اگست ہر سال آتا ہے جہاں ہم آزادی کا جشن مناتے ہی۔ وہیں پرانے زخم بھی ہرے ہو جاتے ہیں۔ بالخصوص جن لوگوں نے وہ وقت دیکھا ہے، وہ مظالم برداشت کیے یا ہجرت کی تکلیف برداشت کی ہے، پیاروں کی لاشوں کو دیکھا ہے۔ ان سب کے لیے اگست ذرا مختلف مہینہ ہے۔ جہاں انہیں پیاروں کی جدائی کا غم کھاتا ہے وہیں وطن عزیز کی حالت دیکھ کر روتے ہیں۔ کیونکہ یہ حقیقت ہے آج کا پاکستان اقبال اور قائد کا پاکستان تو ہرگز نہیں ہے۔ وہ خواب پورے نہیں ہوئے، جس پاکستان کے لیے قربانیاں دی تھیں یہ وہ پاکستان ہرگز نہیں ہے لیکن پھر بھی باعث اطمینان ہے کہ ہم ایک آزاد ملک کے شہری ہیں۔ اپنے ملک میں اپنی مرضی کرتے ہیں، کوئی روک ٹوک نہیں ہے۔ کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔ ہم آزاد ہیں اور یہی سب سے بڑی نعمت ہے۔ ہم آزاد زندگی سے لطف اندوز ہو رہے ہیں لیکن اسلام دشمنوں کو ہماری آزادی ایک آنکھ نہیں بھاتی۔ دشمن ہمیں نقصان پہنچانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتا۔ ہمیں متحد ہو کر دشمن کی سازشوں کو ناکام بنانا ہے۔ دشمن ہمارے اندر بھی ہے اور باہر بھی، دشمن کا ہدف ہماری بہادر افواج ہیں۔ فوج ہماری آزادی کی محافظ ہے، مضبوط فوج ہی دشمنوں کی سازشوں کا مقابلہ کر سکتی ہے۔ ہمیں آزادی کے ساتھ ساتھ آزادی کے محافظوں کی بھی قدر کرنی چاہیے۔ ماضی قریب میں کئی ایسی مثالیں نظر آتی ہیں جہاں کمزور فوج کی وجہ سے ملک تباہ ہوئے، دشمنوں کا مقابلہ نہ کیا۔ پاکستان کے گرد دشمنوں کا گھیرا تنگ ہو رہا ہے ان حالات میں ہمیں ہر لحاظ سے اپنی افواج کے شانہ بشانہ کام کرنا ہو گا۔ ہمیں آنے والی نسلوں کو ایک آزاد، خود مختار اور ترقی یافتہ پاکستان دے کر جانا ہے۔ آزادی کے مہینے کی مناسبت سے چودھری اقبال الدین احمد نے لندن سے اپنی یادیں لکھی ہیں وہ قارئین کی نذر ہیں۔
درج ذیل 1947 میں انڈیا کو دیدئے گئے مشرقی پنجاب سے مغربی پنجاب یعنی موجودہ پاکستان کو نقل مکانی /مائیگریشن کی لفظ بلفظ اور حقائق پر لکھی گئی' آپ بیتی' ہے جسے موضع 'چک کر ماں' تحصیل روپڑ/اب ضلع روپ نگر کے 'منشی' فضل ا لدین نے 1950/51میں مغربی پنجاب ، پاکستان، پہنچ کر قلم بند کیا۔خاکسار نے لندن میں رہائش پذیر اپنے بچوں اورخاندان کے دوسرے افراد تک ان حقائق کو پہنچانے کے لئے اس کا ترجمہ انگلش میں بھی کردیا تھا۔منشی فضل ا لدین کا تعلق بمقام 'چک کرماں' تحصیل روپڑ/اب ضلع روپ نگر سے تھا اور 20/30کی دہائی میں وہ 21سال تک پولیس میں 'منشی' محرر کی حیثیت میں کام کرتے رہے تھے۔محر ر یا منشی ایف آئی آر لکھنے والے کو کہتے ہیں۔ اس ملازمت کے دوران اپنی ٹرانسفر پران انہیں روپڑ ،انبالہ، کھرڑ، چنڈی گڑھ ، اور شملہ وغیرہ بھی رہنا پڑا۔ پھر ملازمت چھوڑ کر ایکٹنگ ذیلدار بھی رہے تھے۔ان کے چچیرے بھائی چودھری علی محمد گاؤں کے نمبردار تھے جنہیں عام طور پر 'طو ْطو'نمبردار کہتے تھے۔منشی فضل الدین لکھتے ہیں کہ:جیسیہی حدود مقرر ہوئیں اور ہمارے ہاں جگہ جگہ کانگرس کے جھنڈے لگے ، پنجاب کیبارہ اضلاع ہندوستان میں آگئے، گورداسپور، ،ہوشیارپور۔امرتسر اور فیروز پور وغیرہ ہندوستان میں چلے گئے ، بس پھر کیا تھا ، پیروں تلے کی زمین نکل گئی۔ میرے دل میں یہ خیال جم گیا کہ اب ضرور پاکستان جا نا پڑیگا ، مگر یہ کہ سمجھوتے کے ساتھ سہولت سے جائیں گے۔ ادھر راستے دن بدن خطر ناک ہوتے چلے جا رہے تھے۔ لیکن یہ بھی سنا جا رہا تھا کہ حکومت انتظام کر رہی ہے۔ اگر مسلمان ہندوستان میں ہونگے تو حکومت کا یہ فرض تو نہیں بنتا کہ ان کے ساتھ نا انصافی کریں۔ مگر توبہ الٰہی ان لوگوں کے دلوں میں اس قدر بغض تھا جو پّکے ہوئے پھوڑے کی طرح یکلخت نکل پڑا۔ہمارے گردو نواح میں ترچھی نگاح سے ایک دوسرے کو دیکھا جانے لگا۔ راولپنڈی وغیرہ کی جانب سے سکھ لوگ امن میں آنا شروع ہو گئے اور ہندووں میں جا کر طرح طرح کا پروپیگنڈہ کرنے لگ گئے جس سے ہر روز نئی آگ بھڑکنا شروع ہو گئی۔ ساتھ ہی حکومت کی جانب سے امن کمیٹیاں بھی بنتی رہیں مگر سب فرضی۔ پھر ہم حصہ ضلع/ڈسٹرکٹ آفیسر کو ملے جو ذات کا برہمن تھا۔ اس نے پوری تسلیّ کرائی کہ جو گائوں شرارت کریگا میں اسے توپ سے اڑادوں گا۔ یہ غنڈوں کی شرارتیں ہیں ، امن سے بیٹھے رہو۔رمضان شریف ہو چکا ، نئی نئی لاثانی مسجد تعمیر کر وائی۔ خطرہ ضرور تھا۔ ایک لاکھ دفعہ آیت کریمہ ختم کری۔ مگررات بھر تمام ہندو مسلم دیہات میں پہریداروں کے الاپ رہتے۔ اور جاگ کر رات کاٹی جاتی۔ دن میں نئے نئے سنیہے سننے میں آتے۔آخر عید آ گئی ۔