وہ فٹ پاتھ پر بیٹھ کر صا ف ستھرے کپڑے پہنے بچوں کو اپنے ماں باپ کے ساتھ چمکتی گاڑیوں میں سکول جاتا دیکھتے تھے ۔ وہ کبھی پھول لے کر اور کبھی ان چمکتی گاڑیوں کو صاف کر نے انکے پیچھے بھاگتے تھے۔ صاف ستھرے بچوں کے ماں باپ اپنے بچوں کا چہرہ اس ڈر سے کہ یہ ننگ دھڑنگ بچے ہمارے بچوں کو نظر نہ لگا دیں، اپنے سینے میں چھپا لیتے تھے۔ انکے ہاتھوں میں پکڑے پھولوں کو حقارت سے دیکھتے اور کبھی منہ ہی موڑ لیتے تھے ۔ گاڑی کا شیشہ صاف کرنے پر انہیں ڈانٹتے تھے کہ گندا کر دیا ۔ وہ بچے ننھے ہاتھوں سے بوٹ پالش کرتے تو انکی کمر پر لات جما کر تھوڑے سے سکے انکے آگے پھینک دئے جاتے ۔
انہی گلیوں میں گھومنے والے بڑے بچے جو انہی تلخ تجربات سے گذر چکے ہوتے انتقام کیلئے ان چھوٹوں کو کبھی مارتے اور کبھی ان پر جنسی تشدد کرتے ۔ راہ چلتے بڑی عمر کے بالغ آدمی تفریحاـ ان کا پاجامہ نیچے کر جاتے۔ ہوٹلوں میں گاہکوں کے آگے روٹی رکھتے ہوئے گاہک ان کے گالوں پر اور نازک حصوں پر چٹکی بھر دیتے۔ یہ ہے فٹ پاتھ پر رہنے والے بچوں کی کہانی ۔۔۔۔ کیا ایسی کہانیوں کا مقدر بدلا جا سکتا ہے ؟
انکی تو یہ دکھ بھری کہانی کوئی سنتا بھی نہیں، آسائشوں میں پلے ہوئے کبھی انکی یہ کہانی سن بھی لیں تو سمجھنے سے قاصر ہوتے ہیں، سمجھ جائیں تو مداوا کرنے کی کوشش نہیں کرتے ۔ بس انکے نزدیک یہ ایک کہانی ہوتی ہے، اپنے پر انسانیت کا لیبل لگانے کی ایک اور مہر تاکہ وہ ڈرائنگ رومز میں بیٹھ کر دوسروں کو بتا سکیں کہ دیکھو میں کتنا نرم دل کا ہوں جو ایسی دکھی کہانیاں سنتا ہوں ۔۔ انسانیت کی تذلیل کی کہانیاں سن کر یہ بڑے افسر اپنے ماتھے پر انسانیت کا لیبل تو چپکا لیتے ہیں مگر انکے ہاتھ صرف اپنے فائدے کیلئے ہی کام کرنے اٹھتے ہیں ۔
اس خوف سے یہ بچے اپنی کہانی بھی بس ایک دوسرے کو سناتے ہیں کیونکہ ایک جیسے حالات سے گذرنے والے ہی ایک دوسرے کا درد سمجھ سکتے ہی اس لئے وہ اپنی دل کی بات کسی اور سے نہیں بس آپس میں ہی شئیر کرتے ہیں ، کیونکہ انہیں اس بات کا شدت سے احساس ہوتا ہے کہ انکی بات نہ کوئی سنتا ہے اور نہ سمجھتا ہے۔ زندگی سے لڑتے لڑتے یہ بچے زندگی کا کتنا بڑا سبق سیکھ لیتے ہیں۔ یہ فائٹر ہوتے ہیں۔ اپنے آپ کو بچانے کیلئے دوسرے پر حملہ کرنا بھی بہت جلدی سیکھ جاتے ہیں۔ وہ رات کو فٹ پاتھ پر ڈر ڈر کر سوتے ہیں ، کبھی پولیس کا ڈر ، کبھی کسی بڑے بڑے لڑکے کا ڈر اور کبھی کسی چور ڈاکو کا ڈر ۔