مظہر حسین شیخ .......
پیارے بچو! سینکڑوں سال سے بہت سی کہاوتیں یا ضرب المثل چلی آ رہی ہیں جنہیں ہم آج بھی استعمال کرتے ہیں۔ ان کہاوتوں یا مثالوں کے پیچھے کوئی نہ کوئی ایسی وجہ، واقعہ یا کہانی چھُپی ہے جس کے منظرعام پر آنے کے باعث وہ کہاوت یا مثل کی شکل اختیار کر گئی۔ یہ کہاوتیں اور مثالیں حقائق پر مبنی ہیں اور حالات و ماحول کے مطابق استعمال میں لائی جاتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ علماء ان کہاوتوں یا مثالوں کو بہت اہمیت دیتے تھے۔ یوں تو یہ سینکڑوں کی تعداد میں ہیں مگر چند معروف کہاوتوں کا تفصیلاً ذکر کرتے ہیں۔ ایک عام مثال کہی جاتی ہے کہ ’’
کوّا چلا ہنس کی چال
اپنی بھی چال بھُولا‘‘۔ یہ اس وقت کہی جاتی ہے ،جب کوئی شخص اپنی حیثیت سے بڑھ کر کوئی کام کرے اور اس میں نقصان اٹھائے۔ کہتے ہیں ایک بار کسی دیوتا نے پرندوں کی ایک سلطنت قائم کرنے کا سوچا اور منادی کرا دی کہ فلاں روز سب پرندے حاضر ہوں جو ان سب میں حسین ہو گا اس کو بادشاہ بنایا جائے گا۔ ایک کالے کوے کو بادشاہ بننے کی بڑی تمنا تھی۔ اس نے ہنس کو خوبصورت سمجھ کر اس کے ادھر اُدھر گرے ہوئے پر اٹھائے اور اپنے تمام بدن پر سجا لئے۔ جب تمام پرندے حاضر ہو گئے تو کالا کوا بھی ہنس کے بھیس میں آیا اور پھر خوبصورت ہونے کی وجہ سے اسی کا انتخاب بھی ہو گیا۔ پرندوں نے اس کی چال سے سمجھ لیا کہ یہ ہنس نہیں ہے بلکہ اس کی چال کچھ کوے جیسی لگتی ہے چنانچہ انہوں نے فوراً اس کے سارے پر نوچ لئے جس کے باعث کوا اپنی اصل شکل میں سامنے آ گیا لہٰذا اسی وقت سے یہ مثل بھی مشہور ہو گئی کہ ’’کوّا چلا ہنس کی چال‘‘۔ تو بچو! یہ مثل بھی بہت مشہور ہے اور اکثر بولی جاتی ہے کہ
دال میں کچھ کالا ہے
کسی پوشیدہ بات کی طرف اشارہ کرنے کے لئے یہ مثل بولتے ہیں یعنی ظاہراً تو کچھ نہ ہو لیکن باطن میں کوئی نہ کوئی عیب یا خرابی ضرور ہو۔ کہتے ہیں کہ ایک سوداگر بچہ تجارت کی غرض سے کسی شہر میں گیا۔ جاتے وقت لوگوں نے اس کو آگاہ کر دیا تھا کہ جہاں جا رہے ہو وہاں کے لوگ انتہائی جھگڑالو اور شرپسند ہیں ان سے ہوشیار رہنا۔ سوداگر بچے نے اس شہر میں پہنچ کر ایک سرائے میں قیام کیا اور چند دنوں کے لئے ایک ملازم بھی رکھ لیا۔ اگلے دن ایک کانے آدمی نے سوداگر بچے سے آ کر کہا کہ غالباً آپ کے والد کا انتقال ہو گیا ہے شاید اسی وجہ سے آپ خود یہاں تشریف لائے ہیں؟ وہ بیچارے جب بھی یہاں تشریف لاتے تو اسی سرائے میں قیام کرتے تھے۔ سوداگر بچہ اس کانے شخص کی باتوں سے سمجھ گیا کہ اب یہ کوئی دغا بازی کرنے والا ہے اس لئے وہ ہوشیار ہو گیا۔تھوڑی دیر کے بعد کانے نے کہا۔ آپ کے والد آنکھوں کی تجارت کرتے تھے۔ ان کے پاس میں نے اپنی ایک آنکھ گروی رکھ کر کچھ روپے لئے تھے اب آپ وہ روپے لے کر میری آنکھ واپس کر دیجئے۔ سوداگر بچہ یہ سن کر بہت گھبرایا اور اس کانے کو کل کا وعدہ کر کے اس وقت تو ٹال دیا۔ اگلے دن جب آیا تو سوداگر بچہ اس کا جواب دینے کے لئے تیار ہو چکا تھا۔ اس نے کانے سے کہا کہ میرے پاس والد مرحوم کی گروی رکھی ہوئی سینکڑوں آنکھیں ہیں۔ میں رات بھر تمہاری آنکھ تلاش کرتا رہا لیکن نہ مل سکی۔ اب صرف یہی طریقہ ہے کہ تم دوسری آنکھ بھی مجھے دے دو تاکہ میں اس کے ساتھ ملا کر تلاش کر لوں اور تمہیں دے دوں۔ اس کے علاوہ مجھے یہ بھی خیال آیا کہ کہیں کسی دوسرے کی آنکھ بدل نہ جائے۔ کانے نے جب یہ سنا تو سمجھ گیا کہ یہاں دال گلنا دشوار ہے۔ وہ سوداگر بچے سے اپنی جان چھڑوا کر وہاں سے رفوچکر ہو گیا۔ سوداگر بچہ جب اس شرپسند اور منافقوں کے شہر سے دلبرداشتہ ہو کر نکلنے لگا تو اس نے ملازم کو تنخواہ دینا چاہی۔ ملازم نے کہا کہ حضور نے ملازمت دیتے وقت کہا تھا کہ کچھ دیں گے، روپوں کا معاہدہ نہیں ہوا تھا اس لئے مجھے روپے نہیں بلکہ کچھ چاہئے۔ سوداگر بچہ سوچنے لگا اور ایک ترکیب اس کے ذہن میں آ ہی گئی۔ اس نے ملازم کو بازار بھیج کر ٹال دیا اور اس روز کی پکی ہوئی مسور کی دال ایک کوزے میں بھری۔ پھر تھوڑی سی کالی مرچیں ڈال کر کوزے کو الماری میں رکھ دیا۔ ملازم جب واپس آیا تو سوداگر بچے نے کہا کہ دیکھو تو الماری میں کیا رکھا ہے؟ حضور اس میں دال ہے۔ سوداگر بچے نے کہا! اور کیا ہے؟ ملازم بولا۔ کالا کالا معلوم ہوتا ہے۔ سوداگر بچے نے کہا! کالا کالا کیا ہے؟ ملازم نے کہا! کچھ ہے۔ سوداگر بچے نے اسی وقت کہا! جس کچھ دینے کا میں نے تم سے وعدہ کیا تھا، وہ یہی ہے۔ تم اس کو لے لو اور اپنے گھر کا راستہ لو۔ اس وقت سے یہ مثل مشہور ہو گئی کہ دال میں کچھ کالا ہے۔ایسی ہی مثال آپ نے اکثر سنی ہو گی
انگور کھٹے ہیں
یہ اس وقت کہتے ہیں جب کہیں پر کسی کا بس نہ چلے تو وہ کہے کہ میں یہ کام کرنا ہی نہیں چاہتا یا پھر خود کو اعلیٰ کردار ظاہر کرے کہ میں دو نمبر قسم کے کام نہیں کرتا۔اس کی کہانی کچھ یوں ہے کسی دیوار پر انگوروں کی بیل تھی اور اس پر انگوروں کے گچھے لٹک رہے تھے۔ ایک لومڑی کا وہاں سے گذر ہوا۔ انہیں دیکھ کر اس کے منہ میں پانی آ گیا۔ وہ قریب گئی۔ اس نے دیکھا کہ انگور کافی اونچے ہیں۔ اس نے بہت اچھل کود کی کہ کسی طریقے سے انگوروں تک پہنچ جائے مگر انگور اونچے ہونے کی وجہ سے وہ ان کو حاصل کرنے میں ناکام رہی۔ آخر تھک گئی۔ جب بس نہ چلا تو یہ کہہ کر چل دی کہ یہ سب انگور تو کھٹے ہیں۔ انہیں کھانے سے کیا فائدہ۔بچو یہ مثل بھی بہت مشہور ہے اور عام بولی جاتی ہے کہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ایک مرتبہ ایک بندر کسی دودھ والے کی دکان سے پیسوں کا غلہ اٹھا کر لے گیا اور ایسے درخت پر جا بیٹھا جو دریا کے کنار ے تھا۔ وہ غلے سے پیسے نکال کر کبھی خشکی پر پھینک دیتا اور کبھی دریا میں اِس کو دیکھ کر کسی تماشائی نے کہا کہ یہ ’’دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کر رہا ہے‘‘۔ یعنی دودھ والے نے دودھ میں جتنا پانی ملایا اس کے پیسے دریا میں پھینک دئیے اور دودھ کی قیمت خشکی پر۔ تاکہ دودھ والا آ کر اٹھا لے۔
چور کی داڑھی میں تنکا
کہتے ہیں کسی زمیندار کی بھینس چوری ہو گئی۔ زمیندار نے قاضی کے پاس جا کر فریاد کی اور مشکوک آدمیوں کے نام بتائے۔ قاضی نے ان سب کو جمع کر کے کہا کہ جس نے بھینس چرائی ہے مجھے معلوم ہو چکا ہے کیونکہ اس کی داڑھی میں تنکا ہے۔ ان لوگوں میں چور بھی موجود تھا اس نے سوچا کہیں میری داڑھی میں تنکا نہ ہو، اس نے فوراً ہی اپنی داڑھی پر ہاتھ پھیرا ۔ جبکہ باقی لوگ ہاتھ نیچے کئے کھڑے تھے اس حرکت پر وہ فوراً ہی پکڑ لیا گیا۔ اس نے اقرار جرم کر لیا اور اسے بھینس واپس کرنا پڑی۔ یہ والی مثال تو آپ خوب جانتے ہوں گے کہ
بلی شیر کی خالہ ہے
اب بلی شیر کی خالہ کیسے ہے ہم آپ کو بتاتے ہیں۔ ایک دن شیر نے بلی سے کہا کہ ہمارا خاندان ایک ہے اور آپ رشتے میں ہماری خالہ ہیں اس لئے ہمیں شکار کرنے کے تمام طریقے بتائیں تاکہ ہم بھی شکار کرنے میں تجربہ کار ہو جائیں۔ بلی نے شیر کو شکار کرنے کے طریقے سکھانا شروع کر دئیے۔ بلی نے کہا کہ میں نے آپ کو شکار کرنے کے تمام طریقے سکھا دئیے ہیں اب آپ ایک تجربہ کار شکاری ہیں۔ شیر نے کہا کہ خالہ جان کوئی طریقہ رہ تو نہیں گیا؟ بلی نے کہا نہیں سب سکھا دئیے۔ یہ سنتے ہی شیر بلی کا شکار کرنے کے لئے اس پر جھپٹا۔ بلی پھرتی سے ایک درخت پر چڑھ گئی۔ شیر منہ تکتا رہ گیا اور بولا۔ خالہ جان درخت پر چڑھنے کا طریقہ تو آپ نے سکھایا ہی نہیں۔ بلی بولی اگر یہ بھی سکھا دیتی تو آج اپنی جان کیسے بچاتی۔ تو بچو! وہ مثالیں اور کہاوتیں جن کے پیچھے کوئی نہ کوئی کہانی، واقعہ یا سبق موجود ہے۔ اس لئے جب بھی کوئی بات ہوتی ہے تو ان ضرب المثل کو موقع کی مناسبت سے دہرایا جاتا ہے۔