عید کے دن عید پڑھ کر جب ہم لوگ گھر پہنچ گئے تو دیکھا کہ دریا پار )دریائے ستلج( آگ لگی ہوئی ہے اور اتنی لگی کہ تمام گاؤں میں پھیل گئی۔ دوسرے،گاؤں میں، تیسرَ میں، اسی طرح دھڑا دھڑ دھواں دھار ہو رہا تھا۔ چونکہ ہم لوگ سطح زمین سے بہت اونچے آباد تھے اس واسطے دْونی یعنی ضلع ہوشیارپور کے بہت سے گاؤں صاف دکھائی دیا کرتے تھے۔ دل میں پوری تسلی ہو گئی کہ سکھ لوگ آگ لگا رہے ہیں اور تمام گاؤں جل گئے۔ وہاں سے لوگ باگ ہر سامان چھوڑ چھاڑ دریا سے گزر آئے۔ڈسٹرکٹ افسرسے دوسری ملاقات: جب یہ واقع دیکھا تو پھراس صاحب ڈسٹرکٹ آفیسر کو ملے اس نے ایسی تسلی کرائی کہ 'میں ابھی فوج کا ایک دستہ دریا کے کنارے پر پکٹ پہرہ لگانے کے لئے بھیج آیا ہوں۔آپ بے فکر رہیں ہم ان ڈاکووں کو کبھی ادھرآنے کا موقع نہیں دیں گے۔دو دن، چار دن، گذر گئے وہ جو گاؤں جلائے گئے تھے اور لوگ اجڑ گئے تحے بیچارے کسی نے واپس نہین بلائے۔ نہ ہی کسی گورنمنٹ نے فریاد سنی۔ دل میں ٹھن گئی کہ اب ہماری کوئی گورنمنٹ نہیں رہی۔ پھر ڈسٹرکٹ آفیسر کو ملنے گئے۔ جب روپڑ والی نہر کے پل پر پہنچے تو معلوم ہوا کہ راستہ بند ہے۔ واپس لوٹ کر آئے سٹیشن کے پاس دو آفیسرملے۔ ہمیں بلایا اور کہا 'چودھریو کیسے حیران و پریشان پھر رہے ہو۔ آج مسلمانوں کے لئے سپیشل لگنے والی ہے۔ بلوچ ملٹری آگئی ہے۔ جلد ازجلد اپنے آپ کو اسکے حوالے کردو اور پاکستان کو تشریف لے جاؤ۔ ہم لوگ بلوچ ملٹری دیکھنے گئے مگروہاں کچھ بھی نہ تھا ؛ اگر تھی تو ہندو ملٹری۔ ہم لوگ ساتھ والے گاؤں سدابرت آئے۔ راستے میں بہت سی گاڑیاں خون سے لتھڑی ہوئی دیکھی گئیں۔ راستے میں گولیوں کی آوازیں سنائی دیں لیکن ہم لوگون نے کچھ محسوس نہیں کیا۔ سدابرت پہنچے تو پیچھے سے کسی نے آکر کہا کہ ایک بہت بڑا سکھوں کا جتھاابھی گاڑی سے اترا ہے اور ان کے پاس بہت سی بندوقیں ، نیزے اور برچھے ہیں۔ گاڑی اترتے ہی فائرنگ شرع کر دی اور 'سدا سکھ' کی سرائے کو چلے گئے۔لہٰذا ہم نے وہاں روٹی کھائی اور بہت روئے اور وہاں سے چل دئے۔ راستہ میںکسی نے آواز دیکر ہاتھ ہلایا کہ بھاگ جاؤ ، چنانچہ ہم لوگ ملک پور سے ہوتے ہوئے گھر پہنچ گئے۔ہمارا گاؤں ایک مرکز: دوسرے دن سدا برت والے بھی آ گئے اور پتہ چلا کہ رات بھر روپڑ شہر میں گولی چلتی رہی اور تمام شہر تباہ و برباف کر دیا۔ ہم لوگ اپنے درو دیوار کو حسرت کی نگاہ ء سے دیکھ دیکھ کر رو رہے تھے۔ اور ہمارے گاؤں میں ارد گرد کے تمام گاؤں اکٹھے ہو گئے۔ چونکہ ان لوگوں کا خیال تھا کہ اس گاؤںکو مورچہ بنایا جائے۔ کوٹھوں پر پتھر جمع کر کے رکھ لئے اور ہتھیاربھی تیار کر وائے۔مگر روپڑ کی خبر یں سْن کرسب کے دل گر گئے اور رات کو نکلنے کی تیاریاں کرنے لگ گئے اور معمولی سا سامان اٹھا کر تمام دنیا 'بن' یعنی جنگل میں چلی گئی اور گھنولی گردوارے کی ٹھا ہ ٹھاہ سننے لگے۔ خیال تھا کہ شاید ہمارے گاؤں کو آگ لگانے کی تیاریاں کریں مگرہم لوگ سب کے سب باہرآگئے تھے۔ صرف ایک ْکتا تھا جو بھوکا پیاسا کوٹھے پر بھونکتا رہا۔ ایک دن صبح صبح ہی پتہ چلا کہ' دْگری 'سے مولوی عبد ا للہ کا آدمی آیا ہے کہ آج گاڑی پاکستان جائیگی۔ تم سب لوگ تیار ہو کر آجاؤ۔ چنانچہ ہمارے چولہے پرسیویاں دہری ہوئی تھیں ، وہ اسی طرح چھوڑ اور بھینس کا رسّہ کھول اور 'بن'/ مقامی جنگل/شاملات/forest میں جہاں وہ لوگ جا بیٹھے تھے ،سب کپڑے لْٹا ، صرف مختصر سے کپڑیلپیٹ، ٹرنک وغیرہ سب چھوڑ، بغچہ باندھ کر اکیلا تیار ہو گیا۔ اور نمبردار) یعنی چچا نمبردار صاحب (روکنے لگا اور کئی آدمی 'منسالی' گاؤں تک کے گرد ہو گئے کہ ابھی دیکھو کیا ہوتا ہے، ٹھہرا ہی لیا خیر میں نے اپنی ' ٹبیوں'/شاملات/لوکل جنگل میں 'کرم ا للہ والی' کی چوٹی پر خیمہ گاڑ دیا۔ چنانچہ تمام گاؤں اسی 'چو' میں آکر ٹھہر گیا )'چو' کا مطلب ہے پانی کی تنگ گذرگاہ (اور بڑی اور چھوٹی 'مکوڑی' والے ) 'مکوڑی' گاؤں کا نام (، 'بیلی' والے 'چو' میں ٹھہرے ، ساہو ماجرہ اور کئی ایک دوسرے ریاست تک کے گاؤں والے ' 'پھلائی 'والے چو 'میں ٹھہرے۔ بارش کثرت سے برسنے لگی۔ فصلوں کو لوگ باگ اجاڑنے لگے۔ چھلیا ں پک گئی تھیں۔رات کو بڑے ٹیلے پر پہرہ لگا دیا کرتے تھے۔ کچھ لوگ 'ساہو ماجرہ والے اپنے ہی 'بن' یعنی شاملات میں ٹھہر گئے۔
