پشاور(بیورورپورٹ)وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا پرویز خٹک نے انکشاف کیا ہے کہ اعلیٰ تعلیمی اداروں میں منشیات کی روک تھام کیلئے آرمی اور پولیس کی مشترکہ ٹیمیں تشکیل دی جارہی ہیں۔ انہوںنے منشیات کے عادی افراد کی بحالی کے سنٹر پجگی روڈ کوبھی آرمی کے حوالے کرنے کا عندیہ دیا ہے ۔وہ وزیراعلیٰ ہاﺅس پشاور میںڈائریکٹر جنرل انٹی نارکوٹکس فورس میجر جنرل مسرت نواز ملک سے گفتگو کر رہے تھے۔ سیکرٹری سوشل ویلفیئر اور دیگر متعلقہ حکام بھی اس موقع پر موجود تھے ۔ وزیراعلیٰ نے کہاکہ اعلیٰ تعلیمی اداروں میں منشیات کی سمگلنگ اور اس کے استعمال کو روکنے کیلئے دیر پا اقدامات ناگزیر ہیں ۔اس مقصد کیلئے آرمی اور پولیس پر مشتمل مشترکہ ٹیمیں تشکیل دی جارہی ہیں جو اعلیٰتعلیمی اداروں میں چھاپے ماریں گی ۔ ان ٹیموںکے باقاعدہ اجلاس ہوں گے اور باہمی کوآرڈنیشن یقینی بنائی جائے گی ۔وزیراعلیٰ نے منشیات کے عادی افراد کی آباد کاری و بحالی کیلئے سرکاری ہسپتالوں میں بھی اہتمام کرنے کی ہدایت کی ہے اور کہا ہے کہ یہ ایک کار خیر ہے جس پر خصوصی توجہ دینی چاہیئے ۔ مجوزہ ٹیموں کی تشکیل کیلئے وزیراعلیٰ نے انسپکٹر جنرل پولیس سے بھی بات کی ۔دریں اثناءمختلف وفود سے گفتگو کرتے ہوئے وزیراعلیٰ نے کہاکہ اُن کی حکومت نے ایک قابل عمل سسٹم کی بنیادرکھ دی ہے۔ایک منظور شدہ طریقہ کار ہے ۔ قوانین کے ذریعے ڈیلیوری کے عمل میں موجود رکاوٹیں دور کی گئی ہےں۔وزیراعلیٰ نے کہاکہ اُن کی ساری عمر سیاست میں گزری ہے ۔ عوام کی تکالیف کو محسوس کیا اور جتنا اختیار تھا وہ اُن تکالیف کے ازالے کیلئے استعمال کیا۔ انہوںنے ماضی کے سسٹم کا بغور مشاہد ہ کیا اور محسوس کیا کہ یہ سسٹم کتنا کھوکھلا ہے لوگ دربدر کی ٹھوکریں کھاتے تھے اور ادارے ڈیلیور نہیں کر رہے تھے۔وزیراعلیٰ نے کہاکہ جب اُن کی حکومت نے اصلاحا ت کا سلسلہ شروع کیا تو عجیب و غریب صورتحال کا سامنا تھا ۔ اُن کیلئے یہ امر انتہائی عجیب اور افسوسناک تھا کہ جب انہوںنے دیکھا کہ ایک فرد کسی ایک معاملے میں دو جگہوں پر دو مختلف فیصلے کرتا ہے ۔ یعنی فیصلہ سازی ذاتی پسند و ناپسند کی بنیاد پر کی جاتی تھی ۔ میرٹ کے برعکس جو جی میں آیا فیصلہ کردیا اور جب چاہا بدل دیا ۔اداروں کا مقصد کیا ہے اور عوام اس سارے عمل میں کہاں کھڑے ہیں کسی کو کوئی فکر نہ تھی ۔ذمہ داران کے اس طرز عمل سے عوامی فلاح اور ریلیف دینے کی روح متا ثر ہوتی ہے اس طرز عمل کے تدارک کیلئے ذہنوں کی تربیت ناگزیر تھی تاکہ منفی سوچ کی بجائے ریلیف دینے کا راستہ بنایا جا سکے۔