پنجاب کی وزارت عُلیا !

جیو پالیٹکس کی تھیوری گو جرمنی نے ڈویلپ کی اور سابقہ عالمی جنگوں میں ابتدائی طور پر فائدہ بھی اٹھایا لیکن اب GEO POLITICAL DETERMINISM کی حقیقت تمام دنیا پر آشکار ہو چکی ہے۔ سادہ الفاظ میں اس کے معانی یہ ہیں کہ کسی بھی خطے یا ملک کا جغرافیہ اس کی سیاست پر اثرانداز ہوتا ہے۔ پاکستان کی جیو پالیٹکس یہ ہے کہ جس کے پاس پنجاب کی حکومت ہو گی وہ ہی مرکز میں موثر سیاست کر سکتا ہے اور سہولت کے ساتھ حکومت چلا سکتا ہے۔ اس کی دو وجوہ ہیں۔ ایک تو پنجاب بہت بڑا صوبہ ہے۔ اسکی آبادی ملک کی کل آبادی کے نصف سے بھی زیادہ ہے۔ گویا سیاست کے ترازو میں ایک طرف پنجاب کو رکھیں اور دوسری طرف بقیہ تین صوبے تو پھر بھی پنجاب کا پلڑا بھاری نظر آتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پنجاب کو دو حصوں میں تقسیم کرنے کا مطالبہ زور پکڑ رہا ہے۔ ا گر جنوبی حصہ تحریک انصاف کا ساتھ نہ دیتا تو آج عمران خان کے لئے حکومت سازی مشکل ہو جاتی۔
ذوالفقار علی بھٹو کو اس امرکا بخوبی احساس تھا۔ گو پنجاب میں بھی پیپلز پارٹی کی حکومت تھی مگر پھر بھی وہ وزرا اعلیٰ کو تاش کے پتوں کی طرح پھینٹتا رہتا۔ اتنے بڑے صوبے کا وزیر اعلیٰ اختلاف کی صورت میں مرکز کے لئے کئی مشکلات کھڑی کر سکتا تھا۔ ابتدا میں غلام مصطفی کھر کو پنجاب کی کمان سونپی گئی۔ لیکن جلد ہی بھٹو کو احساس ہو گیا کہ کھر کا سبو ٹوٹ کر اسے سرمست کر رہا ہے۔ اور اس نے ”خرمستیاں“ شروع کر دی ہیں۔ لہٰذا شیر پنجاب کو پنجرے میں بند کرنا ضروری ہو گیا ۔ اس کی جگہ حنیف رامے جیسے بے ضرر شخص کو وزیر اعلیٰ بنا دیا ۔
اقتدار کی اپنی منطق ہوتی ہے۔ یہ بجلی کے بے جان کھمبے میں بھی جان ڈال دیتا ہے۔ اسکے فیوز شدہ بلب جل اٹھتے ہیں۔ گو کھر کا ”مکو ٹھپ“ دیا گیا لیکن کچھ عرصے بعد ہی پینٹر نے پر پرزے نکالنا شروع کر دیئے اور اس نے بھٹو کی آنکھوں میں آنکھ ڈال کر باتیں کرنا شروع کر دیں۔ ایک مرتبہ بھٹو نے رامے سے طنزاً پوچھا۔ سُنا ہے تم نے بطور سیکرٹری ایک ہنری کسنجر رکھا ہوا ہے؟ ان کا اشارہ شاہد حامد کی طرف تھا۔ اس پر وہ ترت بولا۔ آپکے پاس بھی تو ایک ہنری کسنجر (رفیع رضا) ہے۔ اس قدر بے باک لہجہ ! بھٹو سمجھ گیا کہ نئے اقتدار نے پینٹر کو بدمست کر دیا ہے لہٰذا اسے کینوس کی طرف دھکیلنا ضروری ہو گیا۔ نواب صادق قریشی بے ضرر سیاست دان تھا۔ پہلی ملاقات پر ہی بھٹو صاحب نے اسکے غبارے سے ہوا نکال دی۔ بولے۔ ”قریشی! تم ہر شام جاوید اکرم ٹاپسی (C.S.P) کے ساتھ ہوٹل انٹرنیشنل میں شراب پیتے ہو اب یہ سلسلہ بند کر دو۔ نوکر شاہی کے یہ کل پرزے بڑے کایاں ہوتے ہیں اور کسی وقت بھی بلیک میل کر سکتے ہیں۔ اگر پینی ہی ہے تو اکیلے شغلِ شب کر لیا کرو! یہ بات مجھے نواب صاحب نے خود بتائی۔ میں اس وقت ملتان کا ڈپٹی کمشنر تھا (باتیں تو انہوں نے بے شمار بتائیں جن کا ذکر برملا میں نے اپنی زیر طبع کتاب ”شاہ داستان“ میں کر دیا ہے۔