سکھوں کا حملہ: ایک دن ان لوگوں نے آوازیں دیں۔ معلوم ہوا کہ سکھوں نے حملہ کر دیا ہے۔ خیر ایک مسلمان کے گولی لگی۔ اور کئی سکھ نیزوں سے ہی مار دئے گئے۔ ریاست نالا گڑھ میں قتل عام: اس جنگل کیدوسرے سرے پر لیکن کئی میل کے فاصلے پر ریاست نالا گڑھ میں بھی آگ لگنا شروع ہو گئی تھی ہم نے اپنے بیلوں کی جوڑی اپنے رشتہ داروں کے ہاں اس ریاست میں پہنچا دی تھی۔ خیال یہ تھا کہ چونکہ ریاست میں الیکشن نہیں ہوئے تحے اس لئ َ یہاں گڑ بڑ نہ ہوگی۔ حْکم دین موضع بھانگلاں والا اپنی بہن 'بسّے ' کو بھی لے گیا اور اس کا سب سامان وہیں تھا۔ اور بھی بہت سے لوگ ریاست میں جا گھسے تھے۔ مگر وہاں ریاست کے مسلمانوں کو موضع بھوگپور اور بھانگلاں کے درمیان اکٹھا کر لیا گیا اور ایسی گت بنی کہ بہت ہی کشت و خون ہوا اور یہ لوگ راتوں کو نکل کر پہاڑوں کو چیر کر پھر واپس آئے۔ اور بہت سی عورتیں سکھ چھین کر لے گئے۔ یہاں بھی سکھوں کا حملہ :جب کئی دن وہاں یعنی کرم اللہ والی میں رہتے ہوئے ہو گئے تو سکھوں نے مل کر ایک حملہ 'بڑی والی کھول'کی طرف سے اور ایک ادھر 'منسالی والی کھول' میں 'لکھن پور' گاؤں وغیرہ تہہ و بالا کر کے ہم لوگوں پر بھی حملہ کر دیا۔ اس سے ایک دن پہلے 'نالا گڑھ'کا قافلہ آ چکا تھا جس میں 'ساؤڑی 'والے )ہمارے رشتہ دار( نہیں آئے۔ معلوم ہوا کہ وہ لوگ ہندو ہونے پر رضا مند ہو گئے ہیں اور راجے نے ان کو اپنے محل میں جگہ دیدی ہے چونکہ خاندان کا بڑ ا چودحری جماک دین راجے کا پٹواری تھا۔ چنانچہ مجھے سخت افسوس ہوا۔ جو قافلہ نالا گڑھ سے آیا تھا اس کے پاس ایک پستول بھی تھا۔سکھوں نے کئی عورتیں اغوا کر کے ہمراہ لی ہوئی تھیں۔ حملہ کے وقت وہ سب عورتیں ہمراہ تھیں۔ کئی ایک خیموں کو آگ لگا دی۔ لوگ باگ باہر کھیتوں میں گئے ہوئے تھے اور ہم لوگ ) یعنی وہ خود اور ان کے کزن نمبردار صاحب بھی ( 'ملک پور' گاؤں والے قافلے میں گئے ہوئے تھے جو درج بالا مولانا عبدللہ کی راہبری میں تھا۔ڈسٹرکٹ آفیسر کی وارننگ: ملک پور والے قافلے میں جانے پر، جہاں ڈسٹرکٹ آفیسر نے بلوائے تھے'اس نے آکر فوری چلے جانے کا حکم دیا اور کہا کہ اگر تم لوگ نہ گئے اور اپنے سامان کو عزیز سمجھا تو مر جاؤگے۔ چنانچہ وہاں سے واپس آکر جو دیکھا تو تمام دنیا وہاں سے اٹھ کر 'میاں کے مکان')ایک بزرگ کا مقبرہ( پر جمع ہو گئی تھی اور ہمارے گھر والے بھی وہیں پر آ گئے تھے۔ خیر ہم لوگ پھر وہاں پہنچیاور کچھ سامان اٹھا لیا، اس جنگ میں )یعنی درج بالا حملے میں(ہمارے گاؤں کا دین محمد فقیر شہید ہو ا۔ ایک عبد ا لعزیزولد غنی گجر ہمارے ہی گاؤں کا شہید ہوا۔ کرم دین ولد عنایت جس کے ہمراہ پسرم احمد دین تھا، وہ زخمی ہو گیا تھا۔) نوٹ:یہ سب لوگ ہمارے ہی گاؤں کے تھے(۔اور معلوم ہوا کہ سکھوں کے کئی آدمی مارے گئے جن میں چیدہ چیدہ آرمی افسران 'بھاکڑا سکیم' کے) دریائے ستلج میں سے بمقام 'بھاکڑا' سے ایک نہر نکالی جا رہی تھی ( مارے گئے۔ اور گھوڑی اور مسلمان عورتیں جنہیں وہ دوسری جگہ سے اٹھا کر لائے تھے چھین لی گئیں۔ان سکھوں کا تعاقب ' مانگو والے چو' تک کیا گیا۔ملک پور والے قافلے میں شمولیت:خیر، رات کو بارش بھی کہے کہ اب مجھے چھٹی ملی ہے۔ رات کاٹی۔ لیکن اتنا آدم تھا کہ تل دھرنے کو جگہ نہ تھی۔ خیر وہاں بھی تجویز ہوئی کہ اب تمام قافلہ یہاں سے اٹھ کر 'ملک پور' والے قافلے میں شامل ہو جائے۔ چنانچہ دوسرے دن ہم لوگ تمام قافلہ اٹھ کر اکٹھا ہو گیا جو تقریبا" بارہ ہزار نفوس کاتھا۔ ڈسٹرکٹ آفیسر اور فو جیوں کی دہمکی:اس دن بھی ڈسٹرکٹ آفیسرو دیگر فوجیوں نے آ کر یہ کہا کہ لوگو اپنی جانیں لے کر بھاگ جاؤ ورنہ پچھتاؤگے۔ مگر ' ملک پور 'والے لوگوں نے نہ مانا چونکہ ان لوگوں کے پاس کھانا دانا معقول تھا۔(جاری ہے)
مولانا عبد ا للہ )سکنہ 'دْگری'( کی راہبری میں موضع 'سنانا' کی پہاڑیوں میں معرکہ: پھر ہر روز صبح سے سکھ نیزے اور برچھے لے کر آنے شروع ہو جاتے اور مستو کے گنبد سے لیکرسنانے تک بفاصلہ دو میل جو کہ اونچی کوہ شوالک کی دھار ہے ،اس پر آکر کھڑے ہو جاتے اور شام کو واپس ہو جا تے۔ نمعلوم وہ ہماری راکھی کے واسطیآتے ، اور افسروں کے پاس شکایت بھی کیاکرتے کہ قافلہ نمعلوم کس طرف کو اٹھے اور تہہ و بالا کردے۔ چنانچہ ہماری نگرانی پر فوجی لگائے جاتے تھے اور ہم لوگوں نے بھی اپنے پہرے اونچے اونچے پہاڑوں پر لگا رکھے تھے۔ اناج وغیرہ کی کمی تھی۔ ہمارا خیمہ چودھری مولا بخش آف 'چرڑیاں ' ) بھائی احمدین کی پہلی بیوی عائشہ کے والد کا نام اور گاؤں کا نام( کے خیمہ کے پاس تھا اور گاؤں والے الگ تھے۔خیر اللہ کا احسان تھا کہ بارش خوب ہوئی تھی اور 'چو'/ندی میں پانی تھا۔ افسران نے بھی تاڑا کہ یہ لوگ بغیر اٹھائے نہیں اٹھیں گے۔ چنانچہ تمام دْور و نزدیک کے سکھ لوگ بلائے گئے اور حملے کا دن مقرر کیا گیا اور صبح سے سکھ لوگ جمع ہونا شروع ہو گئے۔ اس طرح جیسے کہ دکھن کی جانب سے گھٹا اٹھ رہی ہو۔ جب دن نے دس بجائے اور ادھر سے فائر ہونا شروع ہوئے۔ ادھر سے بھی مسلمانوں نے 'پرے کے پرے' جمائے اور مختلف مقاموں پر سامنے جا کھڑیہو ئے۔ اْدھر تو ایک تختہ بنا ہوا تھا اور سامنے ہر ایک کو نظر آ رہا تھا۔ ہمارے پاس بھی ایک پستول اور دو بندوقیں تھیں، مگران لوگوں کے پاس پکی رائفلیں تھیں۔ ان لوگوں نے بڑھنا شروع کیا۔ پہلا حملہ ان لوگوں نے 'لاڈہل' گاؤں کی جانب سے کیا جن کے مقابلے میں ایک معمولی دستہ تھا۔خیر اْدھر سے فائر شروع ہوا۔ ادھر سے بھی ایک آدھ فائر ہوا۔مگر مسلمانوں نے ناچار ہو کر 'پتھر'جو قدرتی ہتھیار تھا 'برسانے شروع کئے اور بڑے زورشورسے اور غصہ میں آکر بر سانے لگے۔ خدا کی حکمت وہ لوگ مقابلے میں تاب نہ لا سکے۔ چْونگی مانگی ہوئی فوج جان پر نہیں کھیلا کرتی ، پھر چمار چْوہڑے ! دْم دبا کر بھاگے اور واپس 'مستو کے گنبد' سے ہو کر اس لمبی فوج میں شامل ہوگئے اور پھر دوبارہ ایک زبردست حملہ شروع کیا۔ مگروہی پتھربازی شروع ہوئی۔ مولانا عبد ا للہ صاحب دْگری والے ، مگر عمر کے بہت چھوٹے تھے) قافلے کے امیر تھے (اور بڑی بہادری سے فرنٹ پر جا یا کرتے تھے۔ خیر، نیزہ بازی اور پتھر بازی نے ان لوگوں پر ہیبت جما دی اور بھا گڑ پڑ گئی۔ ان لوگوں نے )یعنی مسلمانوں نے( تعاقب کیا اور اْن کے بہت سے لوگ مارے گئے۔ ہمارے بھی دو تین آدمی شہید ہوئے اور تین چار کے قریب زخمی ہوئے۔ غرضیکہ ہندو اور سکھ بری طرح پچھاڑے گئے۔جب ہم لوگوں نے فتحیابی سنی تو اسی وقت سر بسجود ہو گئے اور اللہ اکبر کے نعروں سے جنگل گونج اٹھا۔ سب سے بڑی بات یہ تھی کہ جس وقت سکھ لوگ سامنے 'دھار' پر آکر کھڑَ ہوتے تھے یا کوئی قافلہ میں ان کے ' دھار' پر آنے پر آوازیں ہوتی تھیں تو عورتوں اور بچوں کے دل دہل جاتے تھے۔ چاروں طر ف سے ہائے ہائے کی آواز آتی تھی۔) نوٹ: مولانا عبد ا للہ انچارج تھے اور تمام جوانوں کو اکٹھا کرکے اگلی لائن میں لے جا یا کرتے تھے ، اس مقصد کے لئے وہ بعض دفعہ ٹینٹوں کے اندر بھی جھانکا کرتے تھے (۔
کورالی کنسنٹریشن کیمپ میں منتقل ہونے کا فیصلہ: آخر کار اب وقت کاٹنا مشکل ہو گیا اور حکومت نے بھی یہ تہیہ کر لیا کہ جب تک کوئی فوجی دستہ پٹیالہ وغیرہ سے آکر ان لوگوں پر گولی نہیں بر ساتا تب تک یہ لوگ درست نہیں ہوتے ، چنانچہ دوسرے روز ہم لوگونں نے یہ مشورہ کر کے فوجی افسروں سے اپنی
شکایت کری کہ اب ہم لوگ یہاں نہیں ٹھہریں گے۔ آپ لوگ اگر وعدہ کرتے ہو تو ہمارے سے گھوڑیاں لے لو اور نقد روپیہ بھی لو مگر ہم کو منزل مقصود پر بخیریت پہنچا دو )یعنی گورنمنٹ کے قائم کردہ کنسنٹریشن کیمپ اور جس کا نام 'کورالی کیمپ'تھا ، پہنچا دو۔ 'کورالی' بھی ایک قصبہ کا نام تھا(۔ چنانچہ ایک بڑا فوجی'جھولہ' روپوں کا بھر کر دیا۔ خدا معلوم کتنے روپئے تھے۔چونکہ مولوی صاحب کے پاس لوگوں نے بہت سا روپیہ جمع کر دیا تھا۔ اور زیورات بھی کافی تھے۔ چنانچہ فوجیوں نے یہ وعدہ کیا کہ 'دہرم' سے ہم لوگ تم کو بخیریت پہنچا دیں گے۔ چنانچہ کل تم لوگ تیار رہو۔) نوٹ: 'دہرم' سے کا مطلب ہے کہ 'ایمان کی قسم' ( قافلے میں منادی:ہم لوگوں نے تمام قافلہ میں منادی کرا دی۔ بارش زوروں پر تھی۔ دوسرے دن صبح ہی اٹھے اور روٹیاں پکوائیں، جتنا سامان اٹھا سکتے تھے اٹھایا اور چل پڑے۔ میں نے بہت ہی پکار کری کہ آگے رہنا کسی نے کہا نہ مانا۔ 'چوئے' ندی میں تمام قافلہ تھہرا لیا گیا۔ کہتے تو یوں تھے کہ تم کو آج بخیریت کورالی کیمپ میں پہنچا دیں گے مگر جونہی تلاشیاں ہونے لگیں فوجیوں نے فورا" ہی تیور بدل لئے اور جس کسی کے پاس روپیہ پیسہ بٹوے میں تھا سب کچھ چھیننے لگ گئے۔ چنانچہ میرا بھی تمام سامان پھولا۔ مگر کچھ نہیں لیا۔ آخر چل پڑے۔تھوڑی دور جا کر پھر ٹھہرا دئے۔ راستے میں سپاہی لوگوں کی جیبوں کو ٹٹولنے لگے۔ جس کسی کے پاس پیسہ پائی ملا وہ حتی ا لمقدور نہیں چھوڑا۔ میرے پاس بھی خاصی رقم 'اوور کوٹ 'گرم کے کالروں میں سی رکھی تھی۔ اچھے اچھے کپڑے ہم لوگوں نے گٹھڑیوں میں باندھ لئے تھے تا کہ یہ لوگ امیر خیال کر کے ْلوٹنے نہ لگ جا ویں۔ تمام زیورات و رقم محفوظ کر کے گٹھڑیوں میں باندھ لی اور مبلغ ۳۸' روپئے گھر والی کے کھیسے میں تھے۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ دراصل یہ ستر یعنی ۰۷' روپئے تھے۔ میرے سر پرپگڑی باندھی گئی تھی اور اس کے اوپر پکی ہوئی روٹیاں رکھی گئی تھیںتا کہ راستے میں یا منزل پر پہنچ کر کھائی جائیں۔ ہاتھ میں سلور کا خالی جگ دیدیا گیا تھا۔ والدہ نے یہ ستر روپئے اس جگ میں رکھ دئے تھے تا کہ اگر کوئی تلاشی لے تو بتا دیا جا ئے کہ ہمارے پاس تو یہی روپئے ہیں۔ جب حملہ ہوا تو بھاگتے بھاگتے روٹیاں تو مجھ سے گر گئیں لیکن جگ کو پھینکنے سے پہلے میں نے یہ روپئے نکال لئے اور کیمپ میں آکر یا راستہ میں ہی والدہ کو دیدئے۔ ہماری صرف یہیئ ایک چیز پاکستان تک ہمارے پاس آئی تھی۔اس کے علاوہ کوئی کپڑا یا رقم نہ آئی تھی۔یا پھر وہ برتن آ ئیتھے جو بھائی احمد دین نے بھاگتے بھاگتے اٹھائے تو اس لئے تھے کہ شاید اس بوری میں کتنے سونا چاندی کے زیورات ہونگے لیکن کیمپ میں آکر جب اسے کھولا تو اس میں سے 'تھا لیاں' ، چمچے، سلور کے گلاس، دیگچی اور روٹیاں بنانے کے لئے چولہے پر رکھنے کا ' توا ' وغیرہ نکلے اور یہ کیمپ میں آکر منوں دولت سے بھی زیادہ کام آئے۔قافلہ پر چارحملے، جن میں سے چوتھا ناکام اور لوگوں کا قتل عام۔ قافلے پر پہلا حملہ: قافلہ میلوں لمبا ہو گیا تھا اور سپاہی لوگ ڈراتے دھمکاتے اور نقدی اور زیورات چھینتے جا رہے تھے جب کہ قافلہ بہت آہستہ آہستہ چل رہا تھا۔ ان میں کچھ جاٹ ملٹری کے آدمی تھے۔جب روپڑ کے نزدیک گئے تو تمام ملٹری کے آدمی ادھر اْدھرغائب ہو گئے۔ دل میں خوف پیدا ہوا۔ جب 'کوٹلہ' سے اگلی طرف ندّی میں گئے تو پچھلی طرف سے سکھوں نے حملہ بول دیا) گاؤں کا نام۔ اسے کوٹلہ نہنگ بھی کہتے تھے اور عام دوسرے گاؤں سے قدرے بڑا تھا (۔چونکہ میں اگلی طرف تھا اور کچھ دکھائی نہ دیتا تھا۔ آگے سے قافلہ روک دیا گیا۔ اور ملٹری والے اونچے فائر یعنی 'پھوکے فائر' کرنے لگ گئے۔ مگر ایسا حملہ ہوا کہ سینکڑوں پر ہاتھ صاف کر دیا )یعنی سینکڑوں کو قتل کردیا گیا (۔ اور بہت سی عورتیں بھگا کر لے گئے۔ بہت سے لوگ ڈر کے مارَ ادھر اْدھر بھاگ کر فصلوں میں چْھپ گئے۔ کئی ایک نے نہر میں جا کر چھلانگ ماری۔قافلے پر دوسرا حملہ ناکام بنا دیا :بہت دیر کے بعد قافلہ چلا۔ جب سنگھ ) سنگھ پورہ؟ گاؤں کا نام ( کے پاس آئے تو وہاں سے دیکھا کہ سکھ لوگ' ڈھا ٹے' لگائے اور نیزے نیچے کئے ہوئے چپکے چپکے گاؤں میں سے بھونڈوں کی طرح آ رہے ہیں۔ مگر کسی مہربان ملٹری والے نیگولی چلائی۔ ممکن ہے کسی کو لگی ہو۔ تب وہ لوگ واپس ہو گئے۔ ورنہ مجھے سیدھے آ رہے تھے۔ قافلے پر تیسرا حملہ اور قتل عام:حاصل کلام یہ کہ جب 'چکلاں' ) گاؤں کا نام ( سے ذرا اگلی طرف پہنچے تو بڑے زور کا حملہ کیا گیا اور بہت لوگ مار دئے گئے۔ میرا کوٹ چار پانچ عورتوں نے پکڑ رکھا تھا اور پیچھے سے چھم چھم نیزہ تلوار برستی آ رہی تھی۔ایسے کاٹ رہے تھے جیسے درخت پر کلہاڑا چلا یا جا تا ہے۔ میرے ایک ہاتھ میں سْوٹ کیس تھا جس میں چند چیزیں احمد دین کے شوق کی رکھی تھیں۔ دوسرے ہاتھ کی انگلی برخورداری کلثوم دختر بر کت کے ہاتھ میں تھی اور بھاگڑ پڑی ہوئی تھی (۔اس کی عمر تقریبا" چار پانچ سال ہو گی۔ اس کا پاؤں بھی دیر سے دْکھ رہا تھا مگر اسی طرح دوڑی دوڑی چلی آ رہی تھی۔ جب میں تنگ آ گیا تو مع اس لڑکی کے ایک کھدان میں جو پانی سے بھرا پڑا تھا گر گیا اور سب سے کوٹ چْھوٹ گیا۔ لڑکی سے بھی انگلی چْھوٹ گئی۔ اور ادھر مریم بھی گر گئی جس پر سے دنیا گذری جا رہی تھی۔ ہر ایک کو جان کے لا لے پڑ یہوئے تھے اور بھاگے جا رہے تھے۔ برخوردار ی عائشہ) نوٹ: بھائی احمد دین کی پہلی بیوی۔ ( کے پاس برکت کا لڑکا نصیر ا لدین تھا۔ سنا ہے کہ جب اس کو ایک سکھ نے سڑک سے باہر نکالنا چاہا تو اس نے اسمٰعیل مکوڑی والے ) یعنی میرے بچوں کے ماموں ( کے پاس لڑکا )یعنی نصیر( پکڑا دیا اور اس نے) یعنی اسمٰعیل نے( زِیورات اور نوٹوں سے بھری اپنی گٹھڑی پھینک دی اور لڑکا اٹھا لیا۔ )نوٹ: عائشہ نے ماموں اسمٰعیل کو وارننگ دی کہ اگر اس نے نصیر کو نہ لیا تو وہ اپنی جان بچانے کے لئے اسے پھینک دے گی۔ اس نے یہ بھی بتایا کہ ایک سکھ نے اس کا بازو پکڑ کر اسے پھینکنے کی کوشش کی تھی۔ ماموں اسمٰعیل کے یہ بتانے پر کہ تمام قیمتی اشیائ اور زیورات اسی بنڈل میں ہیں وہ اسے نہیں پھینک سکتا عائشہ نے کہا یا تو ان اشیائ کو ہی بچا لو یا نصیر کو چونکہ وہ نصیر کو نہیں سنبھال سکتی اور اسے وہ زمین پر پھینک دے گی یا اس سے وہ گر جا ئیگا۔ اس پر ماموں اسمٰعیل نے بنڈل پھینک کر نصیر کو لے لیا اور عائشہ بھاگ کر قافلے میں گم ہو گئی۔ لیکن جلد ہی اسے بھائی سراج مل گیا اور پھر عائشی نے اپنا دوپٹہ ایک طرف سے اپنے ہاتھ کے ساتھ باندھ لیا اور دوسری طر ف سے بھائی سراج کے ہاتھ سے باندھ دیا تا کہ کم از کم یہ دونوں تو جدا نہ ہوں۔ اقبال (۔عا ئشہ نے ہمت کری اور اگلی سائڈ پر ہو گئی۔۔ غر ضیکہ احمد دین الگ ، عائشہ الگ، مریم، اقبال یعنی ادریس، کلثوم الگ۔ برکت ، میں اور سراج ، غرضیکہ گھر کے سب افراد الگ ہو چکے تھے۔ بھاگتے بھاگتے 'بن ماجرہ' کی ندی پر پہنچ گئے۔وہاں قافلہ رْک گیا۔ یہ حملہ بہت زبردست تھا۔ ہزاروں جانیں تلف ہو گئیں۔ جتنے اچھے اچھے لوگ تھے سب پہچان پہچان کر مارے گئے۔ کسی کے کان میں نیزہ، کسی کی گردن میں اور کسی کے پیٹ میں۔ غرضیکہ ایسی بے دردی سے کام کیا گیا کہ جس کی امید نہ تھی۔
