معزز قارئین! 25 ذوالحج ( 16 اگست )کو پاک پنجاب کے پاکپتن ؔشریف میں چشتیہ سلسلہ کے ولی اور پنجابی زبان کے پہلے شاعر حضرت فرید اُلدّین مسعود المعروف بابا فرید شکر گنج کے 778 ویں عُرس کا آغاز ہوگیا ہے جو15 روز تک جاری رہے گا۔ اِس موقع پر سجادہ نشین دیوان مودود مسعود چشتی نے زائرین میں روایتی تبرکات تقسیم کئے۔ کورونا وائرس کے باعث ، عُرس کی تقریبات میں دوسرے شہروں سے آنے والے زائرین کو شرکت کی اجازت نہیں دِی گئی اور درگاہ کا ’’بہشتی دروازہ‘‘ بھی 5 روز کے بجائے 2 روز ( 5 اور 6 محرم کو) علامتی طور پر کھولا جائے گا۔
بابا فرید شکر گنج کی زندگی کا خاص پہلو یہ ہے کہ ’’ آپ ہندوستان میں خاندانِ غلاماں کے بادشاہ ، سُلطان غیاث اُلدّین بلبن (1266ء ۔ 1286ئ) کے داماد تھے لیکن، آپ نے اپنے سُسر بادشاہ سے کسی قسم کی مراعات حاصل نہیں کی تھیں ۔ظاہر ہے کہ ’’مرحوم ذوالفقار علی بھٹو کے داماد ؔآصف علی زرداری اور ’’ لندن باسی‘‘ (اور بیمار) میاں نوازشریف کے داماد ؔکیپٹن ( ر) محمد صفدر اعوان تو درویش ؔنہیں ہیں؟۔
یوں تو مَیں سبھی صُوفیا ، اولیاء شاعروں کا عقیدت مند ہُوں لیکن، بابا فرید شکر گنج اور بابا بُلھّے شاہ القادری سے میری عقیدت میں اضافہ کا "Cradit" تحریک پاکستان کے دو کارکنوں، پاکپتن شریف کے میاں محمد اکرم اور لاہور کے مرزا شجاع اُلدّین بیگ امرتسری کو جاتا ہے۔2 جنوری 1965ء کو فیلڈ مارشل صدر محمد ایوب خان کے مقابلے میں قائداعظم کی ہمشیرہ محترمہ فاطمہ جناح متحدہ اپوزیشن کی امیدوار تھیں ۔ ’’مفسرنظریۂ پاکستان‘‘ جناب مجید نظامی نے اُنہیںمادرِ ملّت کا خطاب دِیا تھا۔ مَیں سرگودھا میں ’’نوائے وقت‘‘ کا نامہ نگار تھا، جب میری اور میرے ایک سرگودھوی صحافی دوست تاج اُلدّین حقیقتؔ کی مادرِ ملّت سے ملاقات ہُوئی تو میاں محمد اکرم اور مرزا شجاع اُلدّین بیگ کی بھی، پھر میری اُن دونوں سے دوستی ہوگئی۔
میاں محمد اکرم ، پنجابی، اردو کے نامور شاعر اور ’’نوائے وقت‘‘ کے سینئر ادارتی رکن برادرِ عزیز سعید آسیؔ کے والد صاحب تھے اور مرزا شجاع اُلدّین بیگ امرتسری۔ پیمرا کے چیئرمین پروفیسر مرزا محمد سلیم بیگ کے والد صاحب۔ قیام پاکستان کے بعد، میاں محمد اکرم نے مہاجرین کی آبادکاری میں اہم کردار ادا کِیا اور تحریک پاکستان کے دَوران مرزا شجاع اُلدّین بیگ امرتسری کا آدھے سے زیادہ خاندان سِکھوں سے لڑتا ہُوا شہید ہوگیا تھا۔ میاں محمد اکرم کی دعوت پر مَیں 1966ء میں پاکپتن شریف گیا تو وہ مجھے بابا فرید شکر گنج کے مزار پر لے گئے۔ میاں صاحب کو، بابا جی کے بہت سے دوہے (اشعار) اَزبر تھے اور وہ اُن کی بہت ہی محبت سے تفسیر کرتے تھے۔ مرزا شجاع اُلدّین بیگ امرتسری مجھے 1968ء میں بابا بُلھّے شاہ کے مزار پر حاضری کے لئے قصور لے گئے اور جب ، ذوالفقار علی بھٹو کی چیئرمین شِپ میں پاکستان پیپلز پارٹی نے ’’ روٹی، کپڑااور مکان‘‘ کا نعرہ عام کِیا تو، بیگ صاحب اپنے سبھی دوستوں کو بتایا کرتے تھے کہ ’’ ذوالفقار علی بھٹو نے بابا بُلھّے شاہ ہی سے روشنی لے کر غریبوں کو یہ نعرہ دِیا ہے‘‘۔ بیگ صاحب کہا کرتے تھے کہ ’’ بابا بُلھّے شاہ نے تو بہت پہلے ہی ہر بندے (اِنسان) کو تلقین کی تھی کہ …
مَنگ اوئے بندیاؔ ! ، اللہ کولوں، گُلّی ، جُلّی، کُلی؟
یعنی۔’’اے بندے ! تُو اللہ سے روٹی، کپڑا اور رہائش کے لئے مکان مانگ‘‘۔
’’بابا فرید شکر گنج کے دوہے !‘‘
معزز قارئین ! فی الحال مَیں ’’ روٹی‘‘ کے مسئلے پر بابا فرید شکر گنج کے صِرف 2 دوہے پیش کر رہا ہُوں۔ ایک دوہے میں آپ نے فرمایا کہ …
فریداؔ! روٹی میری کاٹھ دِی، لاہون میری بُھکّھ !
جنہاں کھاہدی چوپڑی ، گھنے سہن گے دُکھ !
…O…
یعنی۔ ’’ اے فریدؔ!۔ میری روٹی لکڑی کی ہے جو میری بھوک اتارتی ہے، اور چُپڑی روٹی ( پراٹھے) کھانے والے ( اُمرا ئ، خاص طور پر بد عنوان لوگ، (آخرت میں ) بہت دُکھ برداشت کریں گے‘‘۔ دوسرے دوہے میں بابا جی نے اپنے حوالے سے غریب غُرباء کو مشورہ دِیا کہ …
فریداؔ !رُکھّی ، سُکھّی کھا کے ، ٹھنڈا پانی پی!
دیکھ پرائی چوپڑی ، نہ ترسائیں جی!
…O…
یعنی۔ ’’ اے فریدؔ !۔ رُوکھّی سُوکھّی روٹی کھا کے اور ٹھنڈا پانی پی کر (زندگی بسر کر) لیکن دوسرے لوگ جب چُپڑی روٹی کھارہے ہوں تو، اُنہیں دیکھ کر اپنا جی نہ ترسا ‘‘۔
معزز قارئین! بابا فرید شکر گنج کا دَور اچھا دَور تھا ، جب عام لوگوں کو کھانے کے لئے (رُوکھّی سُوکھّی ) روٹی مل جاتی تھی اور پینے کے لئے کنویں یا چشمے کا ٹھنڈا اور صاف پانی ؟ لیکن، آج پاکستان میں غریبوں کے لئے اِس طرح کی نعمتیںؔ کہاں ؟۔
’’کالے لِکھ نہ لیکھ!‘‘
معزز قارئین! "Four Pillers of the State" (ریاست کے چار ستونوں ) کا نظام بعد میں منظر عام پر آیا لیکن، بابا فرید شکر گنج نے -1 پارلیمنٹ (Legislature) -2 حکومت (Executive) -3 جج صاحبان (Judiciary) اور -4 اخبارات اور نشریاتی اداروں (Media) کو اپنے اِس دوہے میں پہلے ہی ہدایت کردِی کہ …
فریداؔ! جے تُوں عقل لطیفؔ ، کالے لِکھ نہ لیکھ!
آپنے گریوان میں سِر نِیواں کر دیکھ !
…O…
یعنی۔’’ اے فریدؔ ! اگر تو باریک بین عقل رکھتا ہے تو’’ کالے لیکھ‘‘ (سیاہ تحریریں اور احکامات ) نہ لکھ بلکہ لکھنے سے پہلے سر نیچا کر کے اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھ ‘‘۔
٭…٭…٭