جمہوریت بہترین انتقام ہے!!!!!

ہمیں ایسے جملے، الفاظ یا گفتگو بہت متاثر کرتی ہے کہ نیا نظام نافذ ہو رہا ہے، تبدیلی آ رہی ہے، میرٹ کی بالادستی ہو گی، شفافیت پر مبنی نظام ہو گا، اقربا پروری کا خاتمہ ہو گا، اکثریتی اراکین کی بات مانی جائے گی، جمہوری روایات کو آگے بڑھایا جائے گا، بولنے کی آزادی ہو گی، ہم مکمل طور پر جمہوری آئین نافذ کریں گے۔ ہم اکثریتی طور چونکہ احساس محرومی کا شکار رہے ہیں اس لیے ایسی باتیں اچھی لگتی ہیں اور جب بھی کوئی ایسے دعوے کرتا ہے اسے پذیرائی ملتی ہے۔ ہم ایسے خوشی خوشی اسے خوش آمدید کہتے ہیں، واہ واہ کرتے ہیں، زندہ باد کے نعرے لگاتے ہیں پھر معلوم پڑتا ہے کہ جمہوریت بہترین انتقام ہے۔ایسے وعدوں کی امید میں جانے کتنے لاکھوں کروڑوں بچے لڑکپن سے جوانی میں گئے اور اب بڑھاپے کو چھو رہے ہوں گے کہ کب وعدے وفا ہوں گے، یہ الفاظ عملی طور پر کام کرتے نظر آئیں گے لیکن وہی دن رات ہیں، وہی خزاں کا موسم ہے۔ ہم جب بھی اکتاتے ہیں پھر سے ایک نیا سلسلہ شروع ہوتا ہے اور آواز آتی ہے گھبرانا نہیں ہے جمہوریت بہترین انتقام ہے۔
پاکستان کرکٹ بورڈ کا نیا آئین بھی جمہوریت کے نام پر جمہوری طاقتوں سے انتقام کی ایسی مثال ہے کہ جب کبھی تاریخ لکھی جائے گی اس آئین کو بنانے والے ڈکٹیٹرز کا نام لینے سے پہلے احتجاجاً ایک منٹ کی خاموشی اختیار کرنا پڑے گی۔ کوئی جمہوریت پسند زیادہ غصے میں آیا تو اسے کم از کم دو گلاس پانی پینا پڑے گا، بونس کے طور پر پانچ منٹ خاموشی اختیار کرنا پڑے گی پھر کہیں جا کر زبان اس قابل ہو پائے گی کہ وہ تہذیب و شائستگی سے بات چیت کر سکے۔ چونکہ ایک جمہوریت ایک انتقام ہے اور انتقام لینے کے کئی طریقے ہیں، کبھی آمریت میں ایک ہی جھٹکے میں گردن گاٹ دی جاتی لیکن جمہوری انتقام میں یہ کام آہستہ آہستہ ہوتا ہے۔ آہستہ آہستہ پردے ہٹتے ہیں، راز کھلتے ہیں، حقیقت آشکار ہوتی ہے، اصلیت سامنے آتی ہے تو پتہ چلتا ہے کہ شفافیت، جمہوریت اور میرٹ کے نام پر ہاتھ ہو گیا ہے۔ یہ ایسا ہی ہے جیسا کہ "ہم دعا لکھتے رہے وہ دغا پڑھتے رہے"۔
پاکستان کرکٹ بورڈ کا نیا آئین ہے جسے عین جمہوری قرار دیا جا رہا ہے، اس آئین کو ایسے پیش کیا جائے گا کہ اس سے بہتر آئین نہ آج تک بن سکا ہے اور نہ کبھی بن سکے گا اور کبھی کسی کو بنانے کی ضرورت بھی پیش آئی تو اس کے لیے بھی ان لوگوں کو ڈھونڈنا پڑے گا جنہوں نے اس تاریخ کے بہترین آئین کو مرتب کیا ہے۔ کیا کہنے ہیں صاحب، داد دینے کودل کرتا ہے، وہ ہاتھ چومنے کا من چاہتا ہے جس نے جمہوریت کے نام پر آمریت کا شاندار نقشہ کھینچا ہے۔ کیا شاندار جمہوریت ہے کہ ملک میں پہلے سے موجود تمام منتخب نمائندوں کی حیثیت ختم ہو جائے گی۔ یاد رکھیے منتخب نمائندے غیر منتخب ہو جائیں گے اور باقی رہیں گے تو صرف وہ معزز جو نامزد ہو کر آئے ہیں، چونکہ ان کا انتخاب براہ راست ہوا ہے اور یہی عین جمہوری طریقے ہیں، یہی وہ جمہوری اقدار ہیں جو دنیا میں ناپید ہوتی چلی جا رہی ہیں، جدید ٹیکنالوجی کے اس دور میں جہاں ٹیکنالوجی ہر چیز پر حاوی ہوتی جا رہی ہے حتی کہ جمہوری اقدار کو بھی ہضم کرنے کے درپے ہے وہاں پاکستان کرکٹ بورڈ کے جمہوریت پسندوں نے ٹیکنالوجی کی بڑھتی ہوئی طاقت کو رکنے اور جمہوری اقدار کو زندہ رکھنے کے لیے ایک تاریخی قدم اٹھایا ہے کہ منتخب گھر جائیں گے لیکن نامزد باقی رہیں گے۔ اس طرح دور جدید کی جمہوریت میں کل ملا کر ملک بھر میں چھ ایسوسی ایشنز ہیں لیکن جمہوریت کو چلانے کے لیے ان سب کو گورننگ بورڈ میں شامل نہیں کیا گیا کہ کہیں اکٹھے ہو کر جمہوریت کی بساط ہی نہ لپیٹ دیں اس لیے ملکی کرکٹ کے سب سے بڑے سٹیک ہولڈرز کو جمہوریت کے نام پر گورننگ بورڈ میں محدود نمائندگی دی جائیگی۔ یہاں بھی ان پر برتری نامزد افراد کو ہی ملے گی چار آزاد ڈائریکٹرز گورننگ بورڈ کا حصہ ہوں گے۔ وہ جو الیکشن لڑ کر ایسوسی ایشنز کے صدر بنیں گے وہ گورننگ بورڈ میں آنے کے لیے باری کا انتظار کریں گے لیکن چار آزاد ڈائریکٹرز موجود رہیں گے۔ کوئی پوچھے تو بتائیے گا کہ ہم جمہوریت پسند ضرور ہیں لیکن اتنے بھی نہیں کہ انتقام نہ لیں۔ اس سے اچھا جمہوری انتقام اور کیا ہو گا کہ انتخابات جیتنے والے باہر بیٹھے رہیں اور باہر سے آ کر بیٹھنے والے فیصلہ سازی میں اہم کردار نبھاتے رہیں۔ اور تو اور جناب چونکہ جمہوریت کو چلانے کے لیے احتساب سب سے بڑا خطرہ سمجھا جاتا ہے اس لیے احتساب کا کوئی ذکر بھی نہ کرے،یہی وجہ ہے کہ اس حوالے خاموشی اختیار کرنا ہی بہتر ہے۔ ہر دوسرے دن کوئی الزام لگ جائے یا کام میں رکاوٹ کھڑی کر دی جائے تو ترقی کیسے ہو گی۔ قوم کے وسیع تر مفاد میں بہتر یہی ہے کہ اس چکر میں نہ ہی الجھا جائے۔ اختیارات کا مرکز ایک ہی شخص کو ہونا چاہیے ایسا انتقام بھی جمہوریت ہی لے سکتی ہے اور اس پیمانے پر بھی پاکستان کرکٹ بورڈ کے نئے آئین کو سو میں سے سو نمبر دیے جا سکتے ہیں۔ ہم کتنے خوش قسمت ہیں کہ اس مثالی جمہوری دور میں زندہ ہیں کہ تاریخ رقم ہوتے دیکھ رہے ہیں۔ ہم اپنے بچوں کو بتا سکیں گے کہ یاد رکھنا اور آنیوالی نسلوں کو نصیحت کرتے جانا کہ جمہوریت ہی بہترین انتقام ہے اور اس انتقام میں سینکڑوں بے روزگار ہو جائیں، ہزاروں لاچار ہو جائیں، دو وقت کی روٹی کے لالے پڑ جائیں، مستقبل خطرے میں پڑ جائے لیکن جمہوری اقدار کو سنبھالے رکھنا ہے۔ یہ جمہوریت کے لیے قربانی عام پاکستانی اور معصوم کرکٹر نے دینی ہے۔ بڑے جمہوریت پسندوں کے لیے آئین میں نامزدگی کی شرط کو برقرار رکھا گیا ہے کیونکہ جمہوریت کو بچانا اور چلانا عام آدمی کے بس کی بات نہیں۔
ایک بات کا دکھ ضرور ہے۔ کرکٹ بورڈ کی طرف سے ہر دوسرے کام کی پریس ریلیز اور ویڈیو بیان ضرور آتا ہے جس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ صحافت زندہ ہے اور سپورٹس جرنلسٹ اپنا کام کر رہے ہیں۔ اس تاریخی آئین پر، اس شاہکار پر ابھی تک سرکاری بیان نہیں آیا۔ ہم ابھی تک اس تاریخی دستاویز کے مرکزی کرداروں کے خیالات جاننے سے محروم ہیں۔ یہ قانون کے طالب علموں اور جمہوریت پسندوں کے لیے مایوس کن ضرور اس پر بھی کچھ نہ کچھ سننے کو ضرور ملے گا۔ بہر حال گھبرانا نہیں ہے، ڈٹے رہنا ہے، ابھی جمہوریت کو خطرات لاحق ہیں، ذرا آمرانہ انداز میں تھوڑا وقت گذارنے دیں پھر سب عادی ہو جائیں گے پھر کسی کو محسوس نہیں ہو گا کہ جمہوریت ہے یا آمریت، ہم ایسے سادہ لوگ اسے جمہوریت ہی سمجھنے لگ جائیں گے۔

ای پیپر دی نیشن