مرادِ مصطفیٰ ﷺ،خلیفہ دوم، امیرالمومنین سیدنا عُمربن خطابؓ

مولانا محمد عمر قاسمی 
 انسان کی جسمانی اورمادی ضروریات کی فراہمی، اخلاقی وروحانی تربیت، فکر اسلام کا تقاضا ہے۔صحابہ کرامؓ نے اس پر سب سے پہلے عمل کر کے دکھایا۔ اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ ہر اصول کی عملی تفسیر اصحاب محمدؐ میں دیکھی جاسکتی ہے۔ سیدناعمرؓ ان اصولوں کی بالادستی کا مکمل واضح اورقابل تقلید نمونہ ہیں۔ آپکی سیرت محض تاریخی واقعات ہی نہیں بلکہ انسانی زندگی اوراسکی تربیت کیلئے درسِ فکر وعمل بھی پیش کرتی ہے۔حضرت عمر ؓ خود راوی ہیں’’ میں زمانہ جاہلیت میں ایک روز حضوراکر مؐکی دل آزاری کے اِرادے سے نکلا۔ میں نے دیکھا کہ آپؐ مجھ سے پہلے حرمِ مکی میں پہنچ کر نماز کی نیت باندھ چکے ہیں۔میں آپ ؐکے پیچھے جا کھڑا ہوا۔آپؐ نے سب سے پہلے سورۃ الفاتحہ کی تلاوت فرمائی۔ پھر سورۃ الحاقہ کی تلاوت شروع کردی۔ قرآن کی آیات اورتراکیب میں بے پناہ روانی، سلاست اورزور بیان تھا۔ میں نے دل میں کہا ’’خدا کی قسم جیسا کہ قریش کہتے ہیں یہ بہت بڑے شاعر ہیں‘‘۔ آپؐ نے سورۃکی آخری آیات تک پڑھ ڈالیں۔اور میں دم بخود کھڑا تھا۔اس روز اسلام کی آواز،اس کی گونج کو اپنے دل کی گہرائیوں میں محسوس کرنے لگا ۔
حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے حضرت عمرؓ سے ان کے قبول اسلام کے بارے میں پوچھا ۔تو فرمایا !کہ میں’’حمزہؓ کے قبول اسلام کے تین روز بعد گھر سے نکلا تو مجھے ایک مخزومی نظر آیا۔ وہ باپ دادا کا دین چھوڑ کر مسلمان ہو چکا تھا۔ میں نے اس سے پوچھا کیا تومحمدؐکے دین میں شامل ہوچکا ہے ۔اس نے جواب دیا کہ اگر میں مسلمان ہوگیا توکیاہوا۔تم پہلے اپنے گھر کی خبر لو۔ تمہاری بہن فاطمہ اوربہنوئی سعید بھی تو مسلمان ہوچکے ہیں‘‘۔ فرمانے لگے کہ مجھے اس بارے میں علم نہیں تھا۔ یہ سن کر سخت غصہ بھی آیا اورافسوس بھی ۔پھر میں نے اپنی بہن کے گھر کا راستہ لیا اور وہاں پہنچ کر دروازے پر دستک دی۔ اندر سے کچھ پڑھنے کی آواز سنائی دی۔ دروازہ کھلاتو میں نے پوچھا کس کی آواز آرہی تھی۔ میری بہن نے کہا کوئی آواز نہیں تھی، ہمارے درمیان تکرار شروع ہوگیااور میں نے انہیں بری طرح پیٹا۔ یہاں تک کہ وہ لہولہان ہوگئے ۔اتنے میں میری بہن اُٹھی اور میرے سر کوپکڑ کر کہا کہ ۔’’سن لو! ہم لوگ مسلمان ہوچکے ہیں، تمہیں جو کرنا ہے کر لو، ہم جان دے دیںگے مگراسلام نہیں چھوڑیں گے۔