اقتدارمیں تبدیلی آگئی ہے اور عمران خان وزیراعظم بن گئے ہیں۔ اب ان کا امتحان ہے کہ ملک میں تبدیلی لائیں ،قوم کو عمران خان سے بے پناہ توقعات ہیں امید رکھنی چاہیے کہ وہ مایوس نہیں کریں گے۔ باتیں تو سب حکمران ہی اچھی اچھی کرتے ہیں جب تک اچھا عمل سامنے نہیں آئے گا اور ان کی حکومت ان کے وعدوں کے مطابق صحت ، تعلیم کی سہولیات میں بہتری نہیں لائے گی ، نچلی سطح تک کرپشن ختم نہیں کرے گی بے روزگاری دور کرنے کےلئے اقدامات نہیں کرےگی ملک میں تبدیلی محسوس نہیں ہوگی۔ انہوں نے قوم کو 100دن کا ایجنڈا دیاتھا۔ ہم 200دن تک عمران خان کے اقدامات سے تبدیلی کے آثار کا انتظار کریں گے۔ ہماری یہ سوچی سمجھی رائے ہے کہ عمران خان نے اگر قوم کو مایوس کیا تو یہ نہ صرف پاکستان بلکہ پاکستانیوں کی بدقسمتی ہوگی۔
پنجاب میں بھی حکومت تبدیل ہوگئی ہے۔ یہاں تحصیل تونسہ شریف کے ایک قبیلے کے سردار کووزارت اعلیٰ حاصل ہوئی ہے۔ہو سکتا ہے کہ ان کاقبیلہ چھوٹا ہو لیکن سردار تو سردار ہوتا ہے۔ یہ کہنا کہ غریب آدمی وزیراعلیٰ پنجاب بن گیا ہے برخلاف حقیقت بات ہے۔ ہماری رائے میں جنوبی پنجاب کاصوبہ بناتو وہاں عام آدمی نہیں سردار اوروڈیرے ہی حکومت میں آئیںگے ۔پنجاب کی صوبائی کابینہ میں کتنے غریب شامل کئے جاتے ہیں یہ تو بس چند دن میں سامنے آ جائے گا۔
پنجاب کے وزیراعلیٰ کے لئے انتخاب کے موقع پر دونوں اطراف کے ارکان کی جتنی بڑی تعداد ایوان میں موجود تھی اور ان کی ایک دوسرے کے خلاف مخالفانہ نعرے بازی کے مقابلے میں ایک حقیقت واضح ہوگئی کہ حکمران جماعت کے لوگوں کے برعکس اپوزیشن والوں کے نعروں میں ہمیشہ ہی زیادہ جان ہوتی ہے۔ سو کل کے اجلاس کے بعد پنجاب اسمبلی کی حدود میں دانشوران صحافت کے درمیان فاروڈ بلاک کی اہمیت پر بحث جاری تھی۔ مسلم لیگ ن میں فاروڈ بلاک بن جائے توہمیں اس پر کوئی حیرت نہیں ہوگی۔ بس ایک دوپی ٹی آئی کے چہرے اقتدار کی بھول بھلیوں میں بٹھانے پڑیں گے۔جو مسلم لیگ ن کے ارکان اسمبلی کو حکمران جماعت کے ارکان اسمبلی ہی کی طرح ترقیاتی فنڈز دلوائیں گے اور ان کے دیگر کام وزیراعلیٰ پنجاب سے کروا کر دیں گے۔ ماضی قریب میں اس قسم کا فریضہ سردار ذوالفقار علی خان کھوسہ اور خواجہ احمد حسان نے سرانجام دیا تھا صرف چہروں کی تبدیلی ہوگی ملک میں تبدیلی کے خواہاں ہمارے نزدیک چاہے کچھ بھی کرلیں اس وقت تک تبدیلی نہیں آئے گی جب تک کتے کو کنویں سے نہیں نکالاجائے گا۔ قائداعظم کے فرمان کے مطابق اداروں کو ان کے کام پر لگا دیا جائے اور اسمبلیوں کے ارکان کے لئے ترقیاتی فنڈز ختم کردیں تو پاکستان کی سیاست کا کینسر ختم ہو جائے گا۔
