اسلام آباد (سہیل عبدالناصر) فوج کی طرف سے دو بار مذاکرات کی ضرورت پر زور دینے کے بعد گیند اب عمران خان اور طاہر القادری کے کورٹ میں ہے۔ دونوں قائدین کی طرف سے بھی حکومت کے ساتھ بات چیت پر آمادگی کا جی ایچ کیو کو عندیہ مل گیا ہے۔ فوجی ہیڈکوارٹر ابھی فریقین کے درمیان سہولت کار کا کردار ادا نہیں کر رہا۔ نوائے وقت کے استفسار پر بتایا گیا کہ باہمی رابطے، مذاکرات کی شرائط و طریقہ کار سمیت جزیئات طے کرنے کا معاملہ ابھی تک سیاستدانوں کے ہاتھ میں ہے۔ ایک اور ذریعہ کے مطابق اسلام آباد میں دو دھرنوں کے باعث پیدا شدہ بحران، سلامتی کی صورتحال اور بات چیت کے امکانات و کوششوں کا جی ایچ کیو میں باریک بینی سے جائزہ لینے کا نظام قائم کردیا گیا ہے۔ فوج براہ راست بات چیت کے عمل کا حصہ نہیں بننا چاہتی۔ ایک سابق فوجی افسر نے اس بات سے اتفاق کیا کہ بات چیت شروع کرنے کا مشورہ دیکر فوج اب براہ راست اس صورتحال کا حصہ ہے۔ اسلام آباد میں جاری ان دونوں دھرنوں کا ڈراپ سین ابھی ہونا باقی ہے لیکن ایک نتیجہ واضح ہوچکا ہے کہ اس سیاسی انتشار سے اسٹیبلشمنٹ مضبوط ہوئی ہے۔ سیاستدان تقسیم در تقسیم ہوئے ہیں، ان پر حُبِ اقتدار اور سیاسی مفادات کیلئے کچھ بھی کر گزرنے کے الزامات کو تقویت ملی ہے۔ نوازشریف یا انکی جگہ جو بھی وزیر اعظم ہو ان کیلئے مختارِ کُل بننا مشکل ہوجائیگا۔ اس ذریعہ کے مطابق دفاع، سلامتی اور خارجہ امور پر موجودہ حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان اختلافات اتنے زیادہ نہیں تھے کہ انکا ساتھ چلنا مشکل ہوجاتا۔ اس اعتبار سے دو دھرنے اور انکی شدت ناقابل فہم ہے۔ اختلاف رائے کے باوجود بہت سے امور پر حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان مکمل اتفاق رائے بھی پایا جاتا ہے۔ نوازشریف پاکستان، بھارت تعلقات میں بہتری کیلئے بہت پرجوش تھے لیکن بھارت نے خود ہی خارجہ سیکرٹریوں کی ملاقات منسوخ کر کے نوازشریف کی خوش فہمی دور کردی۔ چنانچہ اس معاملہ پر اختلاف رائے کا باب ہی بند ہوگیا۔ افغانستان کے معاملہ پر نوازشریف عدم مداخلت کی پالیسی کے حامی ہیں لیکن اسٹیبلشمنٹ کا مئوقف ہے کہ افغان سرزمین خود افغانوں کے کنٹرول میں نہیں۔ پاکستان، امریکہ تعلقات ہماری خارجہ پالیسی کا سب سے اہم ٹریک ہے جس پر فوج اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان کوئی نمایاں اختلاف نہیں۔
فوج کردار