موت کا وقت مقرر ہے اور ہرذی نفس نے اس کا ذائقہ چکھنا ہے ۔ کل نفس ذائقہ الموت۔(القرآن ) اﷲ تعالیٰ نے اس ابدی حقیقت کو خود بیان فرما دیا لیکن بہت کم لوگ ایسے ہیں جن کی زندگی بھی قابل رشک ہو اور موت بھی …! جناب مجید نظامی ان چند ہستیوں میں سے ایک ہیں جو نظریات کی آبیاری کرتے ہوئے جیے اور قابل رشک موت سے ہمکنار ہوئے ۔ پاکستان کے اسلامی اور جمہوری تشخص کا معاملہ ہو‘ اسکے دفاع اور استحکام کا پہلو ہو ‘ اسکے اندرونی اور بیرونی دشمنوں کو بے نقاب کرنے کا محاذ ہو ‘ انہوں نے اور انکی قیادت میں ادارہ نوائے وقت نے ایک بھرپورجنگ لڑی ۔ یہی وجہ ہے کہ قومی پالیسی میں انکے نکتہ نظر کو نظر انداز کر کے جو بھی فیصلے کیے گئے اسکے نتیجے میں ملک بحرانوں کا شکار ہوا ۔انہیں حقیقی طور پر پاکستان کا نظریاتی گارڈ فادر بھی ہونے کا اعزاز حاصل تھا ۔ ادارہ کی سطح پر اہل قلم کی کھیپ تیار کرنا بھی یقیناً انہی کا حصہ ہے ۔ انکے زیر تربیت رہنے والے جس بھی اخبار سے منسلک ہوئے غالب اکثریت نظریاتی وابستگی پر قائم رہی ۔ ان کا سب سے بڑا اعزاز یہ تھا کہ وہ پاکستان کے محسنوں اور دشمنوںکو ہمیشہ یاد رکھتے تھے۔ پاکستان دشمنی میں بلا شبہ سب سے بڑا دشمن ہندوستان ہے جس نے کبھی پاکستان کو دل سے تسلیم نہیں کیا ۔ مشرقی پاکستان کو دو لخت کرنے میں اس نے مرکزی کردار ادا کیا ‘ ہمارے مصلحت کوش حکمرانوں نے اور اشرافیہ نے اس سانحہ کو فراموش کر دیا اور اس وقت پاکستان کی سلامتی کی جنگ لڑنے والوں کو حالات کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا لیکن جناب مجید نظامی نے اس سانحہ کو فراموش کیا اور نہ ہی پاکستان کی سلامتی کی جنگ لڑنے والوں کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑا ۔
نظامی صاحب اہل کشمیر کے حقیقی پشتیبان اور محسن تھے ‘ کشمیر کے حوالے سے حکومت کی ہر کمزور پالیسی کی انہوںنے بر وقت گرفت کی حتیٰ کہ مسلم لیگ کے نام پر بننے والی حکومتوں کی لغزشوں کو بھی انہوں نے کبھی معاف نہ کیا ‘ وہ واحد بے باک صحافی تھے جو برملا کہتے تھے کہ کشمیر کی آزادی کیلئے ہمیں جنگ بھی کرنا پڑے تو دریغ نہیں کرنا چاہیے بلکہ ایٹم بم تک استعمال کرنے کی نوبت آئے تواستعمال کر لینا چاہیے ۔ کئی بار کہا کہ مجھے ایٹم بم کے ساتھ باندھ کر فائر کر دیں تاکہ ہندو استعماریت اپنے انجام کو پہنچ سکے۔
مشرف نے قومی موقف سے انحراف کر کے مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے چار نکاتی فارمولہ پیش کیا جس کے نتیجے میں پاکستان اور کشمیری رائے عامہ تقسیم ہوئی اور تحریک آزادی کشمیرکو بے پناہ دھچکا لگا ۔اسکی اس کمزور پالیسی کی وجہ سے مجاہدین کشمیر دہشت گرد ٹھہرائے گئے ۔ بدقسمتی سے کشمیر کے دونوں حصوں کے بعض قائدین اور جماعتوں نے مشرف کے اس تحریک کش اقدام کی حمایت کی ۔ مقبوضہ کشمیر میں بزرگ قائد حریت سید علی گیلانی چٹان کی طرح اپنے موقف پر ڈٹ گئے ۔گزشتہ تین دہائیوں کے سفرمیں جب بھی حکومت اور قیادت کی کمزور پالیسی سامنے آئی مجھ سمیت قائدین حریت مجید نظامی کو اپنا سہارا سمجھتے تھے۔