بھارت کی مہم جوئی اور عالمی طاقتوں کا فرض

Aug 21, 2019

ڈاکٹر اے آر خالد....

قوموں کی تاریخ میں اپنے موقف میں تبدیلی اگر تدریجاً نہ آئے تو اسے یا تو شدید ردعمل کا سامنا کرنا پڑتا ہے یا پھر کسی باشعور قوم کے افراد اسے یکدم مسترد کر دیتے ہیں ۔ چینلوں کی بھرمار اور ان پر اناڑی اور کم علم اینکرز اگر بے مہار بھی ہو جائیں تو معقولیت سے بات کرنے والوں کی کون سنے گا۔ سنسنی خیزی میں مقابلہ شروع ہو جائے۔ الزام تراشی اور بہتان بازی سکہ رائج الوقت ہو تو صحافت اور ابلاغ دونوں ہی اپنی اہمیت و افادیت کھو دیتے ہیں۔ مجھے یہ ساری تمہید امریکی صدر ٹرمپ کے اس موقف یا پیشکش پر باندھنا پڑی ہے جو انہوں نے عمران خاں کے ساتھ ملاقات کے دوران اختیار کیا اور کہا کہ کشمیر کے متنازع مسئلہ پر ثالث کا کردار ادا کرنے کو تیار ہیں ۔
اگرچہ انہوں نے بہت ہی غیر مبہم انداز میں یہ بھی بتا دیا کہ بھارت کے وزیر اعظم مودی نے بھی انہیں کشمیر کے مسئلہ پر ثالثی کی درخواست کی تھی۔ بھارت کے اس پر ردعمل اور واویلا کے باوجود مودی کو اپنے پرانے بیان سے مُکر جانے کا کوئی موقع میسر نہیں آ رہا۔ صدر ٹرمپ کو اگر مودی نے نہ کہا ہوتا تو انہیں یہ بات کہنے کی کیا ضرورت تھی۔ وہ اس بات کے بغیر بھی ثالثی کی پیشکش کر کے امن سے محبت اور خون خرابے سے بچنے اور انسانیت کو بچانے کا جو پیغام دینا چاہتے تھے وہ مؤثر انداز میں دیا جا سکتا تھا۔
میری نظر سے ایسی کوئی تحریر نہیں گزری جس نے صدر ٹرمپ کی اس بات کا حقیقت پسندانہ تجزیہ اس انداز سے کیا ہو کہ پہلی بار کسی امریکی حکمران کی طرف سے 24 سال پہلے کشمیر کے مسئلہ پر مشروط ثالثی کی بات سامنے آئی تھی۔ عالمی سیاست کے بدلتے انداز سے بے خبر اور امریکہ صدر کے موقف میں تبدیلی کے پس منظر سے بے بہرہ ’’دانشور‘‘ بھلا اس طرح کا تجزیہ کیوں کرینگے اور اپنے قارئین کو کیسے بتائیں گے کہ امریکہ نے مسئلہ کشمیر پر اپنے موقف میں معمولی سی پیش رفت کے لیے چوبیس سال انتظار کرایا ہے۔ بے نظیر بھٹو نے جب اپریل 1995ء میں ا یک بڑے جتھے کے ساتھ امریکہ کا طویل سرکاری دورہ کیا تھا تو انہوں نے خود یہ اعلان کر دیا تھا کہ ان کے دورہ سے زیاد ہ توقعات وابستہ نہ کی جائیں جبکہ جہاز پر سوار ہونے سے پہلے انہوں نے دوٹوک انداز میں کہہ دیا تھا کہ بعض لوگ سمجھ رہے ہیں کہ میرے دورہ امریکہ کے باعث پریسلر ترمیم ختم ہو جائیگی اور میں F-16 بھی لے آئوں گی۔ گویا وزیراعظم بے نظیر بھٹو کو اپنی حکومت کی اس ناکام خارجہ پالیسی کا اعلان کرنے میں کسی قسم کا حجاب نہ تھا حالانکہ پریسلر ترمیم کے ذریعے امریکہ کی طرف سے پاکستان کی ہر قسم کی دفاعی اور اقتصادی امداد بند کرنے کے بعد کسی پاکستانی وزیر اعظم کو اگر ان کلیدی مطالبات کو کرنے سے گریز اور ان کے نہ ماننے کے امریکہ کے اٹل موقف سے آگاہی کے بعد اس دورہ کی کیا ضرورت تھی تاہم دورہ کا اعلان کرنے کے بعد اس کو منسوخ کرنا تو درکنار ملتوی کرنا بھی کسی طور فائدہ مند نہیں تھا اور دورہ کرنا تو اس سے بھی زیادہ نقصان دہ تھا اور پاکستان نے ایک بڑے جتھہ کے ساتھ بے نظیر بھٹو کے اس دورہ کا نقصان برداشت کیا البتہ صدر کلنٹن نے وزیر اعظم پاکستان سے ملاقات میں کشمیر کا ذکر ایک نئے انداز سے کیا اور کہا کہ اگر بھارت اور پاکستان مجھ سے درخواست کریں کہ میں کشمیر کے متنازعہ مسئلہ پر ثالث کا کردار ادا کروں تو میں اس کے لیے تیار رہونگا تب میں نے انہی کالموں میں صدر کلنٹن کی اس شرط پر نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا تھا کہ شرط اتنی کڑی ہے جسے بھارت تو ہرگز نہیں مانے گا بلکہ پاکستان کا صدر کلنٹن کی پیشکش کو تبدیل کر کے اسے درخواست کرنے کا مطلب اقوام متحدہ کی قراردادوں کو نظرانداز کرنا ہے جو پاکستان کی بنیادی پالیسی سے متصادم ہے مگر اس کی نوبت ہی نہ آئی ۔ عالمی امور کی باریکیوں کو سمجھنے والے یہ جانتے ہیں کہ اس سطح پر ہوائی باتیں نہیں ہوتیں غیر سنجیدہ انداز سے کی جانے والی بات بھی سنجیدہ ہوتی ہے اور اس کو غیر سنجیدہ انداز سے کرنے کی پالیسی پر سنجیدگی سے عمل کیا جاتا ہے۔
صدر ٹرمپ کی یہ پیشکش صدر کلنٹن کی پیشکش کی توسیع ہی سمجھی جائیگی۔ میں سیاست میں مخالفت کے لیے اتنی پستی میں جانے کی قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر شہباز شریف سے بھی یہ توقع نہیں رکھتا تھا کہ وہ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں محض وزیر اعظم عمران خاں کو ہدف تنقید بنانے کے لیے صدر ٹرمپ کی اس بات میں کوئی سازش تلاش کرینگے یا اسے بھارت کی حکومت کی 370 کو منسوخ کر کے نئی مہم جوئی سے اسکے تانے بانے جوڑیں گے۔ سیاست میں جب سے غیر ذمہ داری ، جھوٹ، الزام تراشی اور تعصب نے گٹھ جوڑ کر لیا ہے انتہائی اہم قومی اور سنجیدہ موضوعات پر بھی قومی مفاد کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔
ن لیگ کے احسن اقبال سے تو اس قسم کی الزام تراشی کسی میڈیا ٹاک میں اس لیے متوقع تھی کہ ان پر فرسٹریشن اور اپنے ناکردہ گناہوں کا خوف ہے۔ اگر شہباز شریف کی تمام تر جذباتی اور غیر منطقی تقریروں کے باوجود قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف کا منصب اور اسی حوالے سے پارلیمنٹ میں ان کے خطاب میں جس جچی تلی، مدلل اور باوقار تقریر کی توقع تھی وہ اس پر پورا نہیں اترے یا شاید انہیں اس منصب سے جڑی ہوئی ماضی کی روایات کا پتہ ہی نہیں اگر وزیر اعظم ان کے نیازی ہونے کا اس انداز سے حوالہ دینے پر جس سے ان کی توہین مقصود ہو یہ کہہ کر کہ میرا نام عمران احمد خاں نیازی ہے قائد حزب اختلاف کا بے محل اور بے موقع چلایا ہوا تیر اپنی سیاسی کمان میں رکھ کر اسی طرح واپس کرتے ہیں کہ شہباز شریف اس مختصر سے نام کو بوکھلاہٹ میں بھول کر عمران علی نیازی کہتے ہیں اور پورا ہائوس اس کی تصحیح کرتا ہے یہ باتیں نہ وزیر اعظم کے کرنے کی تھیں اور نہ قائد حزب اختلاف کے کرنے کی۔ کشمیر پر بھارت کی اسی مہم جوئی میں اس نوع کی باتیں ایسے ہی ہیں جیسے کسی کے جنازے پر آپ دانت نکال کر تعزیت کریں، ٹرمپ کی پیشکش میں سیاسی کیڑے نکالنا اپوزیشن لیڈر کی شکستہ ذہنی کا ثبوت ہے۔
عمران کی پاکستان کے لیے کامیابیوں کو تمسخر اڑا کر، الزام لگا کر یا اونچا بول کر یا اپنے حواریوں سے اسمبلی کے ڈیسک بجوا کر اپنی سیاسی ناکامیوں پر نہ پردہ ڈالا جا سکتا ہے اور نہ ہی اس کے اثرات کو کم کیا جا سکتا ہے۔ امریکہ کے صدر ٹرمپ کو وعدہ یاد دلانے اور بھارت کی نئی مہم جوئی کے بعد اسے زیادہ ذمہ دارانہ کردار کی جو متفقہ آواز پاکستان کی پارلیمنٹ سے امریکہ کو جانی چاہئے تھی اس میں ہمارے پارلیمنٹیرین کامیاب نہیں ہو سکے۔
صدر ٹرمپ اپنے اس وعدہ کو ایفا کرنے کے لیے عالمی طاقتوں پر اپنا اثر و رسوخ استعمال کر کے بھارت کو اس کی بربریت اور اس نام نہاد آئینی تبدیلی سے ہونے والے نقصان سے اس طرح آگاہ کریں کہ بھارت خود ان سے اس متنازعہ مسئلہ پر ثالثی کی اپیلیں کرے اور نہتے کشمیریوں پر ظلم و ستم بند کرنے پر مجبور ہو جائے۔

مزیدخبریں