مکی آرتھر،عمر اکمل دونوں جوابدہ ہیں!!!

Aug 21, 2017

حافظ محمد عمران

عمر اکمل اور مکی آرتھر کے مابین تنازعہ خاصا افسوسناک ہے۔ اس بیان بازی سے مجموعی تاثر اچھا نہیں آیا۔ دنیائے کرکٹ کے تیز ترین گیند باز شعیب اختر نے بیان بازی کے بعد نوٹس بازی کو بھی غیر ضروری قرار دیتے ہوئے مل بیٹھ کر معاملہ حل کرنے پر زور دیا ہے۔ شعیب اختر نے ٹوئٹر پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان کرکٹ بورڈ دوستانہ ڈائیلاگ کو ترجیح دے۔ ہم سب ایک ٹیم کی طرح ہیں ہمیں متحد رہنا چاہیے۔عمر اکمل کی طرف سے کی گئی پریس کانفرنس کے بعد مکی آرتھر کا موقف بھی سامنے آیا۔ اس کے بعد پاکستان کرکٹ بورڈ نے مڈل آرڈر بلے باز کو شوکاز نوٹس جاری کیا۔ ایک دن بعد عمر اکمل کے بیانات پر پھر کرکٹ بورڈ نے وضاحت یا تردید بھی جاری کی۔ بورڈ نے فٹنس کے حوالے سے مکی آرتھر والا موقف دہرایا۔ حالیہ تنازع میں فٹنس، خراب کارکردگی پس منظر چلی گئی ہے اس وقت اصل معاملہ مکی آرتھر کی طرف سے بد زبانی کا ہے۔ کیا واقعی ہیڈ کوچ نے عمر اکمل کو گالیاں دیں، کیا انہوں نے ایک کرکٹر کے ساتھ ناانصافی کی، کیا انہوں نے اختیارات اور حدود سے تجاوز کیا؟کیا مکی آرتھر کسی پاکستانی کھلاڑی کو نیشنل کرکٹ اکیڈمی میں پریکٹس سے روکنے اور اکیڈمی میں آنیوالے کرکٹرز اگر غیر ملکی کوچنگ سٹاف سے مدد، تعاون یا رہنمائی چاہتے ہیں تو کیا مکی آرتھر انہیں روکنے کا اختیار رکھتے ہیں، اگر کوئی کھلاڑی سینٹرل کنٹریکٹ میں شامل نہیں ہے تو ہیڈ کوچ کی طرف سے اپنا سٹاف نہ دینا اور کھلاڑی کو ڈانٹنا قواعد و ضوابط اور قوانین کی خلاف ورزی نہیں؟جہاں تک تعلق عمر اکمل کی فٹنس کا ہے تو چیمپئنز ٹرافی سے پہلے انکا ایک فٹنس ٹیسٹ چیف سلیکٹر انضمام الحق کی نگرانی میں ہمارے اپنے سٹاف نے لیا تھا۔ عمر اکمل وہ فٹنس ٹیسٹ پاس کرنے کے بعد اسکواڈ کا حصہ بنے۔ اس فٹنس ٹیسٹ کے نتائج تسلیم نہیں کیے گئے تو پھر اس عمل میں شامل تمام افراد سے بھی تفتیش ضروری ہے۔ چیف سلیکٹر سمیت سب نے ان فٹ عمر اکمل کو فٹ کیسے قرار دے دیا اور اگر وہ فٹ تھا تو پھر مکی آرتھر نے اسے ان فٹ کیسے کر دیا۔ چیف سلیکٹر کی زیر نگرانی وہ ٹیسٹ پاکستان کرکٹ بورڈ کے اپنے نظام پر سوالیہ نشان ہے۔مکی آرتھر اور عمر اکمل کے معاملے میں رنگ دیکھ کر کیس کا فیصلہ نہیں کرنا چاہیے۔ ہیڈ کوچ نے حدود سے تجاوز کیا تو انکے خلاف بھی کارروائی ضروری ہے۔ عمر اکمل کے الزامات سنجیدہ نوعیت کے ہیں ان الزامات کی شفاف تحقیقات ضروری ہیں۔ غیر ملکی کوچ نے اگر سخت زبان استعمال کی ہے تو ان کے ساتھ بھی برتاو قوانین کے مطابق ہونا چاہیے۔ عمر اکمل کے مطابق ساری کارروائی چیف سلیکٹر انضمام الحق اور نیشنل کرکٹ اکیڈمی کے ہیڈ کوچ مشتاق احمد کے سامنے ہوئی ہے وہ کہتے ہیں برداشت ختم ہوئی تو ہاتھ ملا کر کمرے سے نکل آیا مشتاق احمد نے روکنے کی کوشش بھی کی۔
دوسری طرف عمر اکمل ہیں، وہ بھی ویسے ہی جوابدہ ہیں جیسے مکی آرتھر۔ دونوں پر کرکٹ بورڈ کے قواعد وضوابط اور قوانین کا اطلاق یکساں ہوتا ہے۔ عمر اکمل نے قوانین کی خلاف ورزی کی ہے تو انکے ساتھ بھی کوئی نرمی نہیں ہونی چاہیے۔شعیب اختر کے مشورے پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے معا۔لے کو ٹھنڈے دماغ سے اور مل بیٹھ کر بھی حل ہو جائے تو مضائقہ نہیں لیکن کسی ایک فریق کی غیر ضروری حمایت نقصان دہ ثابت ہو گی۔ بیان بازی کے بعد نوٹس بازی کی بہرحال ضرورت تھی لیکن اس کے بعد کی کارروائی میں غیر جانبداری اور انصاف کی ضرورت ہے۔ ماضی میں قومی ٹیم کے ہیڈ کوچ وقار یونس کی عمر اکمل اور احمد شہزاد کے بارے رپورٹ کو اس وقت کی ایگزیکٹو کمیٹی کے سربراہ اور کرکٹ بورڈ کے موجودہ چئیرمین نجم سیٹھی نے زیادتی قرار دیا تھا دیکھنا یہ ہے کہ اس مرتبہ وہ کیا موقف اختیار کرتے ہیں۔

مزیدخبریں