا وقفہ تقریباً 7 دن کا ہوتاہے اگر لاروا کو ختم کر دیا جائے تو مچھر کی افزائس ہی نہیں ہو گی۔ حکومت ڈینگی مچھر کو کنٹرول کرنے کے لےے ترجیحی بنیادوں پر کام کر رہی ہے۔
گنگا رام ہسپتال میں تےز بخار مےں مبتلا مرےض تو آ رہے ہےں مگر ابھی تک ڈینگی بخار کے مریض کی تشخیص نہیں ہوئی ہے ۔ البتہ ڈےنگی کی سنگےنی کے بارے مےں ےہ ضرور بتانا چاہتا ہوں کہ اگر کسی مریض کو ایک بار ڈینگی بخار ہو چکا ہے تو اس کو پہلے سے مختلف ڈےنگی وائرس کا مچھر کاٹ لے تو تب ڈینگی بخار جان لیوا ثابت ہو سکتا ہے اس لئے لوگوں کو ڈینگی مچھرسے بچاﺅ کی تدابےر کرنے کی انتہائی ضرورت ہے۔ پچھلے سال گنگا رام ہسپتال میں تقریباً 17242 مریض بخار میں مبتلا آئے۔ ان میں سے پانچ ہزار مریضوں کے ڈینگی ٹیسٹ کروائے گئے تھے جن مےں چند ہزار ڈینگی بخار کے مریضوں کی پازیٹو رپورٹ آئی تھی جن کا علاج کیا گیا تھا۔ ڈینگی بخارکی تشخیص کے لئے پہلے NSI ٹےسٹ کےا جاتا ہے اس کے 6 دن بعد IGM ٹیسٹ کروایا جاتا ہے اس کی پازیٹو رپورٹ پر ہی ڈینگی بخار کنفرم کیا جاتا ہے۔ ڈینگی بخار میں پلیٹ لیٹس اور خون کے سفید خُلےے کم ہو جاتے ہیں۔ اس مرض سے بچاﺅ کے لئے بروقت اور موثر اقدامات کرنے سے ہی اسے وبائی طورپر پھیلنے سے روکا جا سکتا ہے کیونکہ موثر آگاہی مہم اور بروقت اقدامات سے ہی اس مرض کو کنٹرول کیا جا سکتا ہے ، یہ کام حکومت اور لوگوںکا ہے۔ ڈاکٹر کا کام تومریض کا علاج کرنا ہے ان پر ڈینگی مچھر سے بچاﺅ اور اسے کنٹرول کرنے کی ذمہ داری نہیں ہے۔ اس مرض سے بچاﺅ صرف اور صرف ڈینگی مچھر کے خاتمے سے ہی ممکن ہے۔ مچھر کے وائرس کی بھی کئی اقسام کے ہیں مگر اس بیماری کا پھیلاﺅ ایک خاص قسم کے مچھر جیسے Aeddes Aegypfi کہتے ہیں اس کے انسان کو کاٹنے سے ہوتا ہے۔ لوگوں کو رات کو جالی لگا کر سونا چاہئے اور گھروں میں مچھر مار اسپرے کروائیں۔“
ڈاکٹر خالد نے بتایا ”ڈینگی مچھر وائرس سری لنکا ‘ تھائی لینڈ ‘امریکہ ‘ ملائشیا‘ سنگاپور وغیرہ میں تو کئی سالوں سے موجود ہے۔ ان مملک مےں بھی ڈینگی مچھر کے پھیلاﺅ کو کنٹرول تو کیا گیا مگر ابھی تک اس پر قابونہیں پایا گیا۔ پاکستان میں پہلی بار 1994ءمیں کراچی مےںڈینگی بخار کا مریض رپورٹ ہوا۔ اس کے بعد 2006 ءمیں لاہور میں کئی مرےض ڈینگی کے رپورٹ ہوئے۔ پچھلے سال پنجاب حکومت نے ڈاکٹروں کی ٹےم سری لنکا اور تھائی لینڈ ڈےنگی بخار کے علاج کی تربیت حاصل کرنے کے لےے بھےجی تھی۔ اس لےے ڈاکٹر حضرات اس بیماری کے علاج کی خاصی مہارت رکھتے ہیں۔ “