‘‘ بہتا ہوا خون اوربہن کا عزم دیکھ کر مجھے شرمساری ہوئی کہ میں نے کیاکردیا۔ پھر اُن سے کہا کہ لائو مجھے بھی سنائو تم لوگ جو پڑھ رہے تھے۔فاطمہؓ نے قرآن کے اجزاء سامنے لا کر رکھ دئے۔اُٹھا کر پڑھنا شروع کیا تو ایک ایک لفظ دل میں اُترنے لگااور وہاں سے اُٹھ کر سیدھا درِ نبوت پر جا پہنچا۔ حضرت عمرؓ کو اندر آتے دیکھ کر رسول اللہؐ خود آگے بڑھے اور اُنکا دامن پکڑ کر فرمایا۔’’کیوں عُمر کس ارادے سے آئے ہو؟آ پ نے عرض کی کہ آپؐ پر ایمان لانے کیلئے آیا ہوں۔جب آپؐ نے سنا تو بے ساختہ اللہ اکبر پکاراٹھے ،ساتھ موجود تمام صحابہؓ نے بھی مل کر اللہ اکبر کا نعرہ بلند کیا اور آپ دین اسلام پر ایمان لے آئے۔
حضوراکرمؐ کی وفات کے بعد اُمتِ مسلمہ کی پاسبانی کا کام ایک پہاڑ سے بھی زیادہ بوجھل تھا۔ تاریخ بتاتی ہے کہ یہ ناقابل برداشت بوجھ اسلام کے دومخلص ترین فرزندوں نے متحد ہو کر اپنے کندھوں پراٹھا یا۔ اُن میں پہلی شخصیت سیدنا صدیق اکبرؓ کی تھی اوردوسری سیدنا فاروق اعظمؓ کی۔ آپ نے اپنے عہد خلافت میں ریاست کا ایک ایسا باکمال عملی نقشہ پیش کیا جس سے رہتی دنیا تک انسانیت مستفید ہوتی رہے گی۔ یہ آپ ہی کا عہد خلافت تھا جب باقاعدہ بیت المال قائم کیاگیا۔عدالتوں اور قاضیوں کا مکمل نظام رائج کیاگیا۔تاریخ و سن کا اجراء ہوا۔فوجی دفاتر، دفتر مال کا قیام عمل میں لایا گیا ۔امام، موذن ،معلم ،کی تنخواہیں مقرر  ہوئیں۔ اسکے علاوہ اراضی پیمائش، مردم شماری، ممالک مقبوضہ میں علاقوں کی تقسیم،مجرموں کے لئے  جیل خانہ جات کا قیام،محکمہ پولیس کا قیام ،چھائونیوں کا انتظام،جاسوسی و پرچہ نویسی جیسے امورآپ ہی کے زمانہ خلافت میں جاری و ساری ہوئے۔
 امیر المومنین سیدنا عمرؓ منصبِ خلافت سنبھالنے کے بعد یہ حکم دیا تھا کہ کوئی مشرک جو بالغ ہو، مدینہ میں داخل نہیں ہوسکتا۔اس سلسلہ میں حضرت مغیرہ بن شعبہؓ گورنر کوفہ نے آپ کو لکھاکہ یہاں فیروزنامی بہت ہوشیار نوجوان ہے جو نقاشی، نجاری اور آہن گری میں بڑی مہارت رکھتا ہے اگرآپ اُسے مدینہ میں داخلے کی اِجازت عطا کریں تووہ مسلمانوں کے بہت کام آئے گا۔ حضرت عمرؓ نے حکم دیا کہ اس کو بھیج دو۔ فیروز نے مدینہ پہنچ کر شکایت کی مغیرہ بن شعبہؓ نے مجھ پر بہت زیادہ ٹیکس لگا رکھا ہے ۔ حضرت عمرؓ نے پوچھا کہ کتنا ٹیکس ہے؟اس نے جواب دیا کہ دودرہم روزانہ۔حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ نقاشی، نجاری اور آہن گری کی صنعتوں کے مقابلے میں یہ رقم تو کافی ہے۔ فیروز کے لیے یہ جواب نا قابل برداشت تھا۔وہ عناد سے لبریز ہوکر دانت پیستا ہوا واپس چلا گیا۔ چند روز بعد حضرت عمرؓ نے اسے پھر یاد فرمایا۔ اُس نے بڑی ترش کلامی کا مظاہرہ کیا ،جس پر حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ ’’ یہ شخص مجھے قتل کی دھمکی دے کرگیا ہے‘‘ 
دوسرے ہی روز ابولولو فیروز مجوسی ایک دودھارا خنجر آستین میں چھپائے ہوئے صبح سویرے مسجد نبویؓ کے گوشے میں آبیٹھا۔  خدائی فیصلہ آچکا تھا۔ نماز شروع ہوئی اتنے میں فیروز مجوسی نے دفعتہ گھات لگا کر سیدنا فاروق اعظمؓ پرچھ وار کئے۔ حضرت عبد الرحمن بن عوفؓ نے اس حالت میں نماز پڑھائی کہ امیر المومنین سامنے پڑے تڑپ رہے تھے۔فیروز نے اور بھی کئی صحابہ کرامؓ کو زخمی کیا۔ حضرت فاروق اعظمؓ کو اٹھا کر گھر لایا گیا۔ لوگوں کا خیال تھا کہ زخم زیادہ گہرے نہیں ،جلد شفایاب ہوجائیں گے، چنانچہ طبیب کوبلایا گیا۔ اس نے نبیذ اور دودھ بھی پلایا۔ مگر حضرت عمرؓ یکم محرم۲۴ھ کو داعی ء اجل کو لبیک کہہ کر شہادت کے منصب پر فائز ہو گئے۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ نے جسد خاکی کوغسل دیا اورحضرت صہیب رومیؓ نے آپ کی نماز جنازہ پڑھائی، حضرت عبداللہ بن عمرؓ، عثمان بن عفانؓ، سعید بن زیدؓ، اورعبدالرحمان بن عوفؓ نے آپ کوقبر میں اُتارا۔ 
   آپ کی سادگی اور انکساری بھی بے مثال تھی جس کا اندازہ اس واقعہ سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے جب مسلمانوں سے جنگ کے لئے یزدگرد (شہنشاہ ایران )نے اپنے انتہائی شان وشوکت والے سپہ سالار ’’ہر مزان‘‘ کو بھیجا ۔جنگ میں ہر مزان نے اِس شرط پر ہتھیار ڈالے کہ اُسے صحیح سلامت مدینہ میں پہنچا دیا جائے پھر وہاں حضرت عمرؓ جو بھی فیصلہ کریںگے اُسے قبول ہوگا۔ چنانچہ ہر مزان بڑی شان وشوکت کے ساتھ روانہ ہوا۔ بڑے بڑے ایرانی رئیس اسکے ہمرکاب تھے۔ جب مدینہ کے قریب پہنچے تواس نے تاج مرصع سر پر رکھا۔ دیبا کی قبا زیب بدن کی اورشاہانہ جاہ وجلال کے ساتھ مدینہ میں داخل ہوا۔ مسجد نبویؐ کے قریب پہنچ کر پوچھا گیا کہ امیر المومنین کہاں ملیں گے؟ (ایرانیوں کا خیال تھا کہ جس کے دبدبے نے دنیا میں غلغلہ ڈال رکھا ہے اس کا کاروبار بھی بڑے سازو سامان کا ہوگا،جواہرات سے جڑا ہوا تخت ہوگا، ہر طرف درباری ہوں گے،عالی شان محل ہوگا ۔ لیکن وہاں موجود ایک شخص نے اشارہ کر کے بتایا کہ وہ ہیں امیر المومنین ،جب اُن لوگوں کی نظر پڑی توحضرت عمرؓ کو صحن مسجد نبوی ﷺمیں خاک پر لیٹے ہوئے پایا۔


