اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت) سپریم کورٹ میں سابق وزراءاعظم یوسف رضا گیلانی اور راجہ پرویز اشرف کے دور میں دیئے جانے والے 650 غیر قانونی سی این جی لائسنس کے اجراءسے متعلق کیس کی سماعت میں عدالت نے 8 قانونی نکات، پالسیی گائیڈ لائن سے متعلق تمام فریقین، اٹارنی جنرل، اوگرا، او جی ڈی سی ایل، سوئی سدرن اور نادرن گیس کمپنےاں کو ہدایت کی ہے کہ وہ اپنی تجاویز پر مبنی جائزہ رپورٹ 30 دن میں جمع کروائیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ جب اتفاق رائے ہو جائے گا تو ہر چیر ”کرسٹل کلیئر“ ہو جائے گی ایسی پالسیی بنائی جائے جس میں پی ایم،کیبنٹ، اوگرا کی خود مختاری میں کوئی بھی مداخلت نہ کر سکے، اب عدالت کے سامنے حقائق آئے ہیں کہ سابق دور میں اوگرا میں دو لیٹرز آئے جن پر اوگرا اتھارٹی سے من و عن کام کرواےا گےا ہے جس کے ذریعے وزیروں مشیروں کو سی این جی کے غیر قانونی لائسنس جاری کر کے نوازا گےا تھا، ملک میں ایک ریگولیٹری اتھارٹی صرف اوگرا ہی نہیں، پیمرا، ایس ای سی پی وغیرہ بھی ہیں۔ جسٹس دوست محمد خان نے کہا کہ نئی پالسیی گائیڈ لائن بنانے سے پہلے وزارت قانون سے بھی مشورہ لےا جائے۔ سابق دور میں ممبران اسمبلی سی این جی لائسنس دیکر خوش کےا گےا۔ ایک سی این اور دسرے سی این جی کا مناسب فاصلہ ہونا چاہئے جس طرح پٹرول پمپوں کے قواعد و ضوابط میں ہے، مگر یہاں تو سی این جی سٹیشنوں کی مشروم گروتھ کی گئی جس کا خمےازہ ہم اب تک بھگت رہے ہیں اوپن نیلامی کے ذریعے مزید شفافیت لائی جا سکتی ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ریگولیٹری اتھارٹی پر ریگو لیٹر اثر نداز ہو رہا ہے اگر اوگرا ایسے چلے گا تو اس کی خود مختاری متاثر ہو گی۔
سی این جی لائسنس کیس