ملک اعظم
پاکستان میں سیاسی بحران عروج پر ہے۔ تحریک انصاف نے چاروں حلقوں کی گنتی اور انتخابی دھاندلی کے خلاف شروع ہونے والی احتجاجی تحریک نے پاکستان کی سیاسی تاریخ میں بھونچال برپا کر دیاہے اور رہی سہی کثر طاہرالقادری کے انقلاب نے پوری کر دی ہے جو ماڈل ٹاﺅن کے شہداءکے ناقابل فراموش واقعے کے ساتھ میدان عمل میں ہے۔14 اگست کو شروع ہونے والے آزادی مارچ اور انقلاب مارچ نے قومی دارلحکومت کی طرف رُخ کیاتو حکومت کو اس بات کا تصور بھی نہ تھا کہ تحریک انصاف جس کو ممی ڈیڈی اور برگر پارٹی ہونے کا تانہ دیا جاتا تھا،کسی انتہائی تجربہ کار اور مقبول سیاسی پارٹی کی طرح کامیاب مارچ کر سکے گی۔ایک بہت بڑے شو آف پاور کے بعد تحریک انصاف کا آزادی مارچ چودہ گھنٹے کے بعد لاہور سے نکلنے میں کامیاب ہوا۔کامونکی ،مریدکے اور گوجرانوالہ پہنچتے ہوئے صبح کی کرنیں پھوٹ رہی تھیں ۔لوگ ساری رات تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کا انتظار جی ٹی روڈ پر کرتے رہے۔گوجرانوالہ میں مسلم لیگ (ن) کے کارکنوں نے آزادی مارچ کے ہزاروں شرکاءپر چڑھائی کردی جس پرشدید احتجاج کے بعد عمران خان کو انتہائی سخت سیکورٹی مہیا کی گئی۔گجرات ،لالہ موسیٰ،جہلم ،گجرخان اور دینہ میں لوگ ہزاروں کی تعداد میں جی ٹی روڈ پر آ کر عمران خان کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے گھنٹوں کھڑے رہے۔لاہور سے لے کر اسلام آباد تک صدر پنجاب اعجاز چوہدری نے تمام مقامی تنظیموں سے فون پر مسلسل رابطے رکھے اور انتظامات کی براہ راست نگرانی کرتے رہے۔شاہ محمود قریشی نے لگتا ہے کہ اپنے آپ کو عمران خان کی پسند کی شخصیت میں ڈھال لیا ہے۔عوامی خطابات میں جارحانہ انداز اور عمران خان کے لیے نعرہ لگوانااور سیسہ پلائی دیوار کی طرح اُن کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑے ہونا اُن کو بلاشبہ عمران خان کے نائب کی حیثیت سے ممتاز کر دیتا ہے۔
اسلام آباد میں زیروپوائنٹ پر عمران خان نے دھرنا دیا اور کارکنوں کے درمیان انتہائی سیکورٹی رسک کے باوجود ساری راتیں بسر کیں ۔ممی ڈیڈی پارٹی کے الزام کو بھی پی ٹی آئی کی خواتین و مرد نے غلط ثابت کر دیا۔شدید گرمی کے موسم کے باوجود سڑکوں پر راتیں گزاریں۔آزادی مارچ کے تین روز بعد جب عمران خان نے سول نافرمانی کی کال دی تو ان کو تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔غریب آدمی اور خصوصاً خیبر پختونخواہ کے لوگ بھی ایک دوسرے سے پوچھنے لگے کہ سول نافرمانی کیا ہوتی ہے۔دوسری طرف تاجر تنظیموں کی طرف سے بھی رابطہ اور ہوم روک نہ ہونے کے سبب پذیرائی نہ مل سکی۔عمران خان نے عوامی ردعمل دیکھتے ہوئے اگلے دن پارلیمان سے استعفوں اور مارچ کو پارلیمنٹ کے سامنے لے جانے کا اعلان کرکے آخری بال پر چھکا مارا۔