وہ آدھی دنیا کا حکمران تھا وہ حکمران بھی مگر کہاں تھا
پھرتی موجوں پہ حق پرستوں کی سادہ کشنی کا بادباں تھا
اُبھرتے سورج سے تاج مانگا سمندروں سے خراج مانگا
کسے خبر ہے کہ اُسکا سکہ جہاں میں جاری کہاں کہاں تھا
 
    جنگ قادسیہ کا میدان گرم تھا۔ شہنشاہ ِایران نے آخری طاقتیں میدان جنگ میں جھونک دی تھیں۔ جنگ کی شدتِ بلاخیزی کا اندازہ یہاں لگایا جاسکتا ہے کہ صرف ایک دن کے معرکہ میں دس ہزار ایرانی مارے گئے اور دوہزار مسلمان منصبِ شہادت پر فائز ہوئے۔ اور دوران جنگ میں حضرت عمرؓ کا یہ حال تھا کہ جب سے قادسیہ کا معرکہ شروع ہوا تھا۔ آپؓ ہر روز طلوع آفتاب کے ساتھ مدینہ سے نکل جاتے اورکسی درخت کے نیچے اکیلے کھڑے قاصد کی راہ تکتے رہتے۔ جب قاصد فتح کی خبر لایا تو آپؓ اس وقت بھی باہر کھڑے انتظار کر رہے تھے۔ جب معلوم ہو کہ سعدؓ کا قاصد ہے تو آپؓ نے حالات پوچھنے شروع کر دیئے۔ قاصد اونٹ بھگائے جاتا تھا اورحالات بیان کرتا جاتا تھا۔ حضرت عمرؓ رکاب کے ساتھ دوڑتے جارہے تھے۔ جب شہر کے اندر لوگوں نے انہیں امیر المومنین کہہ کر پکارنا شروع کیا تو قاصد حیرت زدہ رہ گیا کہ آپؓ ہی رسولﷺ کے جانشین ہیں۔ اب قاصد کہتا تھا کہ امیر المومنین آپؓ نے اپنا نام کیوں نہ بتایا کہ میں اس گستاخی کا مرتکب نہ ہوتا۔ مگر آپؓ نے فرمایا کہ تم اپنی اصل بات جاری رکھو۔ قاصد بیان کرتا گیا۔ اورامیر المومنین اسی طرح رکاب کے ساتھ چل کر گھر تشریف لے گئے۔ یہ تھی حضرت فاروق اعظمؓ کی روزانہ کی زندگی، اللہ کا خوف، مسلمانوں کی بے پناہ خدمت، عدل وانصاف کی فراہمی، شب وروز کی بے پناہ مصروفیات۔ ان سب کے باوجود بھی کبھی پائوں پھیلا کر نہ سوئے تھے۔ ایک وقت بھی سیر ہو کر نہ کھاتے تھے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ جسم روز بروزنحیف ہوتا گیا۔ بڑھاپے سے پہلے پڑھاپا محسوس ہونے لگا۔ اُن ایام میں اکثر فرمایا کرتے تھے کہ’’ اگر کوئی دوسرا شخص بارِخلافت اٹھا سکتا توخلیفہ بننے کی بجائے میرے لیے یہ زیادہ آسان تھا کہ گردن اڑا دی جاتی‘‘۔