پاکستان اکیڈمی فیملی فزیشن (طارق میاں گروپ) کے ایگزیکٹو ممبر اور سنٹر آفس بیورو ڈاکٹر محمد اعظم خان نے بارشوں اور سیلاب کے پیش نظر ڈینگی مچھر کی افزائش کے بارے مےں بتایا ” تےز بخار مےں مبتلا مرےض تو آرہے ہےں جن مےں ڈینگی بخار کے اکا دکا مریض ہیں ۔ ےہ ضروری بھی نہیں کہ تیز بخار ڈینگی مچھر کے کاٹنے کی وجہ سے ہی ہو کیونکہ اس موسم میں ملیریا بھی ہوتا ہے ۔تیز بخار کی وجہ ملیریا بھی ہو سکتی ہے۔ بہر حال بارشوں کا پانی اکٹھا ہونے کی وجہ سے ڈینگی مچھر کی افزائش کا تو دس سے پندرہ دن کے بعد ہی پتہ چلے گا۔ ڈینگی وائرس کی چار قسمیں ون، ٹو، تھری اور فور ہےں۔ لاہور میں 2001ءمیں لوگ ڈینگی وائرس ٹو کے بخار میں مبتلا ہوئے تھے مگر اس بار ڈینگی وائرس ٹو کے نہیں البتہ ڈ ینگی وائرس ون کے چند ایک کیسز رپورٹ ہوئے ہیں۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ جس کو ایک بار ڈینگی وائرس ٹو کا حلمہ ہو چکا ہے اس کو اگر دوبارہ ڈ ینگی وائرس ٹو کا ہی بخار ہوجائے تو کوئی خطرے کی بات نہیں ہے۔ عام طور پر جس کو ایک بار ایک کے قسم وائرس کا اٹیک ہوجائے اس کو دوبارہ اسی وائرس کے اٹیک کا اثر نہیں ہوتا، ہاں اگر اس کو کسی دوسری قسم کے ڈینگی وائرس کا اٹیک ہو جائے تو اس مریض کی ڈےنگی بخار سے جان بھی جا سکتی ہے۔
دل ، شوگر اور ٹی بی کے مریضوں کو ڈینگی مچھر سے بچاﺅ کی ا شد ضرورت ہوتی ہے ان کو مچھروں کے خاص موسم میں بہت احتیاط کرنی چاہےے کیونکہ دل ، شوگر اور ٹی بی کے مریض کو اگر ڈینگی بخار ہو جائے تو ان کے لےے 50فیصد سے زائد ےہ وائرس خطرناک ہوسکتا ہے ان امراض کے مریضوں کی ڈینگی کے حملے سے اموات کی شرح بڑھ جاتی ہے۔ ڈینگی مچھر کے کاٹنے سے تین سے پانچ دن تک بخار رہتا ہے اس کے بعد بخار اتر جاتا ہے۔ مریض کو بخار اترنے پر خوش ہو کر بے احتیاطی نہیں کرنی چاہئے اسے ےہ نہےں سمجھنا چاہےے کہ وہ ٹھیک ہو گیا بلکہ مریض کی پوزیشن اگلے 48 گھنٹوں میں خطرناک ہو سکتی ہے۔ مرےض کا بخار تو اتر جاتا ہے مگر جسم میں درد رہتا ہے۔ بے احتیاطی کرنے سے اگلے 48 گھنٹوں میں مرےض کی موت واقع ہو سکتی ہے۔ اس لئے جب بخار ہو تو تین دن تک خوب پانی پینا چاہئے جبکہ بخار اترنے کے بعد مریض کو 24 گھنٹے میں صرف آٹھ گلاس مایا حالت میں کوئی بھی چیز کھانے پینے کی استعمال کرنی چاہئے۔ مریض کو مکمل آرام کرنا چاہئے۔ بازار کی پکی کوئی چیز نہیں کھانی چاہئے۔ مریض کو ڈاکٹر کی ہدایت پر لازمی عمل کرناچاہےے۔ فیصل آباد میں ڈینگی وائرس ٹو کے مریض رپورٹ ہوئے ہیں۔ ڈینگی وائرس کی چاروں اقسام حملے کی صورت میں انسانوں کےلئے خطرناک ہو سکتی ہیں۔ ہر 20 منٹ کے بعد وائرس کی نئی نسل آ جاتی ہے اس لئے وائرس اپنی نسل تبدیل کرتا رہتا ہے۔ ڈینگی مچھر کے کاٹنے سے فوری بخار نہیں ہوتا۔ اس کی علامات سات سے چودہ دن کے بعد ہی ظاہر ہوتی ہیں۔ پنجاب حکومت ڈینگی مچھر کو کنٹرول کرنے کےلئے سنجیدگی سے کام کر رہی ہے جب ہم پنجاب حکومت کی طرف سے سری لنکا اور تھائی لینڈ ڈینگی بخار کے علاج اور اسے کنٹرول کرنے کی تربیت لےنے گئے تھے تو وہاں کی گورنمنٹ کا کہنا تھا کہ اگر میاں شہباز شریف ہمارے پاس ہوتے تو ہم کب کا ڈینگی وائرس پر قابو پا چکے ہوتے۔ میاں شہباز کی جدوجہد اور کام نظر آ رہا ہے۔
