جنرل اسمبلی کے آئندہ ماہ کے اجلاس میں بھارت پر عالمی دبائو ڈلوانے میں کوئی کسر نہ چھوڑیں

پاکستان کی بھارتی سیکرٹری خارجہ کو اسی ماہ دورۂ پاکستان کی دعوت اور یواین سیکرٹری جنرل کی ثالثی کی پیشکش

پاکستان نے بھارت کے سیکرٹری خارجہ کو رواں ماہ کے اختتام پر دورۂ پاکستان کی دعوت دیدی ہے تاکہ دونوں ممالک کے خارجہ سیکرٹری خصوصی طور پر مسئلہ کشمیر زیرغور لاکر کشمیری عوام کی امنگوں اور سلامتی کونسل کی قرارداوں کے مطابق اس مسئلہ کا شفاف اور منصفانہ حل تلاش کرنے کیلئے مذاکرات کریں۔ اس سلسلہ میں ترجمان دفتر خارجہ نفیس ذکریا نے بتایا کہ بھارت کے ہائی کمشنر کو بلا کر بھارتی سیکرٹری خارجہ کے خط کا جواب انکے حوالے کیا گیا ہے۔ پاکستان کے جوابی خط میں یہ مطالبہ بھی کیا گیا ہے کہ بھارت مقبوضہ کشمیر میں حق خودارادیت کی جدوجہد کرنیوالے کشمیری عوام کے انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں فوراً بند کرے‘ زخمیوں کو طبی سہولیات تک پاکستان کو رسائی دے اور انکے علاج معالجہ کیلئے ڈاکٹروں کی ٹیم کو مقبوضہ کشمیر کا سفر کرنے کی اجازت دے۔ قبل ازیں بھارتی سیکرٹری خارجہ نے اس شرط پر پاکستان آنے پر آمادگی کا اظہار کیا تھا کہ بات چیت صرف دہشت گردی کے موضوع پر ہوگی۔ پاکستان کے جوابی مراسلہ میں بھارتی سیکرٹری خارجہ کو باور کرایا گیا ہے کہ بھارت مسئلہ کشمیر کے منصفانہ حل کیلئے مذاکرات کرے اور یہ مسئلہ کشمیری عوام کی امنگوں کے مطابق حل کیا جائے۔ وزیراعظم کے معاون خصوصی طارق فاطمی نے اس سلسلہ میں کہا ہے کہ ہمیں بھارتی حکومت کے بیانات پر سخت تشویش ہے اور ان بیانات پر ہم نے بھارتی قیادت کو احتجاج بھی ریکارڈ کرایا ہے۔ ایسے بیانات دوطرفہ معاہدوں کی خلاف ورزی ہے جبکہ بھارت ایسے بیانات کے ذریعے مقبوضہ کشمیر سے دنیا کی توجہ ہٹانا چاہتا ہے۔ انکے بقول بھارت جس معاملہ پر چاہے ہم اس سے بات کرنے کو تیار ہیں تاہم بھارت کو مقبوضہ کشمیر کی صورتحال پر بھی بات کرنا ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ پاکستانی فورسز کسی بھی ممکنہ پیش رفت کا جواب دینے کی اہلیت رکھتی ہیں اور ہمہ وقت تیار ہیں۔
بھارت کشمیر پر اپنی ہٹ دھرمی کا چاہے جتنی بھی شدت کے ساتھ مظاہرہ کرتا رہے‘ کشمیری نوجوانوں نے اپنے آباء کی شروع کی گئی تحریک آزادی کو اپنی اچھوتی سوچ اور کشمیر کی ہندو کے تسلط سے آزادی کیلئے جانیں نچھاور کرنے کے بے پایاں جذبے کے تحت آج پوری دنیا کو بھارتی مظالم کی جانب متوجہ کردیا ہے جبکہ پاکستان نے بھی اپنی سفارت کاری کو متحرک کرکے عالمی لیڈران اور حقوق انسانی کے عالمی اداروں کو بھارت کا اصل چہرہ دکھا دیا ہے جس کی بنیاد پر بھارت پر کشمیریوں کے حق خودارادیت کیلئے عالمی دبائو بڑھ رہا ہے اور گزشتہ روز یواین سیکرٹری جنرل بانکی مون نے بھی وزیراعظم نوازشریف کے مراسلہ کے جواب میں کشمیر پر پاکستان کے موقف کی تائید کرتے ہوئے اس مسئلہ کے حل کیلئے ثالثی کی پیشکش کی ہے اور ساتھ ہی کشمیری عوام پر جاری بھارتی مظالم کی مذمت بھی کی ہے۔ انکے بقول پاکستان اور بھارت کو دوطرفہ مسائل مذاکرات سے ہی حل کرنا ہونگے۔ یواین سیکرٹری جنرل بے شک نیک نیتی سے پاکستان اور بھارت کے مابین ثالثی کی پیشکش کررہے ہیں تاہم مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے انکی ثالثی کی نہیں‘ انکی جانب سے بھارت سے جنرل اسمبلی اور سلامتی کونسل کی ان قراردادوں پر عملدرآمد کرانے کی ضرورت ہے جن کے تحت اس نمائندہ عالمی ادارے نے کشمیریوں کا استصواب کا حق تسلیم کیا تھا اور بھارت کو کشمیر میں استصواب کے اہتمام کی ہدایت کی تھی۔ بھارتی بدنیتی تو اس وقت ہی واضح ہو گئی تھی جب اس نے کشمیریوں کے استصواب سے متعلق اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عملدرآمد سے گریز شروع کیا اور پھر کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ قرار دیا جس کا جواز نکالنے کیلئے بھارت نے اپنے آئین میں ترمیم کی اور مقبوضہ وادی کو اپنی ریاست کا درجہ دے دیا۔ یہ بھارتی ہٹ دھرمی آج کے دن تک برقرار ہے جبکہ ہندو تسلط سے اپنی آزادی کی متعینہ منزل کے حصول کیلئے کشمیری عوام نے بھی آج کے دن تک اپنے جذبے میں کوئی کمی نہیں آنے دی۔ انکی تقریباً 70 سال پر محیط آزادی کی جدوجہد نے دنیا میں آزادی کی تحریکوں کی ایک روشن مثال قائم کی ہے جس میں پانچ لاکھ کشمیریوں کی شہادتوں‘ لاکھوں کشمیریوں کے بہائے گئے خون‘ عفت مآب کشمیری خواتین کی عصمتوں کی قربانیوں‘ ارب ہا روپے کے مالی نقصانات اور اب تیسری نسل کے کشمیری نوجوانوں کے ظالم بھارتی فوجوں کی سنگینوں کے آگے نہتے سینہ سپر ہونے‘ اپنی جانوں کی پرواہ نہ کرنے اور بھارتی پیلٹ فائرنگ سے اپنے جسم چھلنی کراکے خودکو مستقل اپاہج بنانے کے عمل نے اقوام عالم کو یہ ٹھوس پیغام دے دیا ہے کہ ظلم کا کوئی ہتھکنڈہ‘ خوف اور لالچ کا کوئی حربہ اور انکی صفوں میں دراڑیں ڈالنے کی کوئی سازش انکے جذبوں کے آگے بند نہیں باندھ سکتی اور آزادی انکی منزل ہے جو اب بھارتی ہٹ دھرمی کے باعث کامرانی کے قریب آچکی ہے۔
کشمیر پر پاکستان کا کیس اپنی جگہ دوٹوک اور اٹل ہے کہ تقسیم ہند کے ایجنڈا کے تحت مسلم اکثریتی آبادی کی بنیاد پر ریاست جموں و کشمیر کا پاکستان کے ساتھ ہی الحاق نوشتۂ دیوار ہے جو استحکام پاکستان کا تقاضا بھی ہے جبکہ خود کشمیری عوام نے بھی تقسیم ہند سے قبل اپنے نمائندہ اجلاس میں اپنا مستقبل پاکستان سے وابستہ کرلیا تھا جو آج کے دن تک اپنے اس عزم پر کاربند ہیں۔ اس تناظر میں کشمیری عوام کی آزادی کی تحریک انکی پاکستان کے ساتھ الحاق کی تحریک ہے اور اس ناطے سے اپنے لئے پاکستان سے دامے‘ درمے‘ سخنے معاونت کی طلب گار بھی ہے تاہم پاکستان آج بھی اپنے اس اصولی موقف پر کاربند ہے کہ کشمیر متنازعہ علاقہ ہے جس کے عوام نے اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کرنا ہے۔ اسی بنیاد پر یواین جنرل اسمبلی اور سلامتی کونسل نے اپنی درجن بھر قراردادوں کے ذریعے کشمیریوں کا استصواب کا حق تسلیم کیا۔ اگر بھارت نے انہیں آج تک اس حق سے محروم کیا ہوا ہے اور وہ انکی آواز بزور دبانے کے درپے ہے تو یہ بھارت کی ہٹ دھرمی کے زمرے میں ہی آتا ہے۔ مگر وہ کب تک کشمیریوں کی آواز دبائے رکھ سکتا ہے جبکہ آج یہ آواز پوری دنیا میں سنائی دے رہی ہے اور خود بھارت کے اندر سے کشمیریوں کے ساتھ یکجہتی کا اظہار ہو رہا ہے۔