پاکستان میں قومی سطح پر جناب قاضی حسین احمد صاحب‘ نواب زادہ نصراﷲ خان صاحب‘ اور مجید نظامی کشمیر کاز کے غیر مشروط پشتیبان تھے جنہوںنے ہر مرحلہ پر حکمرانوں کی کمزور کشمیر پالیسی کانوٹس لیا اور پاکستان کی کشمیر پالیسی کو قومی امنگوں سے ہم آہنگ کرنے کیلئے اہم کردار ادا کیا ۔ ان تینوں بالخصوص جناب نظامی صاحب کا اس مرحلے پر ہم سے جدا ہو جانا جب کہ بھارت اپنے سرپرستوں کی تائید کیساتھ پاکستان کے استحکام اور تحریک آزادی کشمیر کیلئے نئے چیلنجز کھڑے کر رہا ہے ہم سب کیلئے ایک آزمائش ہے ۔بد قسمتی سے نظامی صاحب کی توجہات کے باوجود میاں نواز شریف صاحب کشمیر پر ابھی تک دو ٹوک لائحہ عمل طے نہ کر سکے اور نہ ہی اس سلسلے میں ڈیڑھ سال گزرنے کے باوجود کشمیر ی قیادت سے کسی مشاورت کا بھر پور اہتمام کر سکے۔ حتیٰ کہ نریندر مودی کی حلف کی تقریب میں دہلی یاترا کے موقع پر حریت قائدین سے ملاقات نہ کر کے نہایت منفی پیغام پہنچانے کا ذریعہ بنے اور بھارت کی پاکستان اور کشمیر دشمن پالیسیوں کے علی الرغم بھارت کیساتھ دوستی کرنے کیلئے بے تابی نے نہایت ہی خطرناک رحجان کو پروان چڑھایا جس کے آگے مجید نظامی جیسی قدآور شخصیات ہی بند باندھ سکتی تھی یقینا وہ اپنے حصے کا کام کر گئے اور اﷲ کے حضور سرخرو بھی ہوں گے ۔ رمضان المبارک کی ستائیسویں شب میں انکی موت انکے اعمال کی قبولیت کی دلیل ہے ۔ اﷲ تعالیٰ انہیں جنت میں اعلیٰ مقام عطا کرے اور قومی سطح پر ان کے اٹھنے سے جو خلاپیدا ہوا اﷲ کرے ادارہ ’’ نوائے وقت ‘‘ ہمارے اہل قلم حضرات اور سیاسی قائدین سب مل کر اس مشن کی آبیاری کریں اور اس خلا کو پر کرنے کی کوشش کر سکیں ۔اس سارے عرصے میں ذاتی لحاظ سے انکی راقم کے ساتھ بے پناہ شفقت رہی ‘نوائے وقت کشمیر ریلیف فنڈ کے ذریعے کشمیری مہاجرین کے مسائل کے حل کیلئے جہاں جہاں نشان دہی کی انہوں نے بھر پور شفقت فرمائی ۔ جب بھی ملاقات ہوئی بے پناہ دعائوں سے نوازا ۔ والدین کی وفات کے موقع پر اور میرے عزیز نعمت اﷲ کی شہادت کے موقع پر فون کر کے اظہار تعزیت اور حوصلہ افزائی کی ۔ نامساعد حالات میں جب بھی ملاقات ہوئی انہوں نے بھرپور پشتیبانی کا یقین دلایا اور حق بھی ادا کیا۔بین الاقوامی محاذ پر نمائندگی کرتے ہوئے کانفرنسوں میں کشمیر کاز کی ترجمانی پر ہمیشہ اپنے اخبار کے اداریوں میں انہوںنے حوصلہ افزائی کی اور حکومت کو متوجہ کرتے رہے کہ بین الاقوامی سطح پر موافق فضا سے استفادہ کرنے کیلئے پالیسی تشکیل دیں۔ مجید نظامی کشمیری قیادت کو بھی ہمیشہ استقامت کا مشورہ دیتے رہے اور سب کا احترام بھی کرتے لیکن سید علی گیلانی کے دوٹوک موقف پر وہ دل سے انکے گرویدہ تھے اور انکی رائے کو بے پناہ اہمیت دیتے تھے۔ انکی جدائی سے دنیا بھر میں کشمیری سوگوار ہیں اور دعا گو ہیں کہ اﷲ تعالیٰ انہیں جوار رحمت میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے اور ملک و ملت کو ان کا نعم البدل بھی …