بعض واقعات عجب حسن اتفاق ہی نہیں ہوتے بلکہ عجیب ترین اور بے حد و بے حساب حسن اتفاق کا رنگ لیے ہوتے ہیں، مرحوم و مغفور ڈاکٹر مجید نظامی صاحب سے میری پہلی بالمشافہ ملاقات تو ایک ایسی یادگار ملاقات تھی جس کی یادیں نہ صرف ناقابل فراموش، بے حد پاکیزہ و معطر اور میرے ایمان کو بھی ہمیشہ تازگی، مضبوطی اور بے اندازہ خوشیاں عطا کرتی رہتی ہیں، دراصل یہ پہلی ملاقات بیت اللہ شریف کے مطاف مقام ابراہیم ’’مصلٰی‘‘ میں ہوئی تھی! اگر کوئی تصدیق چاہئے میرا پاسپورٹ دیکھ سکتا ہے اور ’’مجھے امید‘‘ ہے کہ نظامی صاحب کے پاسپورٹ سے بھی اس کی تصدیق ہو سکے گی۔ بصورت دیگر ایک عظیم صحافی اور ذمہ دار قومی لیڈر کے سفر کی رپورٹوں سے ہی ثبوت مل جائے گا!
بات یوں ہے کہ میں گزشتہ ساٹھ سال سے ایک حقیر سا لکھاری، اخبار نویس اور پنجاب یونیورسٹی کا ایک معمولی سا پروفیسر بھی چلا آتا ہوں، اس دوران میں نوائے وقت کی بے لوث خدمت کرتا آ رہا ہوں، ایک وقت تھا جب مجید نظامی صاحب انگریز سامراجیوں کے وطن میں تھے اور ’’مکتوبِ لندن‘‘ لکھا کرتے تھے جسے میں بڑے شوق سے پڑھا کرتا تھا۔ اس روز اللہ کے گھر میں مقام ابراہیم میں انہیں عبادت کرتے دیکھا، جب طواف کے لوازمات سے فارغ ہوا تو ان کے قریب کھڑا ہو گیا، پھر ہم یوں ملے جیسے مدتوں سے ایک دوسرے کو جانتے پہچانتے ہیں، باتیں بھی ہوئیں مگر اس وقت بتانے کی گنجائش نہیں، پنجاب یونیورسٹی کے علاوہ نوائے وقت سے ناجائز فائدہ اٹھانے والوں کے متعلق بھی ان سے باتیں ہوتی رہیں۔
مرحوم و مغفور ڈاکٹر مجید نظامی صاحب کو ان کے دوست و احباب اور مداح (جن میں میں کسی سے پیچھے نہیں ہوں!) بجاطور پر قومی صحافت کا قائد اور امام جانتے اور مانتے ہیں اور میں اس سے بخوبی آگاہ بھی ہوں اور انشاء اللہ کچھ واقعات و حقائق نوائے وقت کے آئندہ صحافت میں قارئین کرام کی نذر بھی کروں گا! تاہم اس وقت اتنا ضرور کہوں گا کہ ڈاکٹر مجید نظامی رحمتہ اللہ علیہ صرف ہماری قومی صحافت ہی کے قائد اور امام نہیں ہیں بلکہ وہ تو ہمارے قومی سیاسی لیڈر بھی ہیں جن کا مخلصانہ اور جرأتمندانہ موقف ہمیشہ اصولی ہوتا تھا اور قابل ستائش بلکہ قابلِ تقلید بھی ہوتا تھا، ان کی تمام زندگی ایک بلند کردار صحافی اور قوم کے سچے اور نڈر سیاسی رہنما کی زندگی رہی ہے، ایسے انسان اپنی قوم کے لیے قدرت کا ایک تحفہ ہوتے ہیں، ان کی زندگی ایک ایسا قابل تقلید نمونہ ہے جو ہمیشہ ایک سنگ میل بنکر چمکتا اور دمکتا رہے گا اور آ نے والی نسلیں ان کے اس نمونے سے مستفید ہوتی رہیں گی! ان کی باتیں تو نہ ختم ہونے والی دلچسپ کہانی ہے مگر سردست اسی پر اکتفا کروں گا کیونکہ سفینہ چاہئے اس بحرِ بے کراں کے لیے!