اسلام آباد ( جاوید صدیق) صدر ڈاکٹر عارف علوی پاکستان کی پارلیمانی تاریخ میں ان صدور میں شامل ہو گئے ہیں، جنھیں پارلیمانی سال مکمل ہونے پر پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے اپوزیشن کے احتجاج اور شور شرابے کا سامنا کرنا پڑا۔ گذشتہ برس بھی صدر علوی کے خطاب کے دوران اپوزیشن نے احتجاج کیا اور دوسرے سال بھی پارلیمانی سال کے شروع میں خطاب پر اپوزیشن نے احتجاج کی روش جاری رکھی البتہ یہ احتجاج اتنا پرشور اور ہنگامہ خیز نہیں تھا جتنا کہ سابق صدر غلام اسحاق خان مرحوم کے دور میں پیپلزپارٹی کی طرف سے کیا گیا۔ 1990 میں جب انتخابات ہوئے تو مسلم لیگ ن کی حکومت بنی اور جب پارلیمانی سال کے آغاز پر صدر غلام اسحاق خان خطاب کیلئے آئے تو پیپلز پارٹی نے جن میں اس وقت کی اپوزیشن لیڈر بے نظیر بھٹو بھی شامل تھیں، اپنی نشستوں پر کھڑے ہو کر ’’ گو بابا گو‘‘ کے نعرے لگائے اور 1990 کے انتخابات پر نکتہ چینی کی۔ صدر غلام اسحاق خان کی تقریر کے دوران پیپلز پارٹی نے مسلسل نعرے بازی کی جس سے صدر غلام اسحاق خان ،جو کہ ایک سابق بیوروکریٹ تھے، پریشان بھی ہوئے اور ان کے ماتھے پر پسینہ بھی چمکنے لگا تا ہم دوسرے برس وہ اس احتجاج کے عادی ہو گئے اور انھیں زیادہ پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑا۔ صدر غلام اسحاق خان کے خلاف پیپلز پارٹی کے احتجاج کی روایت 1993 سے 1996 تک مسلم لیگ ن نے بھی برقرار رکھی جبکہ مسلم لیگ ن نواز شریف کی قیادت میں اپوزیشن بینچز پر بیٹھی۔ مسلم لیگ ن اور اس کی اتحادی جماعتوں نے اس وقت کے صدر جن کا تعلق پیپلز پارٹی سے تھا، فاروق خان لغاری کے خلاف ایک پرزور احتجاج کیا اور ’’چور لغاری چور‘‘ کے نعرے لگائے۔ صدر لغاری بھی اس احتجاج سے قدرے پریشان لگ رہے تھے اور صدر لغاری کے خلاف کے دوران ن لیگ نے احتجاجی بینر بھی اٹھائے ہوئے تھے اور انھوں نے بازوئوں پر سیاہ پٹیاں بھی باندھ رکھی تھی۔ یہ روایت 1993سے 1996 تک جاری رہی۔ 1997سے 1999 تک جب مسلم لیگ ن دوبارہ اقتدار میں آئی اور حکومت تو پیپلز پارٹی نے اس وقت کے صدر رفیق تارڑ کیخلاف بھی احتجاج کیا۔ جب جنرل پرویز مشرف صدر بنے تو پی پی پی اور ن لیگ نے، جو کہ متحدہ اپوزیشن تھی، نے صدر جنرل پرویز مشرف کو بھی خطاب کے دوران پریشان کئے رکھا اور احتجاج کیا جس پر صدر مشرف بہت برہم بھی ہوئے اور انھوں نے فیصلہ کیا کہ وہ آئندہ پارلیمانی سال کے آغاز پر خطاب نہیں کریں گے اور یوں ان کے دور میں کم و بیش تین سال پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے صدر کا خطاب نہ ہوا۔ ان کے بعد صدر آصف زرداری اور پھر صدر ممنون حسین کے خطابوں کے دوران پارلیمنٹ میں خلاف معمول خاموشی رہی اور اب صدر علوی کو ماضی کے صدور کی طرح گذشتہ روز اپوزیشن کے احتجاجی نعروں اور شور شرابے کا سامنا رہا ۔