ڈینگی بخار سے بچنے کےلئے علاج سے پہلے احتیاط کی ضرورت ہے۔ آجکل ڈینگی مچھر کی افزائش کا موسم ہے۔ اس لئے شام اور صبح کو باغ میں سیر یا ورزش کرنے جاتے وقت احتیاط کرنی چاہےے کیونکہ ڈینگی مچھر ان اوقات میں ہی حملہ آور ہوتا ہے۔ جن جگہوں پر پانی کھڑا ہے وہاں مچھر مار اسپرے کروائیں۔ پوری بازوﺅں کی قمیض پہنیں۔ جدید میڈیکل سائنس میں ڈینگی اور پلیٹ لیٹس کی کوئی دوا یا ویکسین موجود نہیں ہے اور نہ ہی کوئی علاج موجود ہے۔ سوائے اس کے کہ اگر مریض کے پلیٹ لیٹس کم ہو جائیں تو انتہائی کمی کی صورت میں صحت مند انسان کے پلیٹ لیٹس حاصل کر کے مریض کو لگا دیئے جائیں اور یہ کوئی موثر علاج نہیں ہے۔“
فیملی فزیشن ڈاکٹر آصف محمود جاہ نے بتایا کہ ” ہمارے پاس ہر روز دو تین مریض تیز بخار میں مبتلا آ رہے ہیں اور ان کی ٹیسٹ رپورٹ کے بعد ان میں ڈینگی وائرس کنفرم ہوا ہے۔ لاہور کے مختلف علاقوں مثلاً علامہ اقبال ٹاﺅن، شالیمار ٹاﺅن، راوی ٹاﺅن، واپڈا ٹاﺅن، داتا ٹاﺅن ، عزیز بٹھی ٹاﺅن اور سمن آباد کے علاقوں کے پانی کے لیبارٹری ٹیسٹ سے لاروا کی تصدےق ہوئی ہے۔ لاہور میں مسلسل کئی روز تک بارش ہونے سے پانی اکثر جگہوں میں کھڑا ہے۔ ڈینگی مچھر کی افزائش کی بہترین جگہ پانی ہے۔ حکومتی ٹیم نے ٹائرز مارکیٹ اور ٹائروں کے گوداموں میں چھاپہ مارا ہے اور جن گوداموں مےں ٹائروں مےں کھڑے پانی مےں لاروا ملا ہے ان کے مالکان کے خلاف کاروائی بھی کی ہے۔ حکومتی ٹےم نے IBL کالج آف کامرس کے مالک کو بھی اسی سلسلہ مےں گرفتار کےاتھا۔ حکومتی ٹیم ان کو پہلے بھی وارننگ نوٹس دے چکی تھی کہ وہ کالج میں صفائی کا خاص خیال رکھیں، پانی کھڑا نہ رہنے دیں۔
جیسا کہ آپ کو معلوم ہے کہ ملک میں سیلاب بھی آیا ہوا ہے میں وہاں گیا تھا وہاں کے علاقوں کا کوئی پرسانِ حال نہیں وہاں جلدی امراض وبائی صورت اختیار کر چکی ہیں۔ میرے خیال سے تو ڈینگی مچھر کے حوالے سے صورتحال سنگےن ہو رہی ہے۔ اگر لاروا کو افزائش کے لےے مناسب موسمی ماحول اور درجہ حرارت نہ ملے تو وہ وےسے ہی موجود رہتا ہے اس لےے لاروا کو دوباہ جب کبھی بھی افزائش کے لےے مناسب ماحول ملتا ہے تو وہ کافی سالوں بعد بھی ایکٹو ہو سکتا ہے۔ اس لئے لاروا کو ختم کرنا ہی اس مرض کا سدباب ہے۔“
ڈاکٹر آصف محمود جاہ نے بتایا ” ڈینگی بخار کا کوئی اےلو پےتھک علاج نہےں ہے اس مےں صرف جسم مےں درد کے لےے دوا دی جاتی ہے۔ مےں اس بخار کا بہترین علاج پپیتا کا شربت سمجھتا ہوں کیونکہ یہ میرا آزمودہ ہے ۔ میں نے پپیتے کے پتوں کا شربت پچھلے سال تےار کر کے متعارف کرواےا تھا جس سے مرےضوں کو آفاقہ ہوا۔ پلیٹ لیٹس کی بحالی کےلئے عرق پپیتا بہترین چیز ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ پپیتہ کے پتوں میں ایک انزائم پاپین (PAPain) پایا جاتا ہے جس میں 212 امائنوایسڈز پائے جاتے ہیں۔ یہ انزائم جس میں داخل ہو کر ڈینگی وائرس کے خلاف اینٹی باڈیز پیدا کرتا ہے اور تلی میں فاسد مادے خارج کرکے قوت مدافعت بڑھا کر ڈینگی وائرس کے خلاف فائٹو کیمیکل فراہم کرتا ہے جس کی بدولت ڈینگی وائرس ختم ہو جاتا ہے۔ پپیتے کے دو تازہ پتے یا ان کا رس صبح شام پینے سے پلیٹ لیٹس حیران کن طور پر چند گھنٹوں میں بہتر ہو جاتے ہیں ۔“
 ڈاکٹر بلال منےر احمد نے بتاےا”آج کل ملک کے طول و عرض میں بارشوں کا سلسلہ جاری ہے جس کے ساتھ ہی ڈینگی بخار کاذکر بھی ہونے لگا ہے۔ ڈینگی بخار بنیادی طور پرایک انفیکشن ہے اور مخصوص مادہ مچھر aedes کے کاٹنے سے پھیلتا ہے۔اس وائرس کی چار مشہور اقسام ہیں جن میں سے کسی ایک کی بھی انسان مےںمنتقلی ڈینگی بخار کا باعث بن سکتی ہے۔پاکستان میں اس وقت ڈینگی مچھر کی دو اقسام کی موجودگی کی تصدیق ہو چکی ہے اورکسی انسان کے ایک سے چار مرتبہ اس بیماری کا شکار ہونے کے خدشات موجود ہیں چنانچہ مچھر کے کاٹنے سے بچاﺅ کے لئے ہر ممکن اقدام ضروری ہے۔ڈینگی بخار دنیا کے گرم اور نیم گرم علاقوں میں پایا جاتا ہے اورایک محتاط اندازے کے مطابق دنیا بھر میں ۱۰۰ ملین سے بھی زیادہ افراد ہر سال اس کا شکار ہو جاتے ہیں مگر مناسب سہولیات اور بروقت اقدامات کی بدولت اس سے صحت مندہونے کے امکانات بہت زیادہ ہیں چنانچہ صرف ایک فیصد افراد موت کا شکار ہو سکتے ہیں۔ڈینگی مچھر اگرچہ صاف پانی میں نشوونما پانے والا مچھر ہے مگر اس کی دوسر ی جگہوں پر موجودگی خارج از امکان نہیں چنانچہ موسم برسات میں یہ بہت زیادہ بڑھ سکتا ہے۔یہ مچھر طلوع آفتا ب اور غروب آفتاب کے وقت تو کاٹتے ہیں ہی مگر یہ دن کے کسی بھی وقت کاٹ سکتے ہیں۔
مسلسل بارشوں کے ساتھ ہی ڈینگی کے مریضو ں کی ملک کے مختلف ہسپتالوںمیں آمد اور ان میں اضافہ کو تشویشی نگاہ سے دیکھنا ضروری ہے کیونکہ موسم برسات کے ساتھ ساتھ ملک میں ڈینگی کی ایک سے زیادہ اقسام کی موجودگی ڈینگی بخاراور اس کی شدت کو خطرناک حد تک بڑھا سکتی ہے جس کی وجہ سے شرح اموات میں اضافہ بھی ممکن ہو سکتا ہے
یہ بیماری ایک مریض سے دوسرے مریض سے نہیں بلکہ متاثرہ مچھر کے کاٹنے پر ہی پھیلتی ہے اس لئے مریضوں کو گھر والوں سے علیحدہ کرنے کے بجائے مچھر کے کاٹنے سے بچاﺅ کے اقدامات ضروری ہیں۔ہسپتالوں میں مریض کا علیحدہ کرنا یا مچھر دانیوں کا استعمال اس کے مزید بڑھاﺅ کا روکنے کے لئے کیا جاتا ہے تاکہ مچھر متاثرہ مریضوں کا ٹ نہ سکیں۔
