وزیراعظم صاحب دو چار تالیاں بجائیں

جب ہم مڈل کلاس میں پڑھتے تھے تو انگریزی کتاب میں بہروپیے ٹھگوں کا ایک قصہ بیان کیا گیا تھا کہ انہوں نے کسی ملک کے بادشاہ تک یہ بات پہنچائی کہ ہم ایسا کپڑا بنتے ہیں جو ان پڑھ، ناکارہ، ناکام اور نااہل لوگوں کو دکھائی نہیں دیتا۔ اس کپڑے کو صرف اہل، وفادار،جوہر شناس اور قابل لوگ ہی دیکھ سکتے ہیں۔
 ٹھگوں نے بادشاہ کو تجویز دی کہ وہ بادشاہ کی پوشاک تیار کرتے ہیں۔ بادشاہ کا ماپ اس شرط پر لیا گیا کہ بادشاہ یہ ملبوسات پہننے کے بعد ایک جلوس کی صورت میں فلاں چوک تک پیدل مارچ کرے گا۔
خیر وہ وقت آ گیا جب لباس تیار ہو گیا۔ عوام میں ڈھنڈورچیوں نے اعلان کر دیا کہ بادشاہ جلوس کی صورت میں فلاں دن جلوہ گرہوں گے اور اُن کا لباس صرف اہل، قابل اور عقل مند لوگوں کو ہی دکھائی دے گا۔ جلوس والے دن ٹھگوں نے باقاعدہ بادشاہ کو لباس زیب تن کروایا۔ باقاعدہ غلاموں نے زمین پر لٹکتے کپڑے کو اٹھایا اور بادشاہ کے پیچھے پیچھے چل پڑے۔ تمام وزراء اور عوام کو کپڑا نظر نہ آیا۔ لیکن سب لوگوں نے اپنی عزت اور اہلیت اسی میں سمجھی کہ ان کو سب کچھ نظر آ رہا ہے اور کپڑا بہت عمدہ ہے۔ یہ کپڑا عالی جاہ پر خوب جچ رہا ہے۔ مجمعے پر خاموشی طاری تھی کہ ایک بچے کی آواز گونجی۔ بادشاہ ننگا…!
بس پھر کیا تھا کہ عوام  میں چہ میگوئیاں شروع ہو گئیں کہ بادشاہ ننگا ہے۔ وزیر کھسیانے ہو گئے اور بادشاہ کو بھاگ کر اپنے جسم کو چھپانا پڑا۔ بادشاہ بادشاہ ہی ہوتے ہیں۔ اسی لیے تو قحط پڑنے پر لوگوں کو  بسکٹ کھانے کا مشورہ دیتے ہیں۔ حقیقت کیا ہے اُس کے متعلق وہ ہمیشہ اندھیرے میں رہتے ہیں۔ ایوب خان کی بیماری کے دوران جناب الطاف گوہر صاحب پاکستان ٹائمز کا سپیشل ایڈیشن ایوب خان کے پڑھنے کے لیے چھپواتے جس میں سب اچھا کی رپورٹ ہوتی۔ جنرل ضیاء نے خود ٹی وی پر آ کر کہا کہ لوگ مجھے بینڈ ماسٹر کہتے ہیں۔ البتہ جنرل مشرف بہت الرٹ تھے اور ایجنسیوں کی رپورٹ کے علاوہ اپنی ڈائریکٹ رپورٹنگ بھی رکھتے تھے۔ اب آتے ہیں موجودہ حکومت کی طرف۔ ملک میں ڈالر کا بحران، پٹرول کا بحران، آٹے کا بحران، چینی کا بحران، مشروبات میں ملاوٹ، دودھ ہی میں ملاوٹ، مہنگی اور جعلی ادویات۔ اب حالت یہ ہو گئی ہے کہ جیسے ہی وزیراعظم کسی مسئلے پر نوٹس لینے کا اعلان کرتے ہیں تو لوگوں کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں کہ اب یہ چیز ناپید ہو جائے گی۔ اس پر وزیراعظم کا یہ نعرہ مستانہ کہ آپ نے گھبرانا نہیں ہے۔ بھوک، ننگ، بے روزگاری، مہنگائی، ملاوٹ، اشیائے خوردونوش کی نایابی پراگر لوگوں کو یہ بتایا جائے کہ میں مخالفوں کو چھوڑوں گا نہیں تو اُس پر ایک پنجابی کی مثال یہ ہے کہ 
’’بھٹ پڑا سونا جو کانوں کو کھائے‘‘
وزیراعظم صاحب سے ایک ہی درخواست ہے کہ وہ ان فروعی باتوں کو چھوڑیں تاریخ میں اپنا مقام ڈھونڈیں اور عوام کے لیے امن چین اور سکون کی روٹی کا بندوبست کریں۔
یہ تب ممکن نہیں جب تک درج ذیل مثال پر عمل درآمد نہ کیا جائے۔
کہتے ہیں کہ افغان صدر داؤد کو اطلاع ملی کہ تانگے کا کرایہ بہت زیادہ بڑھ گیا ہے۔ انہوں نے شاہی فرمان کے ذریعے مختلف فاصلوں کے سرکاری ریٹ مقرر کر دیئے۔ لیکن تانگہ بانوں نے اپنی ضد نہ چھوڑی اور منہ مانگے ریٹ ہی لیتے رہے۔ ایک دن صدر صاحب بھیس بدل کر ایک تانگہ اڈا پر پہنچے اور کوچوان کو مشہور جگہ پل چرخی چلنے کو کہا۔صدر نے کوچوان سے پوچھا کہ وہاں تک جانے کے کتنے پیسے لو گے تو کوچوان نے صدر کو پہچانے بغیر کہا کہ میں سرکاری نرخ پر کام نہیں کرتا۔
صدرنے کہا کہ 20 چلیں گے، کوچوان نے کہا اور وپر۔
صدر نے کہا 30 چلیں گے، کوچوان نے کہا کہ اور اوپر۔
صدر نے کہا کہ 40 ، کوچوان نے کہا کہ مارتالی۔
صدرتانگے پر سوار ہو گیا، تانگے والے نے پوچھا کہ تم فوجی ہو، صدر نے کہا کہ اور اوپر۔
کوچوان نے کہا کہ اشتہاری ہو، صدر نے کہا کہ اور اوپر۔
کوچوان نے کہا کہ مارشل ہو، صدر نے کہا کہ اور اوپر۔
کوچوان نے تانگہ روکا اور پوچھا کہ کہیں تم صدر تو نہیں، صدر نے کہا کہ مارتالی۔
کوچوان کا رنگ اُڑ گیا، اُس نے پوچھا کہ اب تم مجھے جیل بھیجو گے، صدر نے کہا کہ اور اوپر۔
کوچوان نے کہا کہ جلا وطن کروگے، صدرنے کہا کہ اور اوپر۔
کوچوان نے کہا کہ پھانسی پر چڑھاؤ گے تو صدر نے کہا کہ مار تالی۔
وزیراعظم صاحب تمام مافیاز آپ کی قربت میں ہیں۔ مہربانی کریں عوام نے آپ کو بڑے پیار، جوش،جذبے، محبت، ولولے اور اچھی اُمیدوں سے یہاں پہنچایا ہے۔ بس دوستی اُن سے کریں جو آج بھی آپ کو قومی ہیرو مانتے ہیں اور دوچار مافیاز کے لیے تالی بجا دیں۔ اس سے بہتوں کا بھلا ہو گا۔

ای پیپر دی نیشن