آگے ندی چڑھی ہوئی تھی اور مجھے اپنے گھر کا ایک جی بھی نظر نہیں آ رہا تھا۔ میں سمجھے بیٹھا تھا کہ اب وقت لٹا بیٹھا۔ دل گھٹا جا رہا تھا، بلکہ کمر سے نیچے ٹانگیں بے حس ہوتی جا رہی تھیں۔ پاگلوں کی طرح پوچھ رہا تھا۔ اور وہ جمعدار سکھ جس کو رشوت کا جھولہ بھر کر دیا تھا اور گھوڑی بھی نظر کری تھی ، گھوڑی دوڑائے چلا آ رہا تھا۔ میں نے روک کر کہا کہ ظالم یہی ایمانداری کا ثبوت تھا جو تم لوگوں نے دیا ہے۔ اس نے جواب دیا کہ کیا ہوا ہے۔ میں نے جواب دیا کہ میں سب کچھ اس حملہ میں دے بیٹھا ہوں۔ اس نے جواب دیا کہ میرے ہمراہ چلو جہاں تمہارا نقصان ہوا ہے پہچانو۔ میں نے سوچا کہ اب صرف میری ہی جان باقی ہے یہ بھی جاتی رہے گی۔ مگر پیچھے سے کسی نے آواز دی "منشی جی ، منشی جی ، آپ کی فیملی مع بچوں کے ندی کے کنارے میں نے دیکھی ہے۔ اور پھر برکت، بسّیمجھے مل گئیں۔ احمد دین بھی ایک دفعہ دکھائی دیکر غائب ہو گیا۔ لیکن برکت، بسّے) ہماری ایک چچی کا نام بسّے تھا( بمع اپنے بچوں کے میرے ہمراہ رہیں۔ چوتھا حملہ نا کام: قافلہ چل پڑا۔جب 'بن ماجرہ'کے برابر پہنچے تو پھر دیکھاکہ سینکڑوں کی تعداد میں حملہ آور گاؤں سے ہتھیار لئے آ رہے ہیں۔ پھر تو دل میں جچ گئی کہ اب یہاں سے جا نا مشکل ہے۔حملہ ہوا ہی چاہتا تھا کہ سامنے سڑک پر ایک ٹرک میں سے گولی سیدھی 'جتھے' پر گری جو ایک آدمی کو جا کر لگی اور وہ چت ہو گیا۔ دوسری پھر ، وہ بھی لگی۔ آگے سے گولی کا چلنا تھا کہ جتھا واپس دْم دبا کر بھاگا۔ پتہ چلا کہ جو موٹر مریضوں کی پہلے 'کورالی' پہنچ گئی تھی ان لوگوں نے جا کر وا ویلا شروع کر دیا تو زایک عیسائی )یعنی سفید فام یوروپین( افیسر کے کان میں آواز پڑِ ی۔ یہ آفیسر کسی اور طرف جا رہا تھا لیکن یہ بات سن کر وہ سیدھا 'بن ماجرہ' کی طرف ہو لیا اور آتے ہی فائر شروع کر دی۔)نوٹ: اسی جیپ میں یوروپین رنگ کی نرسوں کے لباس میں ایک خاتون بھی تھی۔ یہ دونوں جیپ سے نیچے بھی اترے۔ اب تک مجھے سامنے نظر آتے ہیں۔ بْھوکے پیاسے 'کورالی کنسنٹریشن کیمپ' پہنچ گئے:کشاں کشاں دن کے بھوکے پیاسے اکیلے، زخمی اور لْٹ لٹا کورالی آن پہنچے۔کھدانوں میں قد آور پانی ،باغ میں جہاں کیمپ تجویز کیا ،پانی ہی پانی پھر رہا تھا۔ پھر غلاظت اس قدر کہ جس کا ٹھکا نا نہ تھا۔ کہیں بیٹھنے کو جگہ نہ تھی۔ اندھیری رات تھی۔ اور بادلوں کی چڑھائی بھی ہمراہ۔بار خدا !کیسا سماِ تھا!دنیا آ رہی تھی اور آوازیں دے دے کر ان کے جو جو لوگ بچھڑ گئے تھے انہیں پکار رہی تھی۔ میں بھی ایک درخت کے نیچے برخوردار برکت'اور بسیّ کے بمع ان کے بچوں کے بیٹھ گیا۔ اور صبح سے بھوکا پیا سا تھا۔ ان کے بچے بھی بھوکے پیا سے رو رہے تھے۔ خیر مجھے کچھ 'پنجیری' بسیّ نے کسی سے مانگ کر دی۔ہم لوگ سب سامان سڑک کی نذرکر کے خالی ہاتھ کیمپ میں داخل ہوئے۔ کبھی کبھی بارش بھی پڑتی تھی۔ آخر تمام رات بیٹھے رہے اور 'یاس و غم سے دل بہلایا'۔ کیمپ کے اندر کے حالات: صبح ہوئی ! تلاش شروع ہوئی۔ اللہ کا احسان ہو گیا کہ سب جی صحیح سلامت مل گئے۔ چنانچہ وہاں دْورجا کر خیمہ گاڑنے کی تجویز ہوئی۔ پاس کپڑا نہ تھا۔ سر پر دھوتیاں لپیٹ رکھی تھیں۔اور برخوردار اقبال یعنی ادریس کے سر پر ایک پرانی سی پگڑی بندھی ہوئی تھی وہ اتار' اور ایک درخت سے باندھ ، دوسری ایک لکڑی آم کی توڑ کرگاڑی اور اْوپر 'دو' دھوتیاں تان کر خیمہ بنایا۔ زمین گیلی اور بوسیدہ تھی ، لکڑی بھی آسانی سے گاڑی نہ جاتی تھی۔ صرف ایک دھوتی کے سایہ میں ، برکت اور اس کے چھوٹے چھوٹے بچے جو صرف گودی اٹھانے کے قابل تھے ، لے کر تمام رات کاتی جاتی تھی۔ نیچے سے پانی بہہ کر جاتا تھا۔ دن ہوتا تھا تو راشن کا انتظار ہوتا تھا۔آخر تیسرے دن کہیں جا کرراشن ملا اور وہ بھی 'ڈیڑھ چھٹانک'/ ۵۷' گرامز فی کس کے حساب سے۔ جب آٹا آیا تو اوّل تو اسے کچا ہی پھانکنے لگ گئے۔ مگر جب 'گوندھ' کر روٹی پکانی چاہی تو بارش نے اس قدر زور کر دیا کہ آگ نہ جل سکے۔ زمین کھود کر چْولہا بنایا گیا۔ لیکن زمین بھی گیلی تھی۔ لکڑیاں میسر نہ تھیں۔ میں نے اپنا نیا کْرتہ پھاڑا اور آگ جلائی۔ایک اور شکرئے کا مقام یہ ہوا کہ قافلہ جس وقت آ رہا تھا تو ' بن ماجرہ' کی ندّی میں سے گذرتے ہوئے برخوردار احمد دین کو ایک تھیلی راستہ میں پڑی ہوئی ملی۔ چونکہ اپنا سامان پھینک چکے تھے ، اور خالی ہاتھ تھے،تو اس نے جاتے جاتے اس تھیلی کو ہاتھ ڈال لیاجو ہاتھ میں آ گئی اور یہ سوچا کہ جب تک ہو سکا
