آرمی چیف کی ایکس ٹینشن

وزیراعظم عمران خان نے جنرل قمر جاوید باجوہ کو مزید 3سال کے لیے آرمی چیف مقرر کردیا ہے۔ حالیہ دورہ واشنگٹن پر صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی افغان جنگ میں پاکستان کی مدد و تعاون کا بھی یہی مطالبہ تھا جو اکیس توپوں کی سلامی سے ظاہر ہوا۔ ماضی میں بھی امریکہ کی دہشت گردی کی جنگ کی بدولت آرمی چیف صاحبان کی مدت ملازمت میں توسیع ہوتی رہی ہے۔ سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوھدری نے ایکس ٹینشن پر پابندی عائد کر دی تھی۔نواز شریف کو افتخار چوھدری پر غصہ تھا کہ جنرل کیانی کو دوسری بار ایکس ٹینشن نہ د ے سکے۔ بہرحال آرمی چیف جنرل قمر باجوہ صاحب کی ایکس ٹینشن پر سب خاموش ہیں۔ ملک ہے تو سیاست اور جمہوریت ہے۔ فوجی آمر نے بھٹو کو پھانسی دی تو فوج کے اندر اپنے ہی آرمی چیف آمر کے خلاف نفرت اور بھٹو کے لئے ہمدردی پائی جاتی تھی۔ لیکن آج صورتحال برعکس ہے۔فوج کے جوانوں کے اندر بھی نواز شریف کے خلاف غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ سابق جنرل ضیاء الحق کی سیاست میں مداخلت اور روحانی بیٹوں الطاف حسین اور نواز شریف کی دریافت پر فوج کے اندر ناپسندیدگی پائی جاتی تھی۔ضیا دور کے بعد نام نہاد جمہوریت کا پہیہ ذرا آگے بڑھا تو جنرل ضیاء کی روحانی دریافت نواز شریف نے حسب توقع اس وقت کے آرمی چیف سے متھا لگا لیا۔ سابق آرمی چیف جنرل پرویز مشرف نے بھی سیاست کا موقع ہاتھ سے جانے نہ دیا اور طیارہ کیس کی آڑ میں سیاست پر قبضہ کر لیا جسے عرف عام میں شب خون مارنا کہا جاتا ہے۔ دس برس اس ملک پر خوب عیاشی کی۔ لیکن 2008ء کے انتخابات میں بے نظیر بھٹو کے تعزیتی ووٹوں نے مشرف کو سیاست سے اُٹھا باہر پھینکا اور زرداری کے شکل میں ایک جمہوری آمر آگیا۔ زرداری اور نواز شریف دونوں بھائیوں نے مل کر نام نہاد جمہوریت کی گاڑی کسی نہ کسی طرح پانچ سال گھسیٹ لی۔مشرف سے خفیہ ڈیلز بھی مددگار تھیں جن میں مشرف کو پروٹوکول کے ساتھ رخصت کرنا بھی شامل تھا۔ بڑے بھائی زرداری صاحب بھی پانچ سال بعد رخصت ہو گئے اور اب اگلی باری چھوٹے بھائی نواز شریف کی طے تھی اور یوں 2013ء کے الیکشن سے چھوٹے بھائی صاحب برسراقتدار آگئے۔جنرل مشرف کی آمریت کے بعد فوج نے شب خون کی لعنت کا باب ہمیشہ کے لئے بند کر دیا۔ جنرل کیانی نے فوجی افسران کو حکم دیا کے وہ سیاست دانوں کے ساتھ رابطے نہ رکھیں۔ جنرل کیانی نے پاکستان کے تمام حکومتی اور سول محکموں میں سے فوجی افسران کی واپسی کا حکم دے دیا اور صدر مشرف کے ناقدین نے اس فیصلے کا خیر مقدم کیا جن کا ہمیشہ سے یہ موقف رہا ہے کہ سیاست میں فوج کی دخل اندازی نہ ہو۔ 24 جولائی 2010ء کو وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے ان کی ملازمت میں تین سال کی توسیع کردی۔
