آئین کیا ہے؟ غیر آئینی کیا ہے؟ جمہوریت کے تقاضے کونسے ہیں؟ آج کل یہ بحث ہمارے ہاں سیاسی و غیر سیاسی حلقوں میں جاری ہے، عوامی تحریک کے 19 افراد پنجاب پولیس نے سانحہ ماڈل ٹاﺅن میں بھون ڈالے اور تقریباً 80افراد سے زیادہ افراد پولیس کی گولیوں سے زخمی ہوئیے جسٹس باقر علی کی سربراہی میں مذکورہ واقعہ کی تحقیقات کے لئے کمیشن مقرر کیا گیا جو کہ تقریباً ایک ہفتہ قبل اپنی رپورٹ حکومت کو دے چکا ہے مگر حکومت اس رپورٹ کو شاید دبائے ہی رکھنا چاہتی ہے اگر ایسا ہی کرنا تھا تو تحقیقات کرانے کا فائدہ؟ تو کیا یہ حکومت کا آئین و جمہوری رویہ ہے؟ اتنے افراد مارے گئے مگر ابھی تک مقدمہ درج نہیں ہوا، کیوں؟ یہاں تک کہ چند روز قبل ایڈیشنل سیشن جج صاحب بھی مقدمہ درج کرنے کا حکم جاری کر چکے ہیں۔ مگر تاحال عدالت کے احکامات بھی حکومت کے نزدیک کوئی اہمیت نہیں رکھتے۔ پھر بھی وزیر اعلیٰ پنجاب، وزیر ”پروپیگنڈہ“ پرویز رشید، خواجہ سعد رفیق وغیرہ ناکام لیگ کے ”جیالے“ آئین و جمہوریت کی پاسداری کے دعوے کرتے ہوئے ذرا بھی ”ہچکچاہٹ“ محسوس نہیں کر رہے۔ اگر اس وقت مذکورہ واقعہ کا نوٹس لے لیا جاتا اور ذمہ داروں کو فوراً سزا دے دی جاتی تو آج شاید یہ حالات رونما نہ ہوتے۔ یہی حال تحریک انصاف کا ہے۔ پہلے دن سے عمران خان کا مطالبہ تھا کہ چار حلقے کھول دیئے جائیں۔ اگر حکومت کا دعویٰ ہے کہ انتخابات شفاف اور ”پوتر“ ہوئے ہیں تو چار حلقے کھولنے میں بھی مضائقہ نہیں تھا۔ مگر ناکام لیگ نے ٹال مٹول سے کام لیا۔ اور ناکام لیگ کے ”جیالے“ الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے کے مصداق نہ صرف عمران خان کا مذاق اڑاتے رہے بلکہ اسے ”آئین کی پاسداری“ کا درس بھی دیتے رہے۔
وزیر قانون رانا مشہود جو کہ آج کل بذات خود بھی ”زیرعتاب“ ہیں نے یہاں تک چند روز قبل کہہ دیا کہ وہ آئین میں چار حلقے کھولنے کی کوئی شق نہیں ہے۔ سبحان اللہ تو جناب یار لوگ پوچھتے ہیں کہ کیا آئین میں یہ درج ہے کہ دھاندلی کر لو اور جو اس کی شفاف تحقیقات کا مطالبہ کرے اسے آئین کے احترام کا سبق بھی پڑھاﺅ اور خود صرف زبانی حد تک آئین آئین اور جمہوریت کا ورد کرتے رہو اور کام سارے ”غیر آئینی“ اور ”آمرانہ“ سر انجام دیتے رہو۔ آج دونوں پارٹیاں اسلام آباد میں ”دھرنے“ پر ہیں۔ بجائے یہ کہ انکے جائز مطالبات جو کہ واقعہ ہی آئینی ہیں انہیں فوراً پورا کیا جائے تاکہ سیاسی کشیدگی کم ہو مگر نہیں الٹا پرویز رشید سمیت سب حکومتی ”جیالے“ طنزیہ بیان بازی کرنے میں مگن ہیں یہ کونسا طرز حکومت و انداز سیاست ہے۔ اگر 19 افراد جو کہ بے گناہ تھے ان کا اندھا دھند قتل حکومت کی طرف سے آئینی و جمہوری تھا تو بخدا آنے والے دنوں میں بدصورت رونما ہونے والے واقعات کوئی بھی نہیں روک پائے گا۔ آج تک اگر پندرہ ماہ میں ”ناکام لیگ“ نے کوئی ایک بھی عوامی مسئلہ حل کیا ہوتا تو ناکام لیگ کو اس کا ضرور کریڈٹ ملتا مگر اس لحاظ سے بھی ان کی کارکردگی منفی صفر ہے۔ زبانی جمع خرچ کے حساب سے ناکام لیگ کی طرف سے تمام مسائل حل کئے جا چکے ہیں۔ حکومت ہوش کے ناخن لے ہٹ دھرمی اور ضد چھوڑے اور ان دونوں پارٹیوں کے جائز مطالبات فوری پورا کرے۔
یہ حکومت وقت کی آئینی و اخلاقی ذمہ داری بھی ہے اور ”جمہوری“ تقاضا بھی یہی ہے بجائے یہ کہ افرادی قوت پر بیان بازی کی جائے۔ فرض کریں عوامی تحریک اور PTI کے دھرنوں میں چند سو افراد بھی ہو تو پھر بھی ان کے جائز مطالبات کی طرف توجہ دی جائے ضروری نہیں کہ 10 لاکھ افراد ہی جو بات کہیں گے وہی سچ ہو گا۔ ایک فرد بھی اگر کسی نا انصافی کا تذکرہ کرتا ہے تو اسے بھی انصاف مہیا کیا جائے۔ پورے ملک کی پولیس انکے اردگرد جمع کرنے کی بجائے انکے مطالبات جو کہ آئینی ہیں انہیں فوراً پورا کرنے کی طرف توجہ دی جائے۔