غریبوں کا نمائندہ

ایک دن بھی نہیں، چند گھنٹوں میں درجن اداروں میں وزٹ کر آئے۔ ناقص تعمیر پر افسران معطل، کہیں ادویات کے پیسے عوام کو واپس کرنے کی ہدایت، شدید برہم، دوسرا دورہ پہلے والے دورے کے نقائص، خامیاں دور کرنے میں ناکام رہا۔ انتظامیہ جان لے میں ان کا نہیں غریبوں کا نمائندہ ہوں۔ غریبوں کے چند مسائل آپ کی نذرہیں۔
قریب آتی ”بڑی عید“ کے حساب سے ”ہوس مافیا“ ذخیرہ اندوزوں کی چوریاں تیز ہوتی جا رہی ہیں۔ ذکر قربانی کے جانور نہیں وہ تو امیر کلاس کی پہنچ، جیب سے دور ہو چکے ہیں ان کا ذکر الفاظ ضائع کرنے کے مترادف ہے۔ گوشت، انڈوں کے بغیر جینا ممکن ہے ویسے ہی کروڑوں لوگ پروٹین کے بغیر زندگی گزار رہے ہیں پر سبزی ایسی چیز ہے کہ دال بھی کتنے دن پکا لیں۔ انسان اکتا جاتا ہے جبکہ قیمت میں یہ گوشت کے برابر پہنچ گئی ہیں۔ کچھ نہ ملے تو سبزی کے چند دانے اوسط ممبر کا پیٹ بھر دیتے ہیں۔ مگر قیمتیں ہیں کہ گھنٹوں کے حساب سے ”ساتویں آسمان“ پر پہنچنے کی بے تابی ہی بے تابی ہے۔ ”مارکیٹ کمیٹی اور ریٹ لسٹ“ اس طرح غائب اور بے حس ہیں جس طرح ”حکومتی رٹ“۔ توقع نہیں یقین رکھتے ہیں کہ اولین وقت میں گرانفروشی کے پھیلاﺅ کے تدارک کے لئے عملی اقدام اٹھائیں گے۔
”بارہا کالمز“ گواہ ہیں۔ حکومت کی شروع کردہ کوئی ”سکیم“ بری یا ناکارہ نہ تھی۔ صرف مو¿ثر نگرانی کے فقدان باعث کچھ ناکامی کے ملبہ میں بدل گئیں۔ کچھ کاغذات میں زندہ ضرور ہیں مگر افادیت، مو¿ثر نتائج کی تصویر امید دم توڑ چکی ہیں۔ خیر چند اپنے وجود کو مفید ثابت کرنے کی تگ و دو میں مصروف ہیں تو صرف اور صرف نگرانی کی وجہ سے وہ جو ”چھوٹے میاں صاحب“ آپ دورے کرتے رہتے ہیں۔ ”سپیڈو بس“ انتہائی خوبصورت بس، بہت بڑی سہولت، غرض آغاز، نیت کی وجہ سے بہت بڑی ”عوامی سہولت“ کا روپ ڈھال سکتی تھی پر افسوس سے کہنا پڑا کہ اکثر ”روٹس” پر خالی بسوں کے گزرنے کا ذکر ہے۔ رپورٹ مشاہدے کے علاوہ ہے۔ سالانہ ”2 ارب 8 کروڑ“ کا نقصان ہو رہا ہے۔ وجہ مہنگا کارڈ بتایا جاتا ہے۔ اب غریب یکمشت ”200 روپے“ کا کارڈ کیسے خریدے جبکہ ”سیٹ“ خالی ہو۔ جب ایسے حالات ہوں تو فوری طلب، اشد ضرورت کو پورا کیا جاتا ہے۔ مزید برآں نہ بسیں پوری ہیں نہ روٹ پورا کرتی ہیں۔ متعدد منصوبوں کی طرح لوگ اس کو بھی فلاپ قرار دے چکے ہیں مگر ہم نا امید نہیں اچھی طرح آگاہ ہیں کہ آپ کی تھوڑی سی توجہ مسئلہ کا حتمی پائیدار حل نکال لے گی۔ سو ”غریبوں کے نمائندہ“ سے کہتے ہیں کہ ادھر توجہ فرمائیں۔ کوئی بھی منصوبہ، پروگرام فیل نہیں ہوتا۔ منصوبوں پر کام کرتے لوگ، چلانے والے دماغ” فلاپ“ ہوتے ہیں اپنی نیت کی کمی باعث بجا فرمایا ”وزیراعلیٰ“ نے ”وسائل کی نہیں سوچ کی غربت ہے“ اشرافیہ گردن تک لدی پھندی مگر عام آدمی محروم۔ واقعی یہ ”قائداعظم کا پاکستان نہیں”۔ پر آپ قوت، وسائل، اختیار رکھتے ہیں بنا سکتے ہیں۔ ترقیاتی کاموں کے علاوہ ان تکالیف کو دور کرنے پر قدرت رکھتے ہیں جو روزمرہ زندگی کو دشوار کئے ہوں۔ 3 لاکھ سے زائد اساتذہ سی ایم پیکج ختم کرنے کے منصوبہ پر سخت تشویش میں مبتلا ہیں۔ محکمہ سکول ایجوکیشن کا ظالمانہ فیصلہ دو دھاری تلوار بن گیا۔ پہلے ہی اپ گریڈیشن منصوبہ تعطل کا شکار تھا۔ پھر دہراتے ہیں منصوبے بد نیتی کی وجہ سے ختم ہوئے اور ناقص پلاننگ التواءکا سبب بنتی ہے۔ یہی کچھ ”اورنج ٹرین“ کے ضمن میں دیکھنے کو مل رہا ہے۔ مزید اراضی ایکوائر کرنے کا فیصلہ عوامی طیش بڑھانے کا مو¿جب بنے گا۔ اس خوشگوار پالیسی کے تناظر میں کہ قومی اداروں کے خلاف بیان بازی روک دی ہے یقیناً بے خبر نہیں ہونگے کہ پرائمری کی نئی نصابی کتابوں سے اسلام، پاکستان، افواج سے متعلق اسباق اور تصاویر خارج کر دی گئی ہیں۔ دشمنان وطن کی کینہ پروری ، بغض، دشمنی کی وجوہات ظاہر و ثابت ہیں مگر اسلام کے متعلق ہمارا رویہ؟؟ کیا یہ سب امور اور دیگر عوامی تکالیف دور کر کے آپ خوش قسمت افراد کی اس فہرست میں شامل ہونا پسند کریں جو تقریر چھاپ نہیں تقدیر ساز تھے۔ ایسے لوگ جو موت، زندگی کے بعد بھی امر رہے۔
نئے عمرانی معاہدے کے لئے اپنا ایوان (سینٹ) پیش کرنے والوں کی راجدھانی میں بالآخر ہائیکورٹ نے نیب کو کرپشن کے خلاف بھرپور کارروائی جاری رکھنے کا حکم صادر کر دیا۔ معزز ”چیف جسٹس“ کے ریمارکس تھے۔ ”حج سے بہتر ہے حرام کا مال واپس کیا جائے۔ کرپٹ افسران کی بحالی پر فرمایا۔“ لگتا ہے معاشرے میں اخلاقیات کا جنازہ نکل گیا ہے۔ پیاز کا چھلکا، بی بی کی وصیت کے خالق کا دو ٹوک اعلان، ساتھ نہےں دیں گے۔ ڈائیلاگ ہم تو کوئی رابطہ ہی نہیں رکھنا چاہتے۔ ایک قومی رائے ہے سب ٹوپی ڈرامہ، کچھ کے نزدیک مال بڑھانے کے حیلے۔ اصل معاہدہ برقرار ہے۔ پیاز کی پرتوں تلے محفوظ۔ اب بھی ، ماضی کی روایات، طریقہ کار سے انحراف نہیں کیا جائے گا۔ بظاہر چیزیں وہ نہیں ہوتیں جو نظر آ رہی ہوتی ہیں۔ اہمیت ”اصل کردار“ کو حاصل ہوتی ہے جو پردہ سکرین کی اوٹ میں بیٹھا کرداروں کے مقام کا تعین کر رہا ہوتا ہے۔
یہ ہماری تاریخ کا المیہ ہے کہ ”سیاسی وادی“ کے دکھائی دیتے منظر کے یکسر متضاد رہی۔ اس لئے ”مفاداتی بینک“ کی مفاہمت کس پر کشش پیکج کی نوک پلک سنوار رہی ہے۔ کروڑوں، اربوں کی کرپشن کرنے والے اگر پکڑے جائیں تو جیلیں محلات بنا دیئے جاتے ہیں ان کے لئے۔ گھر پر اتنی سہولتیں، آرام میسر نہیں ہوتے یہاں ہمہ وقت دستیاب ہوتے ہیں۔”اعلیٰ عدلیہ“ نے کہا کہ ”سزا کے بغیر نظام ٹھیک نہیں ہوگا۔ سچ میں بڑی طاقت ہے۔ سچ یہی ہے کہ سچ میں بڑی طاقت ہے۔ پریہ بھی المیہ ہے کہ عموماً سچی بات پر لوگ یقین نہیں کرتے اور بات ہو ملکیت کی تو ڈھیری لگا دیتے ہیں۔ فلاں فیصلہ کی یہ اصل کہانی ہے۔ فلاں کی وہ۔ ہمارا مو¿قف ہے کہ ”صدر ممنون“ کے الفاظ نصیحت پر عمل کیا جائے۔ محاذ آرائی اداروں میں درست ہے نہ شخصیات میں۔ محاذ آرائی اور کھینچا تانی کی وجہ سے پورا ملک ”بکرا منڈی“ کا منظر پیش کر رہا ہے۔ ہر شخص اپنی اپنی بولی بول رہا ہے۔ خود کو پیش کر رہا ہے۔ تبھی افراتفری کا عالم ہے۔ ”بکرا منڈی“ سے یاد آیا کہ منڈی میں موجود جانوروں کی قیمتیں سن کر لوگ بھاگ اٹھے۔ کیا ہی اچھا ہو کہ خادم اعلیٰ پنجاب ایک عدد سستی منڈی بنا ڈالیں۔

ای پیپر دی نیشن