گزشتہ ڈیڑھ ماہ سے جاری بھارتی مظالم نے تو کشمیریوں کی تحریک کو مہمیز لگا دی ہے جبکہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے کشمیر ہڑپ کرنے اور پاکستان کی سلامتی کمزور کرنے کی جلدی میں پاکستان کے اندرونی معاملات میں کھلم کھلا مداخلت کرکے بھارتی عزائم سے خود ہی دنیا کو آگاہ کر دیا ہے۔ انہوں نے سقوط ڈھاکہ کی شکل میں پاکستان توڑنے کا کریڈٹ لیا‘ پاکستان پر دہشت گردی کا ملبہ ڈالنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی‘ پٹھانکوٹ حملے میں پاکستان کے نان سٹیٹ ایکٹرز کے ملوث ہونے کا ڈرامہ رچا کر دوطرفہ مذاکرات کے دروازے بند کئے اور اب ہذیانی کیفیت میں پاکستان کو اسکے یوم آزادی کے موقع پر یہ پیغام دیا کہ آزاد کشمیر میں بھی بہت جلد بھارتی ترنگا لہرائے گا تو کیا مودی سے صلح جوئی کے جذبے کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بیٹھ کر مسئلہ کشمیر کے کشمیری عوام کی امنگوں کے مطابق حل پر آمادہ ہونے کی توقع کی جاسکتی ہے؟ اس حوالے سے تو ہندو انتہاء پسندی والی بھارتی بلی تھیلے سے باہر آچکی ہے اس لئے اب ایسی حکمت عملی طے کرنے کی ضرورت ہے کہ بھارتی مکروہ چہرے کا کوئی بھی پہلو دنیا سے مخفی نہ رہے۔ اس کیلئے کشمیری نوجوانوں نے پہلے ہی فضا ہموار کر دی ہے اس لئے اب کشمیریوں کی جدوجہد کا یہ ٹمپو کسی صورت ٹوٹنے نہیں دیا جانا چاہیے۔
شومئی قسمت بھارت پر پڑنے والے عالمی دبائو کی اسی فضا میں آئندہ ماہ ستمبر میں یواین جنرل اسمبلی کا سالانہ اجلاس منعقد ہو رہا ہے جو بھارت کو کشمیریوں کیلئے استصواب کے انتظامات پر مجبور کرنے کا بہترین موقع ہے۔ ممکن ہے مودی اس متوقع عالمی دبائو کو بھانپ کر گزشتہ سال کی طرح اس بار بھی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں خود شریک نہ ہوں مگر اجلاس میں بھارتی وزیر خارجہ یا بھارت کا جو بھی نمائندہ شریک ہوگا اسے عالمی قیادتیں پورے مینڈیٹ کے ساتھ اجلاس میں آنے پر مجبور کرسکتی ہیں اور یہی وہ مجاز فورم ہے جہاں اقوام عالم کے نمائندگان موجود ہونگے تو بھارت پر مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے یواین قراردادوں پر مکمل عملدرآمد کیلئے دبائو ڈالنے کی پوزیشن میں ہونگے۔ پاکستان کو بہرصورت کشمیر پر مضبوط اور ٹھوس کیس کے ساتھ اس اجلاس میں شرکت کرنی ہے اور کشمیری نوجوانوں کی جدوجہد سے مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے ہموار ہوئی فضا سے فائدہ اٹھانا ہے۔ بھارتی سیکرٹری خارجہ اس ماہ کے آخر تک پاکستان آتے ہیں یا نہیں‘ ہمارے دفتر خارجہ اور حکومتی‘ سیاسی قائدین کو اقوام عالم میں بھارتی عزائم بے نقاب کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑنی چاہیے تاکہ جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس کے موقع پر عالمی قیادتیں بھارت پر دبائو ڈال کر اسے مقبوضہ کشمیر میں استصواب کے اہتمام پر مجبور کرسکیں۔ اسکے سوا بھارت کے پاس مسئلہ کشمیر کے حل کا کوئی راستہ ہے نہ کوئی دوسرا حل کشمیری عوام اور پاکستانی قوم کو قبول ہوسکتا ہے۔

ای پیپر دی نیشن