ڈینگی بخار کی علامات میں اچانک تیز بخار،شدید سر درد،آنکھوں کے پیچھے درد،شدید جوڑوں اور پٹھوں کا درد،قے اور متلی شامل ہیں۔بخار کے آغاز کے تین سے چار دن بعدجلد پر سرخ نشانات اور ناک یا مسوڑھوں سے خون بھی نکل سکتا ہے۔کبھی کبھی ان علامات کی نوعیت فلو یا کسی اور وائرل انفیکشن کی طرح بھی لگتی ہے۔چھوٹے بچوں اور لوگوں کو جو اس سے پہلے اس کا شکار نہ رہے ہوں میں شدت کم ہوتی ہے مگر بڑی عمر کے بچے اور ایسے لوگ جن میں قوت مدافعت کمزور ہو ان میںبیماری کی شدت سنگین صورتحال اختیار کرنے کے زیادامکانات ہوتے ہیں ۔ڈینگی بخار کی تشخیص ظاہری علامات اور لیبارٹری ٹیسٹ کے ذریعے ممکن ہے۔لیبارٹری ٹیسٹوں میں cbcٹیسٹ کے ذریعے پلیٹ لیٹس کی تعداد میں کمی کو نوٹ کیا جاتا ہے۔اس کے علاوہ جسم میں ڈینگی امیونو گلابولن ۔ایم(Dengue Ig M)کی موجودگی کا ٹیسٹ بھی کیا جاتا ہے۔یہ اینٹی باڈیزجسمانی مدافعتی نظام کا بنیادی جزو ہیں مگر ان کو جسم میں بننے میں چار سے پانچ دن لگ سکتے ہیں ۔شروع کے چار سے پانچ دنوں میں ڈینگی اینٹی جن(Dengue NS1) کی موجودگی کی تشخیص پی سی آر ٹیسٹ کے ذریعے بھی ممکن ہوتی ہے اس کے بعد آئی جی ایم(Ig M) اور پھر آئی جی جی (Ig G) ٹیسٹ مثبت آسکتا ہے۔ڈینگی بخار کے علاج کے لئے درد کش ادویا ت کا استعمال کیا جاسکتا ہے مگر خیال رہے کہ اس میں اسپرین شامل نہ ہو جو کہ خون کا اخراج روکنے کے بجائے اس کے بہاﺅ کو مزید تیز کر دیتی ہیں۔ڈینگی کی روک تھام کے لئے ہمیں انفرادی طور پر یہ دیکھنا ہے کہ ہمارے گھروں اور دفتروںمیںگملوںاور کیاریوں میں پانی نہ کھڑاہو،پرانے ٹائر،پانی سے بھرے برتن کسی بھی جگہ کھلے نہ پڑے ہوں،اے سی کا پانی کسی جگہ جمع نہ ہو،اپنے روم کولر سے پانی نکال کر اسے خشک کردیں،اپنی گاڑی اور موٹر سائکل کے دھونے کی جگہوں کے خشک ہونے کی تصدیق کرلی جائے اور گھر میں موجود سٹوریا چھت پر موجود کاٹھ کباڑ پر سپرے کیا جائے،پوری آستینوں کے کپڑے خود بھی پہنیں اور بچوںکو بھی پہنائےں،مچھر مار اسپرے گھر میں ہر جگہ اور باقاعدگی سے کیا جائے ،مچھر مار لوشن کا جسم پر استعمال اورسونے سے پہلے میٹ یا کوائل کا استعمال کارآمد ثابت ہو سکتا ہے۔اپنے گھر کے دروازے اوکھڑکیوں کی جالی کو بند رکھا جائے ان چند اقدامات سے ہم اپنے آپ کو ڈینگی کے خطرے سے محفوظ رکھ سکتے ہیں۔
 اگرچہ حکومت نے سابقہ دور میںبلا شبہ قابل تحسین اقداما ت کئے ہیں پنجاب حکومت نے ڈینگی کی روک تھام کے لئے بلا مبالغہ جنگی بنیادوں پر کام کیا ہے جس کے نتیجے میں سینکڑوں قیمتی جانوںکا بچاﺅ ممکن ہو سکا ۔بارشوں کی بہتات اور ڈینگی کی افزائش کے لئے موزوں ماحول اس امرکا متقاضی ہے کہ ڈینگی کی روک تھام کے امور کوگزشتہ کی طرح اس سال بھی حکومتی اور عوامی سطح پر اولین ترجیح دی جائے ،اس سے باخبر رہا جائے اور ڈینگی لاروے کی بروقت نشاندہی اور تدارک کیا جائے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ڈینگی کنٹرول کرنے کے لئے اسی جذبے کو بیدار رکھا جائے اور تمام تر عوام اس مشن میں حکومت کا ساتھ دینے کے ساتھ ساتھ اس کو اپنی ذمہ داری سمجھیں تاکہ اس وباءپر قابو پایا جاسکے
 

ای پیپر دی نیشن