اب بات ہو جائے عمران خان اور طاہرالقادری کی انڈرسٹینڈنگ کی۔بلاشبہ دونوں جماعتوں کے سربراہوں نے جس طرح غیر اعلانیہ طور پر بہترین انڈر سٹینڈنگ کے ساتھ حکومت کے گرد گھیرا تنگ کیا وہ قابل غور ہے۔تنقید اور پارٹی میں اختلاف رائے سے بچنے کے لیے خاموش حکمت عملی ترتیب دی گئی۔ دونوں لیڈروں کے خطابات ایک دوسرے کی ٹائمنگ دیکھ کر ہوتے تھے اور آخر میں عمران خان نے بڑی خوبصورتی سے حکومتی چال بھی واپس ان پرپلٹ دی ۔ چوہدری نثار نے کہا کہ ریڈ زون میں تحریک انصاف کے دھرنے کے کچھ فاصلے پر ڈپلومیٹک انکلوئر ہے۔عمران خان نے کہا کہ وہ ہمارے مہمان ہیں لہذا ہم راستہ تبدیل کر لیں گے اور یوں آزادی مارچ اور انقلاب مارچ اکھٹے روانہ ہوئے۔روانگی سے پہلے صدر پنجاب اعجاز چوہدری نے تمام ضلعی اور تحصیلی صدور کا اجلاس اسلام آباد ہوٹل میں طلب کیااور اپنی طاقت کو پھر سے یکجا کیا۔مارچ شروع کرنے سے پہلے اعجاز چوہدری نے دعا کرائی۔لاکھوں افراد کا پارلیمنٹ ہاﺅس کی طرف مارچ پاکستان کی سیاسی تاریخ کا پہلا واقعہ ہے جس کو روکنے کے لیے ثالثی و مذاکراتی کردار ادا کرنے کی جماعت اسلامی اور اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ نے کوشش کی لیکن مفید ثابت نہ ہو سکی۔خیبر پختونخواہ میں تحریک عدم اعتماد لانے کی خبریں بھی منظر عام پر ہیں۔ددوسری طرف نواز شریف اپنے موقف پر ڈٹے ہو ئے ہیں ،اُن کا کہنا ہے کہ وہ استعفیٰ نہیں دیں گے اور نہ ہی مڈ ٹرم الیکشن کا اعلان کریں گے گویا معاملات اُلجھتے جا رہے ہیں اور کاروبار حکومت آنے والے دنوں میں شدید متاثر ہوتا دکھائی دیتا ہے۔
عمران خان کے اس بیان پر کہ وہ پارلیمنٹ ہاﺅس داخل ہو جائیں گے جس پر دو پاک فوج کے دو ترجمان ڈی جی آئی ایس پی آرنے کہا کہ دونوں فریقین نتیجہ خیز مذاکرات کریں ۔ریڈ زون میں عمارتیں ریاست کی علمبردار ہیں اور اس کی حفاظت فوج کر رہی ہے۔گویا فوج نے عمران خان کو اس اقدام سے باز رہنے کا مشورہ دیا۔عمران خان کے موقف میں کوئی لچک نظر نہیں آ رہی۔دوسری طرف حکومت سیاسی و عوامی دباﺅ اپنے اُوپر سے ختم کرنا چاہتی ہے لیکن ہاتھ سے کچھ چھوڑنا نہیں چاہتی جس کا مطلب ملک میں سیاسی ڈیڈ لاک ہے ۔جو کہ ملک میں جمہوریت کے لیے کوئی نیک شگون نہیں ہے۔اس صورتحال سے نکلنے کی ذمہ داری تمام سیاستدانوں پر ہے۔اُن کا آئینی و اخلاقی فرض بنتا ہے کہ جمہوریت کو پٹری سے اُترنے نہ دیں۔قومی حکومت کا قیام ،انتخابی اصلاحات اور نئے الیکشن کے ٹائم فریم پر رضامندی اس بحرانی صورتحال سے نکلنے کی راہیں ہو سکتی ہیںلیکن اگر حکومت یہ سمجھتی ہے کہ دونوں پارٹیاں کچھ دن احتجاج کرکے واپس چلی جائیں گی تو یہ حقیقت کے قریب بات نظر نہیں آتی۔احتجاج جوں جوں آگے چلتا جائے گا،وزیر اعلیٰ شہباز شریف کی مشکلات میں اضافہ ہوتا جائے گا۔وفاقی حکومت بھی سکھ کا سانس نہیں لے سکے گی۔لہذا قومی مفاد میں سوچنا ہی حکومت کے حق میں بہتر ہو گا۔دوسری طرف عمران خان نے جو وعدے،دعوے اور اُمید کی شمع عوام کے دلوں میں روشن کی ہے،اس سے ان کی ذمہ داریاں کئی گنا بڑھ گئی ہیں۔جس کو پورا کرنے کے لیے ان کو پارٹی میں موجود اچھے لوگوں کو آگے لانے کی ضرورت ہے۔اور کچھ لوگوں کو مصلحتوں سے بالاتر ہو کر سائیڈ لائن کرنے کی ضرورت ہے۔مدینے کی ریاست آئیڈیل اور پیارے نبی محمد دنیا کے سب سے بڑے لیڈر ہونے کا ایمان عمران خان کے دل میں ہے تو پھر این جیو زدہ رہنماﺅں سے جان چھڑوانا ہو گی اور اپنے جیسے خیالات رکھنے والوں کو ترجیح دینا ہو گی۔
”سیاسی ڈیڈ لاک “جمہوریت کے لئے نیک شگون نہیں
Aug 21, 2014