16اگست 2016 کو صبح کے ایک بجکر چالیس منٹ پہ چین نے اپنا جدید ترین سیٹیلائٹ خلاء میں روانہ کیا۔ اس سیٹیلائٹ کا نام ’’میشئیس‘‘ رکھا گیا ہے۔ چین کے اس نئے سٹیلائٹ کا منصوبہ آٹھ برس قبل تخلیق کیا گیا تھا جو کہ کو انٹم سائنسQuantum Science پر مبنی ہے۔ اس منصوبے کی کامیابی کے کریٹپوگرافی( خفیہ نگاری) اور ٹیلی پورٹیشن Tele portation پہ مثبت نتائج حاصل ہونگے۔چونکہ ’’میشئیس‘‘ اپنی نوعیت کا دنیا کا پہلا سیٹیلائٹ ہے لہذا اس پر وجکیٹ پہ دنیا بھر کے سائنس داں،انجینئر اور خلاء نوردوں کی اسکی کارکردگی پہ نگاہیں جمی ہیں۔ اس اہم ترین پروجیکٹ سے جو نتائج حاصل ہوں گے وہ و قت کی ضروت ہیں اور دنیا کیلئے اہم ترین۔ میشئیس کا پہلا مقصد چین اور یورپ کے درمیان ایک ہئیک(Hack) پروف محفوظ مواصلاتی نظام قائم کرنا ہے جسکے دوررس سیکئوریٹی مضمرات ہونگے۔ "میشیئس" جو چھوٹی سی سمارٹ کار کے برابر مصنوعی سیارہ ’’'لونگ مارچ2D ــ‘‘ راکٹ کی پشت پر سوار ہوکر منگولیا کے صحرائے گوبی میں واقع جی قوان سیٹیلائٹ سنیٹر سے روانہ ہوا۔کوانٹم سائنس سیٹیلائٹ پر وجیکٹ کا آغاز اس وقت ہوا جب چینی کوانٹم فزکس کے ماہر پان جیا نوئے اور خلائی انجینئر وانگ جیانیئو نے مشترکہ طور پر اس نئی کا ئنات کو دریافت کرنے کا اعادہ کیا۔ سیٹلائٹ کا ابتداء میں نامQuantum Experiments at Space Seek (Quess) خلا کے پیمانے پر کوانٹم تجربات رکھا گیا لیکن چین کی وراثت سے تعلق برقرار رکھنے‘ پروجیکٹ کی محنت کو خراج تحسین پیش کرنے کیلئے پروجیکٹ کے نام چینی ہیروز کے نام پہ رکھے جاتے ہیں لہذا اس خلائی سیارے کا نام "میشیئس" رکھا گیا۔تاریخ میں رقم ہے کہ2,400 برس قبل ’’میشئیس‘‘ جومعروف فلسفی اور انجیئر تھے ،نے دریافت کیا تھا روشنی ہمیشہ سیدھ میں سفر کرتی ہے اور طبعیات کی دنیا ننھے ذرات سے بنی ہے۔ انہوں نے دنیا کا پہلا پن ہولPin Hole کیمرہ بھی ایجاد کیا۔ کوانٹم سائنس سیٹیلائٹ کا پروجیکٹ شنگھائی کے سکول آف تکنیکی فزکس میںشروع کیا گیا جو چینی اکیڈمی آف سائنس کا ذیلی ادارہ ہے۔ یہ ننھا مصنوعی خلائی سیارہ معروف ماہر طبعیات ایلبرٹ آنسٹائن سے مختلف کائنات کی تلاش میں ہے جہاں ایک بلی حیات بھی ہوگی اور بیک وقت مردہ بھی جہاں معلومات اور پیغامات ایک کہکشاں سے دوسری تک روشنی کی رفتار سے بھی تیز رفتاری اورسرعت سے پہنچائی جا سکیں گی، جہاں انٹرنیٹ Hack نہیں کیا جاسکے گا ، جہاں ایک کیلکو لیٹر بھی دنیا کے تیز ترین سپر کمپوٹر سے بھی تیز رفتاری سے کام کر سکے گا۔
یہ سب خواب وخیال نہیں بلکہ حقیقت کا جلد روپ دھارنے والے ہیںجس کیلئے چین کی قائدانہ سائنسی جد وجہد کو سراہنا چاہئے ۔ ماضی میں چین دوسروں کے نقش قدم پہ چلنے پہ مجبور تھا۔ صدیوں تک محکوم رہنے اور آزادی کے بعد بائیس سال تک مغر ب کی جانب سے دھتکار ے جانے کی وجہ سے چین سائنس ، ٹیکنالوجی اور تحیقق میں پیچھے رہ گیا تھا۔ کو انٹم سائنس سیٹیلائٹ کی کا میابی سے چین ایک مرتبہ پھر ماضی بعید کی مانند دنیا کے صف اول کے ترقی یافتہ سائنسی ممالک میں اپنا کھو یا ہوا مقام حاصل کرلے گا۔ قدیم دور میں چین سائنسی تحقیق اور دریافت کا منبع تھا۔ دھما کہ خیزمادہ ،کا غذ، چھپائی، سلک اور قطب نما چین کی ایجاد ات ہیں۔
چینی قیادت نے1949 میں آزادی حاصل کرنے کے بعد اپنی قوم کو پہلے پسماندگی، بھوک، افلاس، ناخواندگی اور بیماری سے نکالا پھر اقتصادی ترقی کی راہ پر گامزن کیا اور اب جد ید سائنس ، ٹیکنالوجی، ایجادات میں سبقت حاصل کرنے کی خاطر اپنے سائنس داں اور انجینئروں کو ایسے وسائل فراہم کررہے ہیں کہ وہ چین کو اسکا جائزمقام دلا سکیں۔کوانٹم سائنس سیٹیلائٹ یا ’’میشئیس‘‘ کے آگے تین مشکل ترین مشن ہیں۔ پہلے میں بیجنگ سے ایک رمزی کلیدی پیغام خفیہ طریقے سے وئینا بھیجا جائیگا جس میں روائتی مواصلاتی نظام بھی استعمال ہوگا اور کوانٹم سائنس سیٹیلائٹ کے ذریعے بھی اور متعین کیا جائیگا کہ پیغام محفوظ طریقے سے موصول ہوا۔ کو انٹم سائنس سیٹیلائٹ میں پیغام کو انٹم فوٹونز Photons کے ذریعہ ترسیل ہوگا۔ کو انٹم کی خصوصیت یہ ہے کہ اسکی کاپی نہیں بنائی جا سکتی اور اگر کوشش کی جائے تو پیغام تباہ ہوجائیگا۔چین کیلئے یہ پروجیکٹ اس وجہ سے بھی اہمیت کاحامل ہے کیونکہ ماضی میں امر یکہ چین کو کمپیوٹر ہیکنگ کا الزام دیتا تھا جبکہ خود سائبر پیغامات چرانے میں ملوث تھا۔ ’’میشئیس‘‘ کی ہیک پروف خصوصیت سے چین ثابت کردیگا کہ اس گھنائونے جرم وہ شریک نہیں بلکہ اسکا ہدف تھا۔ دوسرے یہ کہ اسکے اپنے مواصلات محفوظ ہوں گے اور وہ بخوشی یہ ٹیکنالوجی دنیا بھر کو دینے کیلئے تیار ہے۔یہ الزام بھی چین پر نا حق لگا یا جاتا رہا ہے کہ وہ اپنے تمام تر وسائل ہتھیاروں کی نشوونما پہ خرچ کررہا ہے کیونکہ وہ فوجی قوت بننے کا خواہاں ہے۔ اس پروجیکٹ کو بآسانی فوجی استعمال کی سیٹیلائٹ میں منتقل کیا جاسکتا تھا لیکن چونکہ چین کے فوجی یاجار حانہ مقاصد نہیں لہذا اس نے تمام تروسائل سائنس اور تحقیق کی خاطر مختص کردئے۔چینی سائنس دانوں کی کاوشوں کو انکے یورپی اور امریکی ہم منصبوں نے بے حد سراہا ہے۔ امر یکہ ،روس ، جاپان، کناڈا اور یورپی یونین بھی اس قسم کے پر وجیکٹ کے متمنی تھے کہ کوانٹم ٹیکنالوجی کو خلاء میں لے جائیں اور نئی کا ئناتیں اور نئی کہکشاں دریافت کریں لیکن بجٹ میں کمی اور تحقیق کے محدود ہونے کیو جہ سے وہ اس منصوبے کوعملی جامہ نہ پہنا سکے لیکن وہ چینی کا وشوں اور دریافتوں سے فیضیاب ہوسکیں گے۔کوانٹم سیٹیلائٹ کے استعمال سے عالمی پیمانے پر کوانٹم مواصلات ممکن ہونگے اور یہ مستقبل میں کوانٹم انٹر نیٹ کیلئے اہم قدم ہوگا۔ چھوٹے مصنوعی سیارئے اربوں میل دور سے تصویر یں اور پیغامات بغیر کسی بڑے اینٹینا کے استعمال کے ارسال کر سکیں گے۔توقع کی جاتی ہے کہ اس سے دنیا میں ایک جد ید پیغام رسانی کا ذریعہ حاصل ہوجائے جس کی لا محدود ممکنات ہیں۔
چین کا جد ید سیٹیلائٹ محفوظ مواصلات کا ضامن
Aug 21, 2016