کپتان کے خواب اور پہلا خطاب

آو¿ سنتے ہیں نئے حاکمِ شہر کا خطاب’ کہتے ہیں وہ بات کرتا ہے تو لگتا ہے میں بولتا ہوں تو بولتا ہے یہ ہیں عابد نور بھٹی صبح سویرے مخاطب تھے نئے پاکستان میں جناب عمران خان کی گذشتہ شب والی تقریر پر نیم شعری تبصرہ کرکے آسودہ ہو رہے تھے ہم نے 80 کی دہائی کے آخر میں ان گنت بے ایماں راتیں نوائے وقت لاہور کے نیوز روم میں جاگتے سوتے خواب دیکھتے بسر کی تھیں ہم تو وزرائے اعظم کی ایسی تقریروں کے عادی تھے جن میں چند شہدا کا ذکر ہو یا پھر ترقی کے نام پرموٹر وے‘ چند ایک سڑکیں، یا میٹرو کا اعلان کرکے بھلا دیا کرتے تھے۔
پہلی مرتبہ ہوا کہ ہمیں پتہ چلا کہ اس قوم کے 45 فیصد بچے غذائی قلت کی وجہ سے دماغی اور جسمانی نشوونما کی کمی کا شکار ہیں، انہیں غذا فراہم کرنا ہوگی۔ پہلی مرتبہ مغرب کو پتہ چلا کہ جس فلاحی ریاست کا نظام انکے پاس ہے وہ ہمارے نبی اور خلفائے راشدین کا 1400سال پہلے سے قائم کردہ ہے۔ یہی اسکی ریاست مدینہ کا تصور ہے۔ بیواو¿ں، بچوں، خواتین، نوجوانوں کے مسائل سے لے کر ٹورازم، تعلیم، صحت اور کرپشن جیسے مسائل کا اس طرح سے ادراک آج تک نہ کیا جاسکا۔ وزیر اعظم عمران خان کی غیر روایتی اور شاندار فی البدیہہ تقریر کے چیدہ چیدہ نکات کچھ یوں ہیں۔ سیاست میرے لئے پیشہ نہیں خدمت کا ذریعہ ہوگی۔ میراسیاست میں آنےکامقصد ایک فلاحی ریاست کا قیام تھاآج کی تاریخ میں ملکی قرضہ 28ہزار ارب روپے ہے، 7سال پہلے یہ قرضہ 6ہزار ارب تھا، ہم اس قرضے کے بارے میں بتائیں گے کہ یہ پیسہ کہاں گیا، آج قرضے اتارنے کےلئے نہیں بلکہ سود ادا کرنے کےلئے قرضہ لینا پڑ رہا ہے، گزشتہ ایک سال سے ہمیں ہر مہینے 2ارب ڈالرقرضہ لینا پڑرہا ہے، ہم دنیا کے ان پانچ ملکوں میں شامل ہیں جہاں گندا پانی پینے سے بچوں کی اموات ہوتی ہیں، ہم ان 5 ممالک میں سے ہیں جہاں خوراک نہ ملنے پر عورتوں کی صحت متاثر ہوتی ہے، کم غذائیت کے باعث بچے صحتمند بچے کا مقابلہ نہیں کر سکتا، اپنے بچوں پر خرچ کرنے کیلئے ملک میں پیسہ نہیں، وزیراعظم پاکستان کے524 ملازم ہیں، وزیر اعظم کی80 گاڑیاں اور33 بلٹ پروف گاڑیاں ہیں، وزیر اعظم ہاو¿س 1100 کینال پر ہے، وزیر اعظم ہاو¿س کے سالانہ اخراجات کروڑوں روپے کے ہیں، یک طرف قوم مقروض ہے دوسری طرف صاحب اقتدار کا طرز زندگی انگریز دور جیسا ہے، سابق سپیکرقومی اسمبلی نے8کروڑروپے بیرون ملک دوروں پرخرچ کئے، سابق وزیر اعظم نواز شریف کے دوروں پر65 کروڑ روپے خرچ کئے گئے، سوا 2 کروڑ بچے سکولوں سے باہر ہیں، قانون سے بالاترکوئی نہیں ہوگا جب ہم اپنے بچوں کوتعلیم نہیں دینگے تو روزگارکیسے ملے گا، مدینہ کی ریاست کے اصول مغرب نے اپنا