مسلم لیگ کا بدلتا منظر نامہ

حکمران مسلم لیگ، جناب نواز شریف کی نا اہلی کے بعد فطری حالات کا شکار ہے اندرونی شکست و ریخت کا عمل اگرچہ خلاف معمول بہت سست ہے لیکن شروع ہو چکا ہے۔ جس کا پہلا اظہار چودھری نثار علی خان اور سابق وزیر اطلاعات پرویز رشید کے درمیان لفظی زبانی و کلامی ی±دھ کا آغاز ہے۔ جناب پرویز رشید روشن خیال سیاسی کارکن اور پاکستان میں جمہوریت کے لئے قربانیوں کی جدوجہد کی طویل تاریخ رکھتے ہیں ۔نثار پرویز رشید مکالمہ بنیادی طور پر ایک بے مایہ سیاسی کارکن اور اعلی وارفع طاقتور اشرافیہ کے درمیان مدتوں سے جاری کشمکش کا ایک نئے انداز میں انوکھا اظہار ہے اس میں جناب نواز شریف غریب سیاسی کارکن جبکہ شہباز شریف اپنے یار غار چودھری نثار علی خان کے ساتھ ہیں لیکن ان کی اہلیہ اور سیاسی اتالیق محترمہ تہمینہ درانی تمام مصلحتیں بالائے طاق رکھ کر جناب نواز شریف کے اقدامات کو ہدف بنائے ہوئے ہیں ۔ابلاغی زکوٹوں شکوٹوں کا آصرار ہے کہ چودھری نثار، نواز شریف کے سیاسی مستقبل سے مکمل مایوس ہو چکے ہیں کہ امریکی بھی وسیع تر تناظر میں اپنا ہاتھ کھینچ چکے ہیں کہ ان کا خیال ہے کہ بدلتے ہوئے حالات میں نواز شریف کو اپنی لائن پر چلانا ممکن نہیں ہوگا اور پاکستان میں دوبارہ ”ون ونڈو“ آپریشن کرنے کا وقت آن پہنچا ہے ۔
نظریاتی سیاست کی ٹوٹی پھوٹی کشتی کے سوار پرویز رشید ایک بار پھر نشانہ پر ہیں۔ وہ ”گھر پر نظربندی“ کی سہولت لینے والوں میں شامل ہونے کو تیار نہیں، پاناما فیصلے کے نتیجے میں’ ’ہاﺅس آف شریف“ تقسیم ہوچکا ہے۔ سیاسی حواریوں اور وفاداریوں کی نئی صف بندی جاری ہے۔ سیاسی طبل جنگ بج چکا اور گھمسان کا رن بس پڑنے کو ہے۔ سیاسی چرند پرند دم سادھے آنے والے واقعات کے منتظر ہیں۔ یہ راز نہیں رہا کہ شہباز شریف اور چکری کے چودھری نثار ایک کشتی کے سوار ہیں، دونوں کی سوچ، طرزعمل اور مستقبل کا لائحہ عمل ایک ہیں۔ دونوں بیک وقت ایک دوسرے کی طاقت اور کمزوری بن چکے ہیں۔ دونوں کی سیاسی بقا بھی انہیں بدقسمتی سے ایک ایسے موڑ پر لے آئی ہے۔ کچھ چھچھورے یہاں تک کہتے ہیں کہ دونوں کے شوق بھی باہم ملتے جلتے ہیں۔ دونوں جو چاہتے ہیں وہ ہونہیں رہا اور جو نہیں ہونا چاہئے اس پر ان کی پیش نہیں چل پارہی۔ دونوں نوازشریف کی عوامی مقبولیت کا فائدہ تواٹھانا چاہتے ہیں لیکن ان کے ”سیاسی اقدامات“ کا بو جھ اٹھانے سے بچنا چاہتے ہیں۔ جو ”شریف مکہ“ نے مقرن اور نائف کے ساتھ کیا ہے۔ نہ چپ رہ سکتے ہیں اور بولیں تو سیاسی گناہ کے سزاوار قرا ر پائیں۔
پاناما کے ڈراپ سین کے بعد نوازشریف کا دل و دماغ سمجھے جانے والے پرویز رشید میدان میں ہیں۔ ان کی یہی ادا تھی جو مشرف کی صورت میں نازل ہونے والی بلا کے شکار نوازشریف اور ان کے اہلخانہ کے دلوں میں گھر کرگئی۔ پرویز رشید پر تشدد کا گواہ ایک زمانہ ہے۔اپنوں کی تو چھوڑئیے،سیاسی اور نظریاتی مخالفین نے بھی انگلیاں دانتوں تلے دبالیں۔ رسوائی اور جبر کی سیاہ رات میں پرویز رشید کی سسکیوں کو ساتھ والے قید خانے کے قیدی آج بھی جھرجھری لے کر بیان کرتے ہیں۔ اس کا قصور نوازشریف سے وفاداری اور نظریاتی سوچ کو دلیل کے سوا کسی بھی حربے سے تبدیل نہ کرنے کی ”ضد“ تھی۔ ایسے ضدی تو اور بھی کئی ہیں۔ سیاسی اورپھر نظریاتی سیاست کا بانکپن کچھ ایسے ہی شوریدہ سروں سے ہوا کرتا ہے۔ پرویز رشید حکومت اور پارٹی سے قانونی عمل کے نتیجے میں کاٹ کر باہر پھینک دئیے جانے والے سیاسی زخمی نوازشریف کے ہراول دستے کے شہسوار کا کردار ادا کررہے ہیں۔ ان کی سوچ کے نتیجے میں ایک نئی سیاسی حکمت عملی جنم لے رہی ہے جس کے آنے والے دنوں میں اثرات پاکستانی کی سیاست اور جمہوری نظام کےلئے بڑے گہرے ثابت ہوں گے۔ حکمت عملی کے تحت سیاسی شطرنج کی چالیں چلنے کا وقت شروع ہوتے ہی پارٹی کے ”اِن ہاﺅس“ بھی اثرات پڑنے لگے ہیں۔ ”شہباز، نثار“ اتحاد کی کوشش ہے کہ پرویز رشید کی سوچ پر بننے والی سیاسی حکمت عملی کا راستہ کسی بھی طورپر روکا جائے۔
ملک کے جمہوریت پسند حلقے اور بالخصوص سیاسی نظام کے تسلسل کے حامی پرویز رشید حامی ہیں۔ پارلیمانی بالادستی کو لاحق ”امراض“ کا تریاق تیا ر کرنے والی ٹیم کے اہم رکن کے طورپر پرویز رشید آنے والے دنوں میں ”سرخ لکیر“ پر رہیں گے اور کئی نگاہیں ان کے تعاقب میں ہوں گی۔ دستور پاکستان کو طاقت ور بنانے کےلئے جن آئینی ترامیم کی تیاری جاری ہے۔ وہ پاکستان کی زندگی میں ایک انتہائی اہم اور نازک ترین موڑ ہے۔ اس اقدام کے ممکنہ نتائج ہولناک ہی نہیں، عبرتناک بھی ہوسکتے ہیں۔ سیاست کا کھیل ،روایتی کھیل نہیں رہا بلکہ جنگ میں تبدیل ہوتا جارہا ہے۔
اس عمل کا حرف آغاز پرویز رشید اور چوہدری نثار علی خان کے درمیان دلائل کی شمشیر زنی ہے۔ جیسے ماضی کی جنگوں میں گھمسان کا رن پڑنے سے قبل دونوں جانب سے نامی گرامی سالار آگے بڑھ کر دعوت مبارزت دیا کرتے تھے۔ نوازشریف کی جانب سے پرویز رشید اور ان کے پیچھے رانا ثناءاللہ خان میدان میں نکلے ہیں اور مشرف کی بدروحوں کے خلاف علم جہاد بلند کرچکے ہیں۔ شہباز شریف اور چوہدری نثار علی خان کی اولین کوشش ہے کہ کسی طرح سے نوازشریف کو پرویز رشید کی حکمت عملی پر عمل درآمد سے روکا جائے ان کو اندیشہ ہے کہ طاقتور اداروں پر آئینی اور جمہوری یلغار خود کشی ہوگی۔ سیاسی جماعتوں کی حمایت کے نتیجے میں ممکنہ اثرات کو مدنظر رکھتے ہوئے شہباز شریف اور چوہدری نثار کو یقین ہے کہ ملک میں سیاسی نظام کا کباڑہ ہویا نہ ہو لیکن خود ان کے اپنے پلے کچھ نہیں رہے گا۔
حرف آخر یہ کہ غیرملکی کھلاڑی بھی ملک کے اندر بچھی اس سیاسی بساط میں کھل کھیلنے کو آن گھ±سے ہیں۔ وطن عزیز کو پہلے ہی چاروں اور خطرات درپیش ہیں۔ جو کمر درد کے فوری بعد ہونے والی پریس کانفرنس میں چوہدری نثار علی خان نے خود بیان کئے ہیں۔ ان خطرات کو بیان کرنے والے چوہدری نثار علی خان کو اب کھل کر سامنے آنا ہوگا۔ انہیں بتانا ہوگا کہ خطرات کیا ہیں؟ کس وجہ سے ہیں؟ ترجمانوں کے پیچھے چھپنے کا وقت گزر چکا جامع اور اختصار سے کھل کر حقائق بیان کریں بلند و بانگ دعوو¿ں کی بجائے ٹھوس حقائق سامنے لائیں صرف اور صرف ٹھوس حقائق لیکن یاد رکھیں نواز شریف کی مقبولیت پر دعوی کے ساتھ ان کے نظریات کا بوجھ اٹھانے سے انکار پیچیدہ سیاسی کھیل ہو گا۔ الحذر کہ منظر بدل رہا ہے شکست و ریخت شروع ہو گئی ہے۔
٭....٭....٭....٭....٭....٭....٭....٭

ای پیپر دی نیشن