ہمیں عوام کو درپیش مشکلات کوسمجھ کر اُن کے حل کا راستہ ڈھونڈنا ہو گا۔ وزیراعلیٰ نے کہاکہ اُن کی حکومت نے انہیں خطوط پر کام شروع کیا ۔ پہلی بارلوکل گورنمنٹ کے تحت اداروں اور اختیارات کو گاﺅں کی سطح تک لے گئے ۔ مقامی حکومتوں کو اختیارات کے ساتھ وسائل بھی دیئے یہ وسائل کسی کی جیب بھی نہیں جانے چاہئیں ۔ہم نے ہر ڈویژن کو منصفانہ وسائل دیئے ۔ڈیلیوری کے لئے اداروں کو بااختیار بنایا ۔ وزیراعلیٰ نے کہاکہ ہمارا کام پالیسی بنانا ، قانون سازی کرنا اور قابل عمل سسٹم دینا ہے۔اسی کیلئے ہم کھڑے ہیں۔ ہم نے راستے بنائے اور خدمات کی فراہمی کا عمل شروع کیاجس کے اثرات ہر سطح پر واضح ہیں۔ وزیراعلیٰ نے کہاکہ موجودہ صوبائی حکومت کے وضع کردہ اس سسٹم کا تسلسل قومی ترقی اور خوشحالی کیلئے ضروری ہے۔ایک شفاف اور منصفانہ نظام کے بغیر ترقی کا تصور بھی ناممکن ہے۔
پشاور(بیورورپورٹ)وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا پرویز خٹک نے محکمہ جنگلات کے متعلقہ حکام کو اگلے ہفتے بٹگرام کا دورہ کرنے اور وہا ںورکنگ پلان پر لوگوں کے اعتراضات سننے کے احکامات جاری کئے ہے ۔ انہوں نے کالا ڈھاکہ جنگلات کے حوالے سے اسمبلی کی سب کمیٹی کے فیصلے کو طلب کرنے کے علاوہ کوہستان کے دریاﺅں میں پڑے درختوں کا مسئلہ آرمی کے متعلقہ حکام کے ساتھ اٹھانے کی یقین دہانی کرا ئی ہے۔وہ وزیراعلیٰ سیکرٹریٹ پشاور میں جنگلات مالکان کے 20 رکنی وفد سے ملاقات کر رہے تھے۔ اس موقع پر سیکرٹری جنگلات ، کنزرویٹیو جنگلات ، کنزرویٹیو ورکنگ پلان اورکنزرویٹیو جنگلات ہزارہ بھی موجود تھے۔ اس موقع پر کئی اہم فیصلے کئے گئے۔ اجلاس میں جنگلاتکے مالکان کی طرف سے بٹگرام میں ورکنگ پلان پر اعتراض کیا گیا جس پر وزیراعلیٰ نے چیف کنزرویٹیو محکمہ جنگلات کو حکم جاری کیا کہ وہ اگلے ہفتے منگل کے دن بٹگرام کا دورہ کر کے تمام جنگل کے مالکان کے اعتراضات کو سن کر قانون کے مطابق فیصلہ کریں۔ وزیراعلیٰ نے کالا ڈھاکہ کے جنگلات کے حوالے سے اسمبلی کی سب کمیٹی کا فیصلہ تحریری طور پر طلب کرتے ہوئے کہا کہ کالا ڈھاکہ میں ورکنگ پلان کے بغیر کسی بھی قسم کی کٹائی کی اجازت نہیں دی جائے گی ورکنگ پلان میں جن درختوں کی مارکنگ ہوگی صرف وہ کٹائی قابل قبول ہوگی۔ کو ہستان دریاﺅں میں پڑے درختوں کے حوالے سے وزیراعلیٰ نے بتایا کہ اس حوالے سے آرمی کے متعلقہ حکام سے بات چیت کی جائے گی اور اس مسئلے کا حل نکالا جائے گا۔ وزیراعلیٰ نے بٹگرام میں جنگلات کے مالکان کی سہولت کیلئے خسرہ کی تعداد بڑھانے کے حوالے سے متعلقہ حکام کو بتایا کہ اگر ممکن ہو تو ان کی سہولت کیلئے تعداد 2 سے بڑھا دیں۔