لئے ہیں، سب سے پہلے قانون کی بالادستی لانی ہے، مغرب میں ہر کام میرٹ کےمطابق ہوتا ہے، ملک کے سربراہ کیلئے صادق اور امین ہونا لازم ہے، خلفائے راشدین خود کو احتساب کیلئے عوام کے سامنے پیش کرتے تھے، مدینہ کی ریاست کے اصول مغرب نے اپنا لئے ہیں، حضرت ابوبکر خلیفہ بنے تو انہوں نے اپنی کپڑے کی دکان بند کردی تاکہ مفاد کا ٹکراو¿ نہ ہو، یہاں لوگ اقتدار میں آتے ہی پیسہ بنانے کیلئے ہیں، سپیکرقومی اسمبلی کا بجٹ16کروڑ روپے ہے، اقلیتی برادری بھی برابر کے شہری ہیں، آزادی کے بعد ہمارے حکمرانوں نے ویسے ہی رہناشروع کردیا جیسے انگریزرہ رہے تھے، اگر ملک اسی طرح چلتا رہا تو قوم ترقی نہیں کرےگی، برطانیہ کاوزیراعظم جھوٹ بولنے پرنکالاگیا، حاکم کا صادق اورامین ہونا لازمی ہے، اپنے گھر میں رہنا چاہتا تھا، صرف سکیورٹی کے باعث اپنے گھر میں نہیں رہ رہا، گورنر ہاو¿سز میں کوئی گورنر نہیں رہے گا، وزیراعظم کےلئے موجود گاڑیوں کی نیلامی کرینگے، تمام گورنر ہاو¿سز اور وزیر اعلیٰ ہاو¿سز میں سادگی اختیار کرینگے، وزیراعظم ہاو¿س میں ایک اعلیٰ درجے کی یونیورسٹی بنائینگے۔ عوام کواعتماد دیں گے کہ آپ کا ٹیکس آپ پر خرچ ہوگا،کبھی کسی پارٹی کو ووٹ نہ دیں جس کا سارا پیسہ اس ملک میں نہیں،وہ کیسا لیڈر ہے جو اپنی دولت باہر رکھتا ہے،سیاست پاکستان میں کرتا ہے۔
باہر پیسہ رکھنے والا سیاستدان باہر سے کنٹرول بھی ہوسکتا ہے،اوورسیز پاکستانی اپنا پیسہ پاکستان کے بینکوں میں رکھوائیں، ہمیں اس وقت ڈالر کی ضرورت ہے، کرپٹ عناصر پرہاتھ ڈالاجائےگااوریہ لوگ شورمچاناشروع کردیں گے، کرپشن کے خاتمے کیلئے پورا زور لگانا ہے،کوئی بھی ملک اتنی کرپشن برداشت نہیں کر سکتا، صاحب اقتدار کرپشن کرتا ہے تو ادارے تباہ ہوتے ہیں، ہرسال10ہزارارب روپے کی منی لانڈرنگ ہوتی ہے، عوام کے ٹیکس کی حفاظت خودکروں گا، بیرون ملک قید پاکستانیوں کی رہائی میں مدد کریں گے، کرپشن کی نشاندہی کرنیوالے کو بازیاب پیسے میں سے 20 سے 25 فیصد دینگے۔
ہر جگہ مافیا بیٹھے ہیں،ان پر ہاتھ ڈالے گا تو یہ شور مچائیں گے، پاکستان بچے گا یا کرپٹ لوگ بچیں گے، انصاف کا نظام بھی ٹھیک کرنا ہے،چیف جسٹس سے ملاقات کروں گا، ایسا نظام لائیں گے کہ کیسز ایک سال سے زیادہ نہ چلیں، کیڑے نکالنے والے نہایت ڈھٹائی اور بے شرمی سے اپنے کام میں مصروف کار ہیں۔ ایک سابق وزیر فرما رہے ہیں خارجہ پالیسی کا کوئی ذکر نہیں کشمیر کا نام تک نہیں لیا’ کل بھوشن کو بھلا دیا عافیہ صدیقی یاد نہ رہی اور نجانے کیا کیا’ پھر خود ہی جواب بھی دیتے ہیں کہ خارجہ پالیسی کون سی انہوں خود بنانی ہے وہ تو بنی بنائی آنی ہے وہ خارجہ پالیسی کی تشکیل میں پاک فوج کے کردار پر اپنی غلیظ انگلی اٹھا رہے تھے، پاکستان کی خارجہ پالیسی اب راولپنڈی اور اسلام آباد میں ہی تیار ہوگی۔ پیمرا کے ایک سابق چیئرمین فرماتے ہیں ”وزیر اعظم پاکستان کو پتہ ہے کہ ایک فیڈرل سیکرٹری اور جرنیل کتنی گاڑیوں کے قافلے میں چلتا ہے اور ا±نکے گھروں کا سائز کیا ہے؟ ان کاٹھے انگریزوں کا کچھ ہو گا؟ جونیجو سے سیکھو اور ان کو چھوٹی گاڑیوں اور چھوٹے گھروں میں بٹھاو¿و۔ پھر تبدیلی آئے گی۔ سرکاری گارڈز کے ساتھ ورنہ جاگنگ کریں۔“ موصوف میرے ساتھی ہم کار اور ذاتی دوست رہے ہیں اس لئے کبھی ان کا ذکر کرنا پسند نہ کیا لیکن اب ان کو جواب دینا ناگزیر ہو گیا ہے کہ انہیں چیئرمین لگانے کےلئے تمام قواعد و ضوابط کو تبدیل کیا گیا جس پر سپریم کورٹ نے انہیں نکالا اب یہ دوبارہ بلند اخلاقی کے اسباق پڑھانے نکلے ہیں مرحوم محمد خان جونیجو کا ذکرکر تے ہوئے بھول گئے کہ وہ نوازشریف تھے جنہوں نے اپنے شریف النفس اور دیانتدار وزیراعظم جونیجو کو چھوڑ کر آمر مطلق جنرل ضیا کا ساتھ دیا تھا آخر میں جناب وزیراعظم عمران خان کی یاد دہانی کےلئے کچھ یوں عرض ہے۔
ہم ایسا دیس چاہتے ہیں
’ ہم کیسا دیس چاہتے ہیں
میرے دیس میں جو بھی آتا ہے
نئے خواب دکھاتاہے
اور بے حساب دکھاتا ہے
کوئی روٹی کپڑا مکان دکھاتا ہے
کوئی تبدیلی تو کوئی انقلاب دکھاتا ہے
دودھ کی نہریں رہنے دو
تارے اور کہکشائیں رہنے دو
لندن اور پیرس کی صدائیں رہنے دو
انقلاب کی فضائیں رہنے دو
ہم ایسا دیس چاہتے ہیں جہاں
بھو کے کو اناج ملے
بیمار کو علاج ملے
مفلس کو روزگار ملے
یقین ملے اعتبار ملے
ہم ایسا دیس چاہتے ہیں جہاں
بلاتفریق انصاف ملے
کرپشن سے نجات ملے
تعلیم کا یکساں نظام ملے
کشکول سے برات ملے
ہم ایسادیس چاہتے ہیں جہاں
قاضی و حاکم آزاد ہو
بلا تفریق احتساب ہو
مہنگائی کا ستیاناس ہو
بدعنوانی کا حساب ہو
ہم ایسا دیس چاہتے ہیں جہاں
زینب جیسی کلیاں کھل سکیں
تھر کے بچے پیٹ بھر سکیں
قصور کے بچے سر اٹھا سکیں
سکولوں سے بچے واپس آ سکیں
ہم ایسا دیس چاہتے ہیں جہاں
نہ بارود کی بو رچی ہو
نہ خون کے چھینٹے بکھرے ہوں
نہ خود کش حملہ آور ہوں
نہ دہشت گردی کا عفریت ہو
ہم ایسا دیس چاہتے ہیں جہاں
نہ بجلی کا فقدان ہو
نہ گیس کا کوئی بحران ہو
نہ پانی سے کوئی پریشان ہو
ہر شہری کو اطمینان ہو
سنو تم دے سکو گے؟
ہم ایسادیس چاہتے ہیں....!!!!
اور صرف تم ہی ایسا دیس بنا سکتے ہو
ہمیں ایسا دیس دلا سکتے ہو
کیوں میرے کپتان ‘ کیوں میرے سلطان
کیوں میرے خان ‘ کیوں میرے عمران
یاد ہے جمائما کیا تمہیں یاد دلاتی ہے
کون سے قصے یاد دلاتی ہے
کیوں تم سیاست میں آئے تھے
یہ بھولے بسرے افسانے یاد دلاتی ہے

ای پیپر دی نیشن