 آپؓ روم و ایران کے بادشاہ بن چکے تھے مگر پھر بھی آپؓ سے فقر وفاقہ کی زندگی نہ چھوٹی۔ قریبی رفقاء بھی اس بات کو محسوس کرتے تھے۔ مگر آپ راضی برضا تھے۔ ایک مرتبہ آپؓ کی صاحبزادی اُم المومنین حضرت حفصہؓنے جرات کر کے یہ کہہ ہی دیا کہ’’ والد محترم! اللہ نے آپؓ کو بہت بڑا درجہ دیا ہے ،آپؓ کو اچھے لباس اور اچھی غذا سے پرہیز نہ کرنا چاہیے۔ آپؓ نے ارشاد فرمایا۔ ’’ائے میری بیٹی! لگتا ہے کہ تم رسولﷺ کے فقروفاقہ کو بھول گئی ہو۔ خدا کی قسم! میں انہیں کے نقش قدم پر چلوں گا۔ اس کے بعد آپؓ نے حضور اکرمؐ کی تنگدستی کا ذکر شروع کردیا۔ یہاں تک کہ حضرت حفصہؓ آبدیدہ ہو گئیں۔ 
حضرت عکرمہ بن خالدؓ فرماتے ہیں کہ حضرت عمرؓ پر جب کمزوری کے آثار شدت اختیار کرنے لگے تومسلمانوں کے ایک وفد نے مل کر عرض کی کہ’’ ائے امیر المومنین اگر آپؓ ذرا بہتر کھانا کھا لیا کریں تواللہ کے کام میں اور زیادہ قوی ہوجائیں گے‘‘۔ آپؓ نے پوچھا کیا یہ تمہاری ذاتی رائے ہے یا سب مسلمانوں کا یہی تقاضا ہے؟ عرض کیا یہ سب مسلمانوں کی متفقہ رائے ہے۔ فرمایا! میں تمہاری خیرخواہی کا مشکور ہوں۔ مگر میں اپنے دوپیش رئووںکی شاہراہ ترک نہیں کرسکتا۔ مجھے اُن کی ہم نشینی یہاں کی لذتوں سے زیادہ عزیز ہے۔ 
 چنانچہ۲۳ھ تھی کرمان، سجستان، مکران اوراصفہان کے علاقے فتح ہوچکے تھے۔ اسلامی سلطنت کی حدود مصر سے بلوچستان تک وسیع ہوچکی تھیں۔ اسی سال آپؓ نے آخری حج فرمایا۔ حج سے تشریف لا تے ہوئے راہ میں ایک مقام پر ٹھہر گئے۔ پتھروں پر ہی چادر بچھائی اورلیٹ گئے پھر آسمان کی طرف ہاتھ اُٹھائے اوردعا کرنے لگے اے میرے رب! اب میری عمر زیادہ ہوگئی ہے میری قوت کمزور پڑنے لگی ہے۔ اوررعایا ہر جگہ پھیل چکی ہے۔ اب تومجھے اس حالت میں اُٹھالے کہ میرے اعمال برباد نہ ہوں اور میری عمر کا پیمانہ اعتدال سے متجاوز نہ کرے۔ 
 حضرت کعب احبارؓ فرماتے ہیں !میں نے کہا کہ تورات میں پڑھ چکا ہوں کے آپؓ شہید ہوںگے، آپؓ نے فرمایا یہ کیسے ممکن ہے کہ عرب میں رہتے ہوئے میں شہید ہو جائوں؟ پھر دعا فرمائی ائے اللہ! مجھے اپنے راستوں میں شہادت عطا کر اوراپنے محبوب کے مدینے کی حدود کے اندر پیغام اجل بھیج۔ 
ایک دن آپؓ خطبہ جمعہ میں ارشاد فرماتے ہیں کہ میں نے خواب دیکھا ہے کہ ایک مرغ آیا ہے اورمجھے جونچیں ماررہا ہے۔ اسکی تعبیر یہی ہوسکتی ہے کہ اب مجھ پر موت کا زمانہ قریب آگیا ہے۔ پھر فرماتے ہیں کہ یادرکھو ! میں موت کا مالک ہوں نہ دین اورخلافت کا، خداتعالیٰ اپنے دین اورخلافت کا خود ذمہ دار اور محافظ ہے ،وہ انہیں کبھی ضائع نہیں کرے گا۔ 
 بستر ناگہاں پر گر پڑے تومسلمانوں کو پہلی مرتبہ اپنی بے بسی کا ،اسلام کی تنہائی کا احساس ہوا اب ہر مسلمان کو اس ہی بات کی فکر تھی کہ سیدنا عمرؓ کے بعد اس اُمت کا محافظ کون ہوگا؟
  حضرت عمرؓ خود بھی صاحب نظر، اورگہری سوچ کے مالک تھے۔ لہذا آپؓ مسلمانوں کے اندر پائے جانے والے اضطراب کو بھانپ چکے تھے۔ آخر آپؓ نے فرمایا کہ ؛’’جب میں اس دنیا سے چلا جائوں تومیرے بعد عثمانؓ، علیؓ، طلحہؓ، زبیرؓ، عبدالرحمن عوفؓ، اور سعد بن وقاصؓ میں سے جس پر تم سب کومتفق پائو اس کو خلیفہ منتخب کرلینا‘‘۔ پھر آپؓ نے اپنے بیٹے حضرت عبداللہ کوبلا کر فرمایا کہ میری ایک آخری تمنا ہے۔ تم اُم المومنین حضرت عائشہؓ کے پاس جائو اور ان سے گذراش کرو !عمرؓ چاہتا ہے کہ اسے اپنے دورفیقوں کے پاس دفن ہونے کی اجازت دی جائے۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ نے آپؓ کا پیغام اُم المومنین حضرت عائشہؓ تک پہنچایا تووہ سن کر انتہائی درد مند ہوئیں اورفرمایا کہ یہ جگہ میں نے اپنے لئے رکھی تھی۔ ’’مگر آج میں اپنی ذات پر عمرؓ کو ترجیح دیتی ہوں‘‘ ایک وقت تھا جب مجھ سے میرے اہل و عیال نے رُخ موڑ لیا تھا۔پورے مدینے میں ایک پریشانی کا عالم تھا۔ایسا لگتا تھا کہ مجھ سے ہر چیز روٹھ گئی ہو۔مگرعمرؓ نے اس وقت بھی حق کا ساتھ دیا اوردربار رسول ﷺمیں میری پاکدامنی کی گواہی اس انداز میں دی کہ عرش وفرش پرچرچے ہوگئے۔ 
جب بیٹے نے آپؓ کوحضرت عائشہ کی منظوری کی اطلاع دی تو بے حد خوشی کااظہار فرمایا۔ اوراس آرزو کی قبولیت پرشکر ادا کرنے لگے۔ اور پھر اپنے بیٹے عبداللہ بن عمرؓ سے فرمایا کہ’’ میرا سرتکیہ سے اٹھا کر نیچے خاک پر رکھ دو شاید میرا اللہ میرے خاک آلود سر کی وجہ سے مجھ پر رحم فرمائے۔ پھر فرمایاکہ جب میں مر جائوں تومیری آنکھیں بند کردینا اورمیرے کفن میں سادگی اور قبر میں اختصار کرنا ،اگر میں اللہ کے ہاں مقبول ہوں گا تو مجھے کفن سے بہتر لباس اور قبر کے اِختصار کی جگہ جنت کی کشادگی عطا فرمائے گا۔ اورپھر اس عظیم انسان کی روح قفسِ عنصری سے پرواز کرگئی۔ تاریخ اسلام کا ایک عظیم باب ہمیشہ کے لیے بند ہوگیا۔ اتوار کا دن تھا۔

دس سال پانچ ماہ اوراکیس دن عرب وعجم پرحکومت کرنے والے شخصیت کو سلام عقیدت پیش کرناشاید قلم کے بس میں نہ ہو۔ مگر سیرت عمرؓ کا خوشہ چین ہونے کی حثیت سے اتنا ضرور کہا جا سکتا ہے کہ۔ 
غرض میں کیا کہوں تم سے وہ صحرانشین کیاتھا
جہاں بانی وجہاں گیروجہاں دار وجہاںآراء
اگرچاہوں تو نقشہ کھینچ کر الفاظ میں رکھ دوں
مگر تیرے تصور سے فزوں ترہے وہ نظارا
( ختم شد)

ای پیپر دی نیشن