میاں نواز شریف بریگیڈئر (ر) قیوم کی دریافت تھے۔ قیوم صاحب بڑے زیرک انسان تھے۔ وہ پتھروں کو تراش کر ہیرے نہیں بناتے تھے بلکہ براہ راست ہیروں پر ہاتھ ڈال دیتے تھے۔ اتفاق فونڈری سے ایسا ہی ”گوہر نایاب“ تلاش کرنے میں انہیں چنداں مشکل پیش نہ آئی۔ اسے طشتری میں رکھ کر اپنے دوست جنرل جیلانی کو پیش کر دیا۔ گورنر پنجاب کے ساتھ ان کا خانہ واحد تھا۔ پہلے انہیں بطور ٹرینی وزیر خزانہ رکھا گیا۔ ٹریننگ مکمل ہونے پر وزیراعلیٰ پنجاب بنا دیا گیا۔ جیلانی پہلے I.S.I کا سربراہ رہ چکا تھا اور ا سے بخوبی علم تھا کہ کونسا کام کس طرح کرنا ہے۔ ضیاءالحق کومطمئن کرنے کیلئے اسی نے اتفاق رائے کا ڈرامہ رچایا۔ ہر ضلع کے ممبران صوبائی اسمبلی کو بلا کر پوچھتا کہ انہیں کونسا شخص بطور وزیراعلیٰ منظور ہے۔ اس کا تکیہ کلام تھا مزاج شریف ! سادہ لوح ممبر باہر آ کر بتاتے کہ وہ بار بار نواز شریف نواز شریف پکارتا ہے۔ ضلع اٹک کے ممبران کچھ زیادہ ہی کائیاں نکلے۔ انہوں نے جنرل کا ذہن پہلے سے ہی پڑھ لیا تھا۔ اسکے استفسار پر ملک سلیم اقبال بولا۔ وزیر اعلیٰ نوجوان ہو، خوبصورت ہو پڑھا لکھا ہو اور ، اور ....”بلی آنکھوں والا ہو“ جنرل صاحب نے مسکرا کر جملہ مکمل کر دیا۔
اقتدار میں آ کر میاں صاحب نے ہلکی پھلکی انگڑائی ہی لی تھی کہ فوجی آمر ناراض ہو گیا۔ ایک دن خبر آ گئی کہ چودھری پرویز الٰہی، ملک اللہ یار کھنڈا ، مخدوم الطاف، رفیق حیدر لغاری ، جسے پیرپگارہ کی اشیرباد حاصل تھی نے بغاوت کر دی ہے۔ میاں صاحب کو دن میں تارے نظر آنے لگے اورانہیں محسوس ہوا کہ تاریکی کےلئے ضروری نہیں کہ سورج کے ڈوبنے کا انتظار کرے۔ وہ تو بھلا ہو ڈاکٹر بشارت (ضیاءالحق کے برادر نسبتی) اور اسلم خان یوگنڈا والے، جنہوں نے ضیاءالحق کا غصہ ٹھنڈا کیا اور میاں صاحب کو معافی دلوائی۔ ضیاءالحق نے لاہور ائیر پورٹ پر بیان دیا۔ نواز شریف کا کِلہ مضبوط ہے۔ اللہ کرے میری عمر بھی اس کو لگ جائے۔جنرل صاحب نیک انسان تھے اور وہ غالباً قبولیت کی گھڑی تھی لہٰذا اپنی بقیہ عمر میاں صاحب کے حوالے کر کے ایک ہوائی حادثے میں راہی ملک عدم ہو گئے۔ اب اس ناگہانی موت نے ایک مرتبہ پھر میاں صاحب کے سیاسی مستقبل پر سوالیہ نشان اُٹھا دئیے۔ جنرل جیلانی سے کسی نے پوچھا۔ نواز شریف کا کیا بنے گا؟ تو وہ مسکرا کر بولے ”بشیرا ان ٹربل“ اسے میاں صاحب کی خوش قسمتی ہی کہا جا سکتا ہے کہ اگلے الیکشن میں وہ ایک دفعہ پھر وزیراعلیٰ پنجاب بن گئے۔ دراصل ہوا یوں کہ بےنظیر مرکز میں وزیراعظم بن گئیں۔ ہمہ مقتدر طاقتیں، توازن رکھنا چاہتی تھیں لہٰذا پنجاب میں مسلم لیگ کی حکومت بنانا ناگزیر ہو گیا۔ چھانگا مانگا آپریشن کو اسی تناظر میں دیکھا جا سکتا ہے۔ یوں میاں نواز شریف وزیراعلیٰ پنجاب بن گئے۔ میاں صاحب نے محترمہ کو زچ کر دیا۔ ہر قدم پر اس کی راہ میں روڑے اٹکاتے۔ بے نظیر کو Rule and Reign کا فرق معلوم ہو گیا۔ وہ چیف سیکرٹری لگاتیں تومیاںصاحب اسے باغِ جناح کا سپرنٹنڈنٹ گارڈن لگانے کی دھمکی دیتے۔ IGP بھیجتی تو یہ اسے سواں کا پُل کراس نہ کرنے دیتے۔ ایک عجیب قسم کی رسہ کشی شروع ہو گئی۔ چونکہ مرکزی بیورو کریسی کی وفاداریاں بٹ گئی تھیں، لہٰذا میاں صاحب نے صوبائی سروس کے افسران کودھڑا دھڑ ترقی دیکر اہم پوسٹوں پر تعینات کرنا شروع کر دیا۔ بےنظیر کے ہٹائے جانے تک یہ سلسلہ جاری رہا۔ بطور وزیراعظم میاں صاحب ہمہ مقتدر طاقتوں سے سینگ پھنسا بیٹھے۔ صدر غلام اسحٰق خان کو آئین کی دفعہ 58.2.B استعمال کرنے میں چنداں دشواری پیش نہ آئی۔ انکے ایوان اقتدار سے نکلتے ہی غلام حیدر وائیں وزیراعلیٰ پنجاب کا بھی دھڑن تختہ ہو گیا۔ منظور وٹو اسپیکر صوبائی اسمبلی وزیر اعلیٰ پنجاب بن گئے۔ راتوں رات ممبران اسمبلی اس کے اردگرد شہد کی مکھیوں کی طرح بھنبھنانے لگے ....
