وطن عزیز کو قائم ہوئے 70سال ہو چکے ہیں۔ اس مرتبہ جشن آزادی منانے کے حوالے سے خصوصی اہتمام کیا گیا حالانکہ ملک میںسیاسی تناﺅ اور ہنگامہ خیزی عروج پر تھی اس کے باوجود جشن آزادی کے پروگرام میں ہر سطح پر بڑا جوش و جذبہ دیکھا گیا۔ افواج پاکستان کی جانب سے واہگہ بارڈر پر ایشیاءکا سب سے بڑا اور بلند ترین سبز ہلالی پرچم لہرایا گیا جو کہ بھارت میں دور تک دیکھا جا سکتا ہے۔ اس طرح کراچی میں دس ہزار طلبہ نے مل کر قومی ترانہ پڑھ کر ورلڈ گینزبک میں ریکارڈ درج کرایا۔ گریٹر اقبال پارک لاہور اور بحریہ ٹاﺅن کراچی میں آتش بازی کا انوکھا اہتمام تھا۔ عید آزادی کی سب سے بڑی تقریب جناح کنونشن سنٹر اسلام آباد میں منعقد ہوئی ۔جہاں پارلیما ن اور وفاقی کابینہ کے ارکان، تینوں مسلح افواج کے سربراہان، چیئر مین سینٹ، سپیکر قومی اسمبلی غیر ملکی سفارت کار، وزیر اعظم اور صدر مملکت نے شرکت کی۔ خاص بات یہ ہے کہ صدر پاکستان نے قومی زبان میں خطاب کیا۔ اکثر اراکین قومی لباس میں ملبوس دکھائی دیئے۔ ایک اور اہم تقریب اسلام آباد میں پاک فضائیہ کی طرف سے تھی جس میں جدید ترین جنگی طیاروں اور ہیلی کاپٹروں کے ذریعے دلفریب کرتب اور عسکری صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا گیا۔ پاک فضائیہ کے ہمراہ سعودی اور ترک فضائیہ کے طیاروں اور جوانوں نے بھی حصہ لیا۔ اس دن ملک بھر میں سبز جھنڈیوں کی بہار او رملی جذبوں کی انہار بہتی دکھائی دے رہی تھیں۔
جشن آزادی کی ایک تقریب قومی زبان تحریک کے غیور کارکنان نے بھی برپا کر رکھی تھی۔ جس میں ملک کے ممتاز دانشور، سیاسی کارکن اور مذہبی شخصیات نے اظہار خیال کیا۔ قرآن سنٹر ماڈل ٹاﺅن کے بالائی ہال میں نہایت سادہ مگر قومی ولولوں سے سرشارو باوقار پروگرام ہوا۔ حافظ مزمل نے قرآن پاک کی تلاوت سے آغاز کیا۔ نعت رسول مقبول ﷺ محمد حسنین نے پڑھی۔ بزرگ بیوروکریٹ مرتضی برلاس نے تحریک پاکستان کے احوال و مناظر کا زکر کرتے ہوئے بتایا کہ تحریک پاکستان میں ایسی نظریاتی تربیت ہوئی کہ 45سالہ سول سروس میں ایک بار بھی انگریزی میں دستخط کرنے کی غلطی نہیں ہوئی۔ کمشنر اور ڈپٹی کمشنر کے اعلیٰ عہدوں پر فائز رہنے کے باوجود میرے بچے سرکاری ٹاٹ سکولوں میں عام بچوں کی طرح تعلیم حاصل کرتے رہے جو آج اعلیٰ تعلیم کے حامل ہیں۔ جناب برلاس نے بتایا کہ وہ آج بھی پانچ مرلے کے گھر میں بڑی خوشی سے رہائش پذیر ہیں مگر اکثر اردو کے شاعر، ادیبوں کی اولادیں انگلش میڈیم اداروں میں دکھائی دیں گی۔ یہی تضاد ہمارا قومی المیہ ہے۔ کرنل سلیم ملک (ر) نے بتایا کہ حضرت قائداعظم نے شدید علالت کے باوجود مشرقی پاکستان گئے۔ وہاں پہنچ کر واضح طور پر اعلان کیا کہ اگر پانچوں صوبوں کو مل کر ایک قوم کی صورت چلنا ہے تو قومی زبان ایک ہوگی جو اردو، اردو اور صرف اردو ہے۔ کرنل صاحب نے کہا کہ آج میں بھی قومی زبان تحریک میں شامل ہوگیا ہوں۔ جسٹس ناصرہ جاوید اقبال نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ وطن عزیز کو صحیح طور پر ترقی کی شاہراہ پر گامزن کرنا ہے تو ہمیں جہاد کے انداز میں کام کرنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے میں یہ درج ہے کہ حکومت سمیت تمام ادارے تین ماہ کے اندر قومی زبان کے نفاذ کو یقینی بنائےں۔ ہم سب کو چاہئے کہ اپنے اپنے دائرے کار میں نفاز اردو کے لئے انفرادی اور اجتماعی طور پر کوششیں جاری رکھیں۔ اس میں سستی کا مظاہرہ نہیں ہونا چاہیے۔ ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارا۔ حمیدنظامی انسٹی ٹیوٹ کے ڈائرکٹر ابصار عبدالعلی نے تقریب سے خطاب کے دوران کہا کہ قومی زبان کے نفاذ کے لئے سب کو مل کر کام کرنا ہوگا۔ اس سلسلے میں پیش آنے والی رکاوٹوں سے بھی نمٹنا ہوگا۔ انہوں نے بتایا کہ زندگی بھر سرکاری نوکری کے دوران اردو ہی کو اپنایا۔ تقریبا دو سو کے قریب مراسلے اردو میں تحریر کئے۔ اکثر اوقات افسران اور فقاءکار اعتراض کرتے مگر میں نے قومی زبان میں کام کرنے کا عزم کر رکھا تھا۔ ابصار عبدالعلی نے اجلاس کے شرکاءسے کہا کہ اپنے ملاقاتی کارڈ گھر و دفتر پر آویزاں تختی اور شادی غمی کے پیغامات قومی زبان میں تحریر کرنے کا عہد کریں۔ آپ اردو کو اپنی ذات پر نافذ کرنے سے کیوں ہچکچاتے ہیں؟۔ جو ایسا کرتے ہیں وہ انگریزی کے فکری غلام ہیں۔ سابقہ ایڈیٹر جنرل جناب جمیل بھٹی نے کہا کہ ہمیں نفاذ اردو کے لئے سرکاری ملازمین سے ٹکراﺅ کی بجائے تعاون کا راستہ اختیار کرنا ہوگا۔ امیر تنظیم اسلامی حافظ عاکف سعید نے کہا کہ اردو زبان کا تحریک پاکستان سے گہرا تعلق ہے ۔ حضرت علامہ اقبال ، الطاف حسین حالی کی اردو میں تحریروں نے تحریک پاکستان کے لئے مہمیز کا کام کیا ہے۔ منزل مقصود کی خاطر ہمیں قومی زبان کو ہر سطح پر نافذ کرنا ہوگا۔ قمری کیلنڈر کے حساب سے 27رمضان کو قیام پاکستان کے بہتر سال ہو چکے۔ ہمارا جرم یہ ہے کہ ہم نے قومی زبان اور اسلامی کیلنڈر سے ناطہ توڑ لیا۔ رہنما جماعت اسلامی جناب فرید پراچہ نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے پاکستان کی صورت میں ایسا ملک عطاکیا ہے جہاں چار موسم، وسیع سمندری ساحل ، منجمد گلیشیرز، صحراءاور میدانوں کے علاوہ جفاکش لوگ، محنتی کسان اور قربانی دینے والی قوم عطا فرمائی مگر افسوس قیادت بدعنوان ہے جس کے باعث نفاذ اردو کے متعلق آئینی مدت کو گزرے کئی عشرے گزر چکے ہیں۔ حکمران سپریم کورٹ کے حکم کی بھی پرواہ نہیں کرتے۔ بدنصیبی یہ ہے کہ ہم قومی زبان اور نفاز اسلام سے دور ہوتے جا رہے ہیں۔ ہمیں قومی زبان کے نفاذ کے لئے جدوجہد کرنی ہوگی۔ تحریک انصاف کی ایم پی اے سعدیہ سہیل نے کہا کہ ہمارے تعلیمی اداروں میں نسل نو کو قومی زبان سے روشناس کرانے کی کوشش ہی نہیں کی گئی جس کے نتیجے میں بچے اردو سمجھ سکتے ہیں نہ انگریزی میں مہارت رکھتے ہیں۔ آدھا تیتر آدھا بٹیر والا معاملہ ہو چکا ہے۔ قومی زبان تحریک کی روح رواں فاطمہ قمر نے کہا کہ آزاد کشمیر سمیت پاکستان کے چاروں صوبوں میں قومی زبان تحریک کا پیغام پہنچ چکا ہے۔ لوگ جوق در جوق تحریک میں شامل ہو رہے ہیں۔ یہ دنیا کی واحد تحریک ہے جو اپنے حکمرانوں سے اپنی زبان کے نفاذ کا مطالبہ کررہی ہے۔ معظم احمد نے اجلاس میں مختلف قراردادیں پیش کیں۔ علاوہ ازیں اقبال ٹکٹس کے میاں ساجد علی، پاک آسٹریلیا فورم کے صدر ارشد نسیم بٹ، منشاءقاضی اور غلام اعباس صدیقی نے بھی اظہار خیال کیاجبکہ ظفر علی راجا نے (قائد تیرے بیٹے )نظم پیش کی۔ نظامت کے فرائض پروفیسر سلیم ہاشمی نے انجام دیئے۔ راقم الحروف نے تحریک کے صدر ہونے کی حیثیت سے آخر میں تمام مہمانوں اور شرکاءکی آمد کا شکریہ اد اکرتے ہوئے 8ستمبر کو یوم قومی زبان الحمراءہال میں منانے کی دعوت دی۔ قرآن سنٹر کے مالکان، فاروق برادارن، خصوصا جناب یوسف فاروق اور انتظامیہ کا شکریہ ادا کیا۔ منتظمین اجلاس یونس عزیز، حامد انوار، سعید حسن، معظم احمد اور محمد سلیم کی کوششوں کے بغیر اتنا پرہجوم اور کامیاب پروگرام ممکن نہ تھا۔ آخر میں جشن آزادی کا کیک کاٹا گیا۔