1997کے بعد ملک کے دو سینئر سیاستدان چوہدری پرویزالٰہی اور خواجہ سعد رفیق ایک مرتبہ پھر پنجاب اسمبلی میں پہنچے ہیں چوہدری پرویز الٰہی کو پی ٹی آئی نے سپیکر پنجاب اسمبلی منتخب کروا لیا ہے انہوں نے 201ووٹ حاصل کئے جبکہ ان کی مسلم لیگ ق کے 10اور پی ٹی آئی کے 175سمیت راہ حق پارٹی کا ایک ووٹ 186بنتے تھے ۔ انہوں نے دو آزاد ارکان اسمبلی سمیت مسلم لیگ کے بھی 12ووٹ حاصل کرلیے ، یہ پرانی دوستی اور تعلق کی بنیاد پر ہوا یا کوئی کرشمہ ہے اللہ بہتر جانتا ہے یا مسلم لیگ ن کی قیادت جانتی ہوگی مسلم لیگ ن وہ جماعت ہے جس کا پنجاب کے صوبائی دارالحکومت لاہور میں مرکزی دفتر ہے لاہور آفس بھی ہے لیکن پنجاب آفس کی کہانی ختم ہو چکی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ مسلم لیگ ن کی قیادت نے فی الحال پنجاب آفس کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی ہے۔
ذکر تھا 1997کے بعد اب 2018میں پنجاب اسمبلی میں آنے والے ارکان چوہدری پرویز الٰہی اور خواجہ سعد رفیق کا لیکن بات دوسری طرف نکل گئی۔ وزیراعلیٰ کے انتخاب کے روز سپیکر چوہدری پرویز الٰہی اور خواجہ سعد رفیق کا نمایاں کرداردکھائی دیا۔ مسلم لیگ ن نے جب احتجاج شروع کیا توسپیکر چوہدری پرویز الٰہی نے اس کو رکوانے کی کوشش نہیں کی بلکہ ہارنے والوں کو ماتم کرنے کا پورا پورا موقع دیا اور جب کافی ہوگئی تو انہوں نے احتجاج ختم کرنے کی بات کی ۔ جسے خواجہ سعد رفیق نے آنر کیا اور اپنی نشست سے جا کر اپنے احتجاج کرنے والے ساتھیوں کو سپیکر ڈائس کے سامنے سے واپس نشستوں پر لے آئے ۔ خواجہ سعد رفیق این اے 131کے ضمنی الیکشن میں جانے والے ہیں اور جیت کی صورت میں انہیں قومی اسمبلی چلے جانا ہوگا بصورت دیگر وہ پنجاب اسمبلی ہی میں رہیں گے اور مسلم لیگ ن کے بیشتر مرد و خواتین ارکان اسمبلی ان سے پارلیمانی سیاست کے اسرار و دموز سیکھ سکیں گے۔پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر بننے والے میاں حمزہ شہباز کا رویہ بھی خاصا جمہوری ہے اور توقع ہے کہ قومی اسمبلی کے رکن کی حیثیت سے ان کا دس سالہ تجربہ یہاں اپنے جوہر دکھائے گا تاہم ان کے لئے ضروری ہوگا کہ وہ سکیورٹی بڑ کو توڑ دیں شہزادہ بن کر سیاست کرنے کی بجائے عوامی سیاست اپنائیں تو وہ مستقبل میں ایک اچھے لیڈر ثابت ہوں گے، مریم نوازشریف کو زیادہ دیر تک جیل میں قید نہیں رکھا جاسکتا۔
کمزور بنیادوں پر ان کو دی گئی سزاﺅں پرانہیں کسی بھی وقت ریلیف مل سکتی ہے ۔ مریم نواز شریف سکہ بند عوامی لیڈر بن چکی ہیں ۔ ان کے باہر آتے ہی مسلم لیگ کی سیاست عوام کو اپنی طرف کھینچے گی۔ میاں حمزہ شہباز بھی عوامی سیاست کر رہے ہوں گے تو یہ دونوں بہن بھائی قومی اسمبلی میں قائدحزب اختلاف شہبازشریف کے دست و بازو بن جائیں گے جبکہ پوری جماعت ان کے ساتھ تب ہی جدوجہد کرے گی جب وہ پارٹی کو ازسر نو منظم کرلیں گے میاں شہباز شریف قومی اسمبلی کی پبلک اکاﺅنٹس کمیٹی کے چیئرمین بھی بن جائیں گے اور اس پلیٹ فارم سے بھی اہم کردار ادا کریں گے ۔ پارلیمنٹ میں مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کے درمیان کبھی معاونت اور کبھی دوری کا سلسلہ اگلے عام انتخابات تک جاری رہنا ہے سو اس بارے میں کچھ مزید بات کرنے کی گنجائش نہیں ہے۔