گو سپریم کورٹ نے میاں صاحب کو بحال کر دیا لیکن وہ کاروبار حکومت چلا نہ سکے وٹو نے بھی ان پر وہی ہتھکنڈے آزمائے جن کے وہ بےنظیر کے زمانے میں مرتکب ہوئے تھے۔ انہوں نے پرویز مسعود کو چیف سیکرٹری اور اقبال چیمہ کو بطور IGP بھیجا تو وٹو نے انہیں قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ اسی پر اکتفا نہ کیا بلکہ انکی گرفتاری کے احکامات جاری کر دئیے۔ پرویز مسعود نے رات چیف جسٹس میاں محبوب کی انیکسی میں گزاری اور صبح ضمانت قبل از گرفتاری کروائی۔ وٹو کے تعینات کردہ I.G اصغر ملک نے ایک ”آرڈر آف دی ڈے“ جاری کیا۔ ”کوئی اقبال چیمہ نامی شخص اپنے آپ کو I.G پنجاب کہتا ہے۔ سب پولیس افسران اور اہلکاروں کو ہدایت کی جاتی ہے کہ اس کی کسی بات پر کان نہ دھریں۔“
میاں شہباز شریف دو مرتبہ وزیراعلیٰ رہے۔ پہلی مرتبہ مرکز میں پیپلز پارٹی کی حکومت تھی۔ انہوںنے عملاً صدر زرداری اوروزیراعظم گیلانی کا پنجاب میں داخلہ بند کر دیا۔ ائیر پورٹ پر کوئی وزیر انہیںملنے نہ جاتا۔ کسی میٹنگ میں یہ شریک نہ ہوتے۔ اکثر قوم کو صدر زرداری کا پیٹ پھاڑ کر لوٹی ہوئی دولت برآمد کرنے کی بشارت دیتے۔ سرجیکل آپریشن سے پہلے گوالمنڈی کی گلیوں میں گھسیٹنے کا بھی عزم کرتے۔
جب میاں صاحب 2013ءمیں وزیراعظم بنے تو کام خوش اسلوبی سے چلتا رہا۔ اوپر بھائی ، نیچے بھائی بیچوں بیچ بہت کچھ تھا۔ کچھ یوں گمان ہوتا تھا کہ شہباز شریف صرف وزیراعلیٰ پنجاب نہیں بلکہ وزارتِ خارجہ و داخلہ کا قلمدان ان کے پاس ہے۔ ہر طرف راوی چین لکھتا تھا۔ میٹروبس ، اورنج ٹرین، انڈر گراﺅنڈ اور اوور ہیڈ پلوں کے جال....اگر کچھ اور عرصہ رہ جاتے تو راوی دھرم پورہ کے راستے سے ہو کر گزرتا،....مگر یہ ہو نہ سکا! خاندانوں کے عروج و زوال کے قصے تاریخ کا حصہ ہیں۔ اس تناظر میں پنجاب کی وزارت عُلیا اہمیت اختیار کر گئی۔ سادہ لوح خان کو بھی اس کا ادراک ہو گیا۔ گو عددی اعتبار سے (ن) لیگ نے زیادہ سیٹیں لی ہیں لیکن جہانگیر اینڈ کمپنی نے اس اکثریت کو اقلیت میں بدل دیا ہے۔
خان کی نظر بالآخر جنوبی پنجاب کے عثمان بزدار پر پڑی۔ وہ وزارت علیا کیلئے ناتجربہ کار ہیں۔ شاید مسلم لیگ (ن) بھی ایسا ہی وزیراعلیٰ چاہتی تھی جسے زچ کرنا آسان ہو مگر پرویزالٰہی اور گورنر چودھری سرور اسکی طاقت بنے رہیں گے۔ جب تک وہ خود مضبوط نہیںہو جاتے۔

ای پیپر دی نیشن