اسلام آباد (رائٹر + آئی این پی) رائٹر نے دعویٰ کیا ہے کہ فوج نے مشکلات میں گھرے وزیراعظم نواز شریف کو مارشل لاء نافذ نہ کرنے کی یقین دہانی کرا دی ہے۔ رائٹر کی رپورٹ کے مطابق یہ دعویٰ حکومتی ذرائع نے دونوں اطراف کی بات چیت کے حوالے سے کیا۔ رائٹر کے مطابق گزشتہ ہفتے ہزاروں افراد نواز شریف کے استعفے کا مطالبہ کرتے ہوئے اسلام آباد میں مارچ کرتے ہوئے پہنچے تو وزیراعظم نے اپنے دو نمائندے مشاورت کے لیے آرمی چیف کے پاس بھیجے۔ حکومت کے اندرونی ذرائع کے مطابق اس ملاقات کے بعد نواز شریف کے نمائندے دو طرح کی خبریں لے کر واپس لوٹے، ان میں اچھی خبر یہ تھی کہ فوج کا تختہ الٹنے کا کوئی ارادہ نہیں، فوج کے میڈیا ونگ نے اہم ملاقات کے بارے میں بات کرنے سے انکار کیا۔ تاہم پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل عاصم باجوہ نے ٹوئیٹر پر کہا کہ بحران کے حل کے لئے بامقصد مذاکرات کئے جائیں۔ ایک وفاقی وزیر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا کہ اس بحران میں سب سے زیادہ نقصان نواز شریف کو ہوگا جن کی سیاسی قامت کو بونے سیاسی حریف کاٹ کر چھوٹا کردیں گے۔ رپورٹ کے مطابق اگر عمران خان اور طاہر القادری کے مظاہرے بتدریج ناکامی کا شکار بھی ہوگئے تو بھی یہ سیاسی بحران وزیراعظم کو کمزور کرنے کا سبب بنے گا۔ رپورٹ کے مطابق نواز شریف طالبان کے خلاف جنگ، پاکستان بھارت تعلقات اور نیٹو کے بعد افغانستان ایسے معاملات کو خود ہینڈل کرنے کے لیے جرنیلوں کو اپنے ماتحت کرنا چاہتے ہیں۔ ایک سال قبل بہت کم حلقے اس بات کی پیشگوئی کرسکتے تھے کہ نواز شریف کو اس طرح کی مشکلات کا سامنا ہوگا۔ نواز شریف نے ملک میں سویلین حکومت کے اختیارات میں اضافے کی کوشش کی۔ مشرف کے خلاف غداری کا مقدمہ چلا کر جرنیلوں کی مخالفت مول لی۔ حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ سویلین فوجی تعلقات میں بگاڑ پر نواز شریف کو شبہ تھا کہ انہیں ہٹانے کے لیے ہونے والے احتجاج کی ڈوریاں فوج ہلا رہی ہے اور یہ خدشہ تھا کہ اگر احتجاج پرتشدد ہوگیا تو فوج صورتحال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے انہیں ہٹاسکتی ہے۔ رائٹر کے مطابق حقیقت ہے کہ فوج کا ڈرائیونگ سیٹ پر واپس آنا نواز شریف کے لیے بھارت سے تجدید تعلقات کو مشکل بنا دے گا۔ بھارتی میڈیا نے رواں ہفتے یہ شک ظاہر کیا تھا کہ جرنیل نواز شریف کو امن مذاکرات سے پیچھے ہٹنے پر مجبور کرچکے ہیں۔ ادھر بھارت نے مجوزہ خارجہ سیکرٹریوں کی ملاقات بھی منسوخ کردی ہے۔ فوج کے غلبے کا ایک مطلب یہ بھی ہوگا کہ یہ حکومت کے افغانستان سے تعلقات کی خواہش پر بھی اثرانداز ہوگا۔ بہت کم حلقوں کا ماننا ہے کہ فوج عمران خان کی حمایت کررہی ہے۔ رائٹر کے مطابق سابق انٹیلی جنس سربراہ نے نام نہ بتانے کی شرط پر بتایا کہ فوج جانتی ہے کہ عمران خان کچن کے زبردست پریشر ککر ہیں مگر وہ ان پر بطور باورچی اعتماد نہیں کرسکتے۔ نواز شریف کو اب اس غلط خیال کی قیمت چکانا پڑے گی کہ فوج عمران خان کو انہیں ہٹانے کے لیے استعمال کرنا چاہتی ہے۔ وزیراعظم کے ایک ساتھی نے بتایا عمران خان کو کھیل کا رخ پلٹ دینے والے سمجھنے کے خیال نے نواز شریف کو سر جھکانے پر مجبور کردیا۔ اس کی ایک مثال یہ ہے جیسے روس کے زار شہنشاہ جیسے وزیراعظم کو حالات نے ڈپٹی کمشنر جیسے کردار میں تبدیل کردیا ہے، وہ ہر گزرتے دن کے ساتھ افغانستان اور بھارت وغیرہ جیسے اہم امور پر اپنی گرفت مضبوط کررہی ہے جو چھوٹا نقصان نہیں۔ تاہم نواز شریف کے ساتھیوں کا کہنا ہے کہ سابقہ تجربات کی روشنی میں نواز شریف کو یہ سمجھ میں آگیا ہے کہ اپنی بقاء کے لیے اختیارات شیئر کرنے کی ضرورت ہے۔ وزیراعظم کے ایک مشیر کے مطابق یہ پرانے نواز شریف نہیں جو ہر ایک سے لڑنے کے لیے تیار رہتے تھے، انہوں نے مشکلات سے گزر کر یہ سیکھا ہے کہ سیاست اگلے روز تک زندہ رہنے کی جنگ کا نام ہے۔
رائٹر/ رپورٹ