2013ء کو وزیر اعظم نواز شریف نے راحیل شریف کو فوج کا سپاہ سالار مقرر کیا۔ جنرل راحیل شریف کی پیشہ وارانہ صلاحیت اور قابلیت کی ساری دنیا معترف ہے اور دہشت گردی کے خلاف ان کی کوششیں انتہائی کامیاب رہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمان ملکوں کی طرف سے دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے لئے قائم کئے گئے اتحاد کی قیادت کیلئے ان کا انتخاب کیا گیا۔ راحیل شریف نے جس وقت پاکستان آرمی کی کمانڈ سنبھالی تو ملک میں امن و امان کی صورت حال انتہائی ابتر تھی۔ انہوں نے دہشت گردوں کے خلاف سخت موقف اختیار کیا اور سانحہ پشاور کے بعد پاکستان آرمی نے تمام تر ملک دشمن
قوتوں کے خلاف بلاتفریق کارروائیاں کیں۔ اس سے امن و امان کی صورت حال میں بہتری ہونے لگی اور راحیل شریف ملک میں ایک مقبول آرمی چیف کی حیثیت سے اُبھرے۔نومبر 2016ء تک خدمات انجام دے کرپاک فوج کی کمان جنرل قمر جاوید باجوہ کے حوالے کر گئے۔ذرائع کے مطابق جنرل باجوہ انتہائی پیشہ ور افسر ہیں اور ایک نرم دل رکھنے والے انسان ہیں۔ ان کے ساتھیوں کا کہنا ہے کہ وہ ایک انتہائی غیر جانبدار فوجی افسر ہیں۔ سابق آرمی چیف جنرل اشفاق کیانی تو زرداری اور نواز شریف کی گڈ بک میں تھے تبھی تو زرداری حکومت نے انہیں ایکس ٹینشن دی۔ نواز شریف جب وزیراعظم بنے تو کلثوم نواز نے بتایا کہ جنرل کیانی کی نواز سے اچھی انڈرسٹینڈنگ ہے لیکن دوبارہ توسیع نہیں مل سکتی۔ سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوھدری نے ایکس ٹینشن پر پابندی کا قانون پاس کر دیا۔ نواز شریف کو افتخار چوھدری پر یہ بھی غصہ تھا کہ اب جنرل کیانی کو مزید ایکس ٹینشن نہیں دے سکتے۔ جنرل راحیل شریف آرمی چیف بنا دئیے گئے لیکن مشرف کی اور دیگر جرنیلوں کی طرح وہ بھی نواز شریف کو پسند نہیں تھے۔ اگر فوج سیاست میں مداخلت کرتی ہے تو سیاستدان فوج میں مداخلت کرتے ہیں ؟ سیاستدان کیوں اپنی مرضی کی پالیسیاں فوج پر مسلط کرنا چاہتے ہیں؟ نواز شریف نے فوج کے ساتھ آ بیل مجھے مار والا رویہ رکھا۔ ڈان لیکس سے اپنی فوج کو دہشت گرد ثابت کرنے کی سازش کی؟ پھر اسی ڈان اخبار کو دوبارہ فوج مخالف انٹرویو دے دیا ؟بھارت کے ساتھ خفیہ تعلقات اور معاہدوں پر فوج کب تک خاموش رہتی ؟ تمام سازشوں‘ بغاوتوں‘ معاہدوں کے باوجود آرمی چیف جنرل قمر باجوہ نواز حکومت کو سپورٹ کرتے رہے لیکن نواز شریف کو اپنے پائوں پر خود کلہاڑی مارنے کا جنون ہے۔ مسلم لیگ نواز میں اکثریت اس حقیقت کا ادراک رکھتی ہے کہ پاکستان اور فوج لازم و ملزوم ہیں۔ فوج مخالف بیانیہ پر مسلم لیگ ن تقسیم ہے۔ آرمی چیف جنرل قمر باجوہ نواز شریف کی ہر کمزوری اور کوتاہی کو نظر انداز اور برداشت کرتے رہے لیکن اپوزیشن نے عدلیہ میں تمام خفیہ کھاتے کھول کر نواز شریف کو بالآخر جیل میں پہنچا کر دم لیا۔

طیبہ ضیاءچیمہ ....(نیویارک)

ای پیپر دی نیشن

پاکستان : منزل کہاں ہے ؟

وطن عزیز میں یہاں جھوٹ منافقت، دھوکہ بازی، قتل، ڈاکے، منشیات کے دھندے، ذخیرہ اندوزی، بد عنوانی، ملاوٹ، رشوت، عام ہے۔ مہنگائی ...