اٹھائی جا ویگی۔ اگر کوئی دقت محسوس ہوئی تو پھینک دوں گا۔اس میں کھانے پینے کے برتن رکھے تھے جو بہت کام آئے۔ تین دن کے بعد جب آٹا آیا تواقبال نے کچا ہی پھانکنا شروع کر دیا۔ اسے دیکھ کر برکت کی بیٹی ۲/۳ سال کی بیٹی کلثوم نے بھی پھانکنا شروع کر دیا۔ ثونکہ وہ بہت چھوٹی تھی اس لئے وہ برداشت نہ کر سکی اور وہیں پر ڈھیر ہو گئی۔ اب اس کت کفن کے لئے کپڑا اور دفنانے کے لئے جگہ کہاں سے لائی جائے۔ بس درخت کی ٹہنیاں توڑ کر، تھوڑی سی مٹی ادھو اْدھر ہٹا کر اسے دفنا دیا گیا۔ بچی کی لاش کا دفنانا نہیں بلکہ پھینکنا ہی تھا۔کیمپ کے چاروں طرف کانٹے دار تار کھینچی ہوئی تھی۔ اس کے اندر ہی ٹٹی، پیشاب کر سکتے تھے۔ تار کے ارد گرد پہرہ ملٹری کا بھی تھا۔مگر وہی بد ذات ہندو جاٹ رجمنٹ سے، اور عورتوں کو پْھسلا کر سکھوں کے حوالے کر دیتے تھے۔ سکھ چاروں طرف، عورتوں کو اغوا کرنے والے ملٹری سے ملے ہوئے بیٹھے رہتے تھے اور اگر کوئی آدمی زد میں آجاتا تھا تو اسے مارے بغیر نہیں چھوڑ تے تھے۔ پانی کی سخت قلت تھی۔ سارے کیمپ کے لئے صرف تین کنویں تھے جن پر دو صد آدمیوں کے قریب ہر وقت پانی بھرنے والے جمع رہتے تھے اور لڑائی ہمیشہ ہوتی رہتی تھی ) نوٹ:یاد رہے کہ صرف ہمارا ہی قافلہ یہاں نہیں آیا تھا بلکہ ہم سے پہلے بہت سے قافلے آ چکے تھے اور ارد گرد کے مسلمان بھی یہیں کیمپ میں داخل ہو گئے تھے۔ اس طرح لوگوں کی تعداد دو تین لاکھ سے بھی زیادہ ہو گئی ہوگی۔ (۔ پھر ملٹری نے تجویز کر کے عورتوں کو پانی بھرنے کی اجازت دی۔ ان میں بھی سخت لڑائی لگی رہتی تھی۔ ْکنووں میں صبح ہی ایک کنسترچْونا اور 'نیلا تھوتھا'/) vitroil زہریلی چیزیں (ملا کر گرایا جاتا تھا اور ظاہر یہ کیا جاتا تھا کہ زہر مارنے والی دوائی ڈالی جاتی ہے )نوٹ: مجھے یاد پڑتا ہے کہ کہ ایک دفعہ ایک ملٹری والے نے خود چلاّ کر کہا کہ "تمہیں منوں نیلا تھوتھا/ blue vitroilکھلا دیا ہے تم پھر بھی نہیں مرتے "۔میں والد صاحب کے ساتھ کنویں پر گیا تھا اور پانی نکالنے پر کچھ لوگوں کا جھگڑا ہو رہا تھا۔راقم اقبال (۔جس کی وجہ سے عام لوگوں کو عارضہ پیچش ہو گیا تھا۔۔ رات کو لوگوں کو اس قدر کھانسی اٹھتی تھی جیسے کہ 'ٹڈی دل' اڑاتے وقت کنستر یعنی 'پی پا' یا کوئی اور چیز کھڑکا کر شور مچایا جا تا ہے۔ اور بعض بیمار جو پیچش کی وجہ سے 'مروڑوں' /پیٹ کے درد میں مبتلا رہتے تھے وہ بہت ہائے ہائے کرتے تھے۔ سڑاند اس قدرپھیل گئی تھی کہ کوئی بیمار مرد یا عورت جہاں 'مروڑ' اٹھا وہیں ٹٹی کرنے بیٹھ جاتا اور اسے یہ پتہ نہ ہوتا تھا کہ میں نے اس جگہ بیٹھنا ہے یا دو قدم آگے جا نا تھا، خواہ ملٹری والا 'ڈنگروں'/جانوروں کی طرح لاٹھی چارج کر تا رہے۔ اموات/ موت اس قدر ہو رہی تھیں کہ کوئی کسی کے جنازے کے ہمراہ نہ جاتا تھا۔ کوئی اپنا ہی خاص عزیز ہو اس کو لکڑیوں پر اسی کے پہنے ہوئے کپڑوں میں لپیٹ کر تھوڑی سی مٹی ہٹا کر ، سیدھا گڑھا کھود کر اوپر سے مٹی ڈال کر چلے آتے تھے ۔ )یہی کچھ ہم نیاپنی بھانجی کے ساتھ کیا تھا۔ اقبال( ۔کسّی/قبر کھودنے کا اوزار یعنی diggerمیسر نہ آتی تھی۔جنازہ وغیرہ اور غسل تو کس نے دینا تھا۔ اور بہت سی لا وارث نعشیں جگہ جگہ پڑی ہوئی ، اوربعض سسکتی ہوئی ، نظر آتی تھیں۔ غرضیکہ ْکتّے ،اور کوّے اور گدھّ بھی اس سال 'رج' لئے تھے۔ روزانہ اموات ڈھائی صد یا تین صد کے قریب تھیں ویسے تو منشی با قاعدہ قبرستان میں بیٹھا ہوا تھا۔بیس /۰۲'یوم کیبعد ' ْگڑ' آیا۔ بہت دنیا لینے لگی اور بلیک کرنے لگی اور اپنا زیور، اگر کسی کے پا س قسمت سے آ ہی گیا، تو ایک تولہ سونا ۶' یا سات روپئے میں بکنے لگا۔بہت لوگ ایک روٹی کے بدلے ایک برتن دے دیتے تھے۔ اس کے بعد ایک مٹھائی آنا شروع ہوئی جو کچّا آٹا چاشنی میں ڈال کر جمایا گیا تھا۔ وہ تین روپئے سیر نمبر وار ، اور ۴/۵ روپئے سیر بلیک میں فروخت ہوتی تھی۔اس کے کھانے سے بہت دنیا بیمار ہوئی۔ مگر ہم لوگ فی ا لحال تندرست تھے۔ ایک دن ْمونگ پھلی ' ْگڑ' میں ملا گرم کر کے کھا بیٹھے، اس سے پیچش شروع ہو گئی۔ )نوٹ: ایک دن بھائی احمد دین بیمار پڑے تھے جو غالبا" اسی وجہ سے بیمار ہوئے تھے(۔ کئی کئی دن کے فاقے کئے جاتے تھے۔ جہاں آٹے کا سٹور تھا وہاں صبح سے لوگ جا کر بیٹھ جا یا کرتے تھے۔ اس قدر دنیا کمزور اور لاغر ہو گئی تھی کہ اٹھتے بیٹھتے چکر آیا کرتے تھے اور پنڈلیوں پر گوشت سْوکھ گیا تھا۔ ٹٹّی جا کر ہاتھ دھونے تو کہاں نصیب تھے پینے کو پانی نہ ملتا تھا اور کیمپ کے اندر اگر کسی نے ذراسی خلاف ورزی کری اور بھینس کی طرح لاٹھی پڑی۔ ْکنووں پر اسی طرح ہائی دہائی پڑی رہتی تھی۔ اپنا پرایا سب بْھول گئے تھے۔ کوئی کسی کی شرم نہ تھی، نہ کسی کی محبت۔ باپ سے بیٹا بیزار اور عورت سے خاوند بیزار تھے۔ خدایا تیری پناہ۔ کیا وقت تھا۔ قیامت تھی۔ہمارے ہاں موضع 'دْگری' سے ایک مولوی نور محمد کے صاحبزادے حافظ عبد ا للہ صاحب تھے جو امیر قافلہ تھے ان کے پاس بھی لوگوں نے کچھ روپیہ جمع کرا رکھا تھا۔ بعضوں نے زیور ہی دیدیا تھا کہ ہم لوگوں کو راستہ میں سہولیت رہے یا کسی کو دے دلا کر منزل مقصود پر پہنچ جائیں۔ مگر وہ کار گر نہ ہو سکا۔ یہاں پر بھی لوگوں کو مار دھاڑ کرنی شروع کردی جس سے کہ لوگ بد ظن ہو گئے۔ کئی ایک واقعات میں کچھ ظلم بھی ہوا۔ کبھی کبھارتمام لوگوں کو مع بچوں کے کسی میدان میں جمع کیا جا تا تھا کہ ہم لوگ گنتی لے رہے ہیں اور سارا دن بھوکے پیاسے مرے جاتے تھے اور کہا جا تا تھا کہ پاکستان تم کو قبول نہیں کرتا ورنہ کبھی کا بلا لیتا۔) نوٹ:چچا دین محمد کی بیوی محترمہ عظمت نے راقم کو بتایا کہ جب ایک دن گنتی کے بہانیوہ میدان میں لے گئے تو وہ خود اور 'نائیوں'/گاؤں کے حجام کی بیٹی مریم اکٹھی تھیں۔ ایک سپاہی/فوجی نے مریمکا ہاتھ کھینچ کرلیجانے کی کوشش کی لیکن دونوں نے اسے دھکا دیا اور بھاگ کر جہاں دوسرے لوگ بیٹھے تھے وہاں پہنچ گئیں۔بہت دنیا جب بھوکی مرنے لگی تو باہر نکلنے لگی اور مذہب تبدیل کر کے پیٹ پالنے لگے۔ اور بہت دنیا چھپ چھپا کر رہ گئی تھی ان لوگوں نے ڈر کے مارے مذہب تبدیل کر لیا تھا۔) نوٹ میری رفیقہ حیات رقیہ کا سگا ماموں لال دین اور ہمارے گاؤں کا سین/حسین محنت مزدوری کے خیال سے باہر نکلے۔ راستے میں دو چارسکھوں سے بات چیت ہوئی۔ سکھوں نے پوچھا کہ تم ذات کے کون ہو اور کہاں سے ہو۔لال دین نے کہا کہ وہ 'گجر' ہے اور موضع 'دْگری' کا ہے لیکن سین/حسین نے بتایا کہ وہ 'پرائی/ماشکی' ہے۔ ان سکھوں نے لال دیں کو وہیں شہید کر دیا اور حسین کو جانے دیا۔ لادین کے مارے جانے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ ۰۳۹۱' کی دھائی میں دْوگری' کے نزدیک والے گاؤں 'ملک پور' کے نزدیک سڑک پر عیدقربان کے موقع پر سکھوں اور مسلمانوں کے درمیان 'گائیں' کے ذبحہ کرنے کی وجہ سے سخت لڑائی ہوئی تھی اور بہت سے سکھ مارے گئے تھے۔ 'دْوگری' کے گاؤں نے اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا چونکہ گاؤں ملک پور سے ایک آدھ میل کے فاصلے پر ہی تھا(۔
افسران پاکستان کے دل میں یہ خیال بھی نہ تھا کہ کوئی 'کورالی کیمپ' بھی ہے یا نہیں۔کبھی کوئی 'لیزان آفیسر'کورالی تک نہیں آیا ۔ ایک ماہ بعدایک انگریز ، نمعلوم وہ ڈاکٹر تھا ،آیا۔ اس نے تمام کیفیت دیکھی اور لاہور واپس جا کر 'کورالی کیمپ'درج کروایا۔ نیز یہ بھی شکایت کری کہ وہ کیمپ بغیرسواری کے آ نہیں سکتا۔ وہ لوگ بہت کمزور ہو چکے ہیں ۔ خیر،رحم دلی ڈپٹی کمشنر'گریوال' ضلع انبالہ، کی بھی ہوئی۔ اس نے گندی مٹھائی اور بلیک پر پابندی عائد کر دی تھی۔ سب سے بڑی مکاری اس بگلے بھگت ، 'ایس ڈی او'، جو ذات کا برہمن تھا، نے کری اور اس کو ہم لوگ ایک بڑا ہی متقی اور پرہیز گار سمجھا کرتے تھے جو آخر تک ہمیں تسلیاں دیتارہا کہ بے فکر رہو ' بد معاشوں سیمت ڈرو۔ پھراسی بد معاش نے کہا کہ اب تم لوگ کسی چیز کا لالچ مت کرو ،ورنہ گولی کا نشانہ بن جاؤگے۔کیمپ میں کئی ایک لوگ 'کیمپ ہولڈر' مقرر کئے گئے تھے جو راشن بر آمد کر کے تقسیم کیا کرتے تھے ، وہ لوگ اسی میں غدّاری کرنے لگ گئے۔ اور اگر کچھ نہ بنا تو ان کے گھر کے جی /افراد ، روتی ضرور 'رج' کر کھایا کرتے تھے۔ ان کے پاس راشن کی کوئی کمی نہ تھی۔ چنانچہ مجھے بھی کئی ایک دفعہ کیمپ ہولڈرکی دعوت دی گئی، مگر میں اپنی عزت کو اس طرح چھپائے بیٹھا رہا جیسے ایک عزت دار آدمی کا حق ہو تا ہے۔ہر روز نئے نئے تذکرے سننے میں آیا کرتے تھے۔ یعنی، کہ آج گاڑی پاکستان سے آئیگی جو ہم لوگوں کو لے جائیگی۔ 'ہم لوگ پہلی )تاریخ (کو جائینگے'۔کوئی پندرہ کی تاریخ بتلاتا۔ غرضیکہ جتنے منہ اتنی باتیں۔ کوئی آتا تو اس کی باتوں سے ڈھارