لاہور (آئی این پی+نوائے وقت رپورٹ) شہباز شریف نے پی ٹی آئی حکومت کے تین سال کو عوامی استحصال کے بدترین سال قرار دے دئیے اور کہا ہے کہ عوام آج تین سال پہلے کے پاکستان کو حسرت سے یاد کررہے ہیں۔ نوازشریف دور کی 5.8 فیصد کی ترقی، 3 فیصد مہنگائی، 35 روپے آٹا، 52 روپے کلو چینی سب یاد آرہا ہے۔ نوازشریف نے معیشت کو پیروں پر کھڑا کیا۔ آئی ایم ایف کو خداحافظ کہا، سی پیک دیا، روزگار، کاروبار دیا۔ قوم کو بجلی، گیس کے اندھیروں سے نکالا۔ بجلی، گیس اور کھانے پینے کی قیمتیں بھی نہ بڑھائیں۔ تین سال میں یہ تبدیلی آئی کہ پاکستان کو دنیا کا مہنگا ترین ملک بنادیا۔ افسوس صد افسوس۔ پی ٹی آئی کے تین سال منافع خوروں، ذخیرہ اندوزوں اور مافیاز کے لئے کھائو پیو مزے اڑائو کے سال ثابت ہوئے۔ ’’تبدیلی‘‘ کے تین سال غریب عوام کے لئے ظلم کی تین صدیاں بن گئے۔ مہنگائی نے ان کا زندگی کا سکھ چین چھین لیا۔ تین سال میں عوام کو صرف مہنگائی، کرپشن اور مایوسی ملی۔ تین سال میں ملک اور عوام کی قسمت کھوٹی کردی گئی۔ مزدور، ریڑھی والے سے لے کر صنعتکار تک سب ہاتھ مل رہے ہیں۔ مہنگائی نے عوام کو کچل کر رکھ دیا۔ ٹیکسوں کی بھرمار نے کاروبار کی جان نکال دی۔ نیشنل پرائس مانیٹرنگ کمیٹیوں کے اجلاس ہوئے لیکن قیمتیں کم کرنے کے لئے عمل درآمد نہ ہوسکا۔ آٹے، گندم، چینی کی برآمد اور درآمد سے عوام کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا گیا۔ پٹرول، بجلی، گیس، دوا، سبزی، خوردنی تیل گھی تک ہر چیز مہنگی اور عوام کی پہنچ سے باہر ہوگئی۔ نئے پاکستان کے دعویداروں نے عوام کو کنگال اور مقروض کردیا ۔ ملک پر بدترین 16000 ارب سے زائد قرض بڑھ گیا۔ فی کس آمدن کم ہوگئی۔ بے روزگاری تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی۔ روپے کی قدر میں تاریخی کمی کے باوجود برآمدات نہ بڑھ سکیں۔ ایک کروڑ نوکری ملی نہ پچاس لاکھ گھر۔ پچاس لاکھ لو گ بے روزگار اور دو کروڑ خط غربت سے نیچے چلے گئے۔ تین سال پہلے عوام کو دکھائے جانے والے سہانے خوابوں کی تعبیر انتہائی ڈرائونی اور وحشت ناک نکلی۔ تین سال میں معیشت چلی نہ کاروبار، نہ تعلیم صحت بہتر ہوئی نہ روزگار۔ آٹا چینی سستا ہوا نہ ہی دوائی اور علاج۔ عالمی دنیا نے پاکستان کو کرپشن، بدعنوانی اور رشوت ستانی میں ترقی کا سرٹیفکیٹ دیا۔ علاوہ ازیں شہبازشریف نے افغانستان کی صورتحال پر ان کیمرہ اجلاس بلانے کا مطالبہ کیا ہے۔ شہباز شریف نے کہا ہے کہ پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلاکر درپیش صورتحال پر غور کیا جائے۔ افغانستان کی صورتحال کے پورے خطے پر اثرات ہوں گے۔ قومی اتفاق رائے اور ایک بیانیہ ناگزیر ہے ۔ قومی مفادات کا تقاضا ہے کہ سٹیک ہولڈرز کو ایک پیج پر لیا جائے۔