چوٹ لگے تو ڈاکٹر کے پاس نہیں جاتے ، بیمار ہوں تو خود ہی ٹھیک ہو جاتے ہیں ۔۔ جوتے پالش ، گاڑی کی صفائی ، پھول بیچنے، ہوٹلوں میں چھوٹے کا کام کرنے، ریڑھی لگانے اور فیکٹریوں میں کام کرنیوالے یہ بچے سٹریٹ چائلڈ نہیں رہتے بلک سٹریٹ فائٹر ہوجاتے ہیں ۔ کیونکہ اپنے بقا کی لڑائی زندگی کی سب سے بڑی لڑائی ہوتی ہے ۔ جب آپ کو گھر والے ٹھکرا دیتے ہیں تو زمانہ بھی آپ کو ٹھوکروں پر رکھتا ہے ۔ یہ سارے بچے یتیم نہیں ہوتے مگر ان کو زندہ ماں باپ بھی اپنی شفقت سے محروم کر دیتے ہیں اور پھر ایسے میں آنکھوں میں کوئی خواب آبسیں تو کتنا غضب ہو جاتا ہے جو بچے اپنی زندگی کی کہانی شئیر نہیں کرسکتے، اپنی اوقات سے بڑے خواب کیسے کسی کو سنا سکتے۔ معجزے اسی دنیا میں ہوتے ہیں ۔ جب ہر ایک کو اپنی ذات کی تکمیل کی فکر پڑی ہو ، ایسے میں کوئی کسی اور کے خواب پورے کرنے کی ٹھان لے تو ایسی کہانیوں کا مقدر بھی بدلا جاسکتا ہے ۔
اور پھر یہ ٹھکرائے ہوئے بچے اس ملک کو عزت بخشتے ہیں جس نے نہ انکی تعلیم ، نہ خوراک ، نہ صحت اور نہ خوابوں کا خیال رکھا ۔ لیاری کے سٹریٹ چائلڈ فٹ بالرز کی ٹیم ایک ایسی ہی معجزاتی کہانی ہے ۔ یہ بچے جو 2014 میں ناروے جا کر دنیا کی ٹیموں میں سے تیسرے نمبر پر آتے ہیں اور پاکستان کو فٹ بال میں کہیں موجود نہیں ، اس میں اسے bronze medalلا کر دیتے ہیں ۔ ان فائٹرز کو لڑنا بھی آتا تھا اور اپنا دفاع کرنا ابھی ۔ مگر انکی اس طاقت کوکیسے مثبت طریقے سے استعمال کیا اور انکے اندر بھری محرمیوں سے اُگے خوابوں کو کیسے تعبیردلوائی ۔ بات صرف سر پر شفقت کا ہاتھ رکھنے کی تھی ۔۔وہ آزاد فائونڈیشن نے کیا اکثر پر آسائش دفاتر میں بیٹھے افسران اور ایسی این جی اوز سوائے اپنے فوائد کے اور کچھ کرنے سے قاصر ہیں ۔ مگر اس این جی او نے ثابت کیا کہ دنیا میں کوئی بھی کام ناممکن نہیں ان بچوں کو تراشا ، اعتماد دیا اور انکی self esteem بحال کی ۔۔ ترس کھا کر خیرات دینا اور اپنے لئے دنیا اور آخرت میں جنت پکی کرنا یہ بہت آسان کام ہے اور بہت لوگ کرتے ہیں ۔ مگر محبت یہ ہے کہ آپ گرے ہوئے کو اٹھا دیں، اس کا اعتماد اسے لوٹا دیں اور اسے دنیا میں ایک فائدہ مند انسان بنا دیں ۔۔ آذاد فائونڈیشن نے ان بچوں کو فائدہ مند انسان بنا دیا ۔ آج وہ بچے دوسروں کیلئے ایک مثال ہیں ۔
ابھی جولائی کے آخری ہفتے وہ شکاگو میں kids international soccer club (KISC) کی طرف سے منعقد کئے گئے ورلڈ کپ میں ، جس میں نارتھ امریکہ کی دو سو ٹیمیں اور انٹرنیشل سولہ ٹیمیں تھیں ،کھیلنے آئے ۔ یہاں بھی ناروے کی طرح انہوں نے اپنی پرفار منس سے لوگوں کو چونکا دیا ۔ اس میں شکاگو کے قونصل جنرل فیصل نیاز ترمذی ذاتی دلچسپی نہ لیتے تو شائد آزاد فائونڈیشن بھی ان بچوں کے خوابوں کی تکمیل نہ کر پاتی اس لئے یہ احساس کرنا ضروری ہے کہ انسان ذاتی طور پر پر ایک خاص حد میں پرواز کر سکتا ہے اور اگر سب ادارے جو کہ پاکستان کی نمائندگی کرتے ہیں اس بات کو سنجیدگی سے لیں تو مل جل کر پاکستان کا نام پوری دنیا میں روشن کیا جا سکتا ہے ۔
پاکستان کا یہ خوبصورت چہرہ ، پاکستان کا ٹیلنٹ ۔۔ آجکل ایسی کہانیوں میں لوگوں کی دلچسپی نہیں ہے ۔ اپنے عام پاکستانی اور میڈیا ( نیشنل اور انٹرنیشنل ) سب کو پاکستان سے نکلنے والی خوفنا ک خبروں کا انتطار ہوتا ہے، اس پر خوب مرچ مصا لحہ لگا کر تشہیر ہوتی ہے اور لیاری کے سٹریٹ چائلڈ فٹ بالرز بچوں کی ایسی کہانی ہو تو اس پر کوئی توجہ نہیں دیتا ۔
حکومت کی بے حسی تو ایک ایسا phraseبن چکی ہے کہ اس پر بات کرنے کو بھی دل نہیں کرتا ۔ مگر دکھوں کی کہانی سن کر خوابوں کر سروں پر شفقت کا ہاتھ رکھ کر انکی تعبیر کیلئے جد و جہد کرنا ،یہ پاکستان میں ایک ایسا نایاب فعل ہے کہ اسکی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے ۔ جب کوئی ذاتی طور پر محنت کر کے جان پر کھیل جاتا ہے اور دنیا میں اسکی بلے بلے ہوجاتی ہے تو یہ دیکھ کر دل خون کے آنسو رو تا ہے کہ وزیراعلی اور وزرائے کرام نئے سوٹ نکال کر ان ہیروز کے ساتھ تصویریں اترواتے ہیں اور ایک عشائیہ انکے اعزاز میں دے کر گویا انکی عزت افزائی کرتے ہیں ۔
سلام ہے ان بچوں کی لگن اور محنت کو ، سلام ہے اس این جی او کو جس نے کوڑے سے اٹھا کر ان ہیروں کو تراشا، اور ان آفیسرز کو جنہوںنے ذاتی دلچسپی لیکر اس ناممکن کو ممکن بنایا ۔۔ پاکستان میں گلیوں میں بھٹکنے والے ایسے پندرہ لاکھ بچوں کو ایسی شفقت بھرا ہاتھ چاہئے ۔ اس واقعہ کو مثال بنا کر اور بھی لوگوں کو ، این جی اوز کو ایسے اقدامات کرنے چاہیں ۔ اس سے ایک تیر سے دو شکار ہو نگے ۔ بچوں کا مستقبل محفوظ ہوگا اور دنیا میں پاکستان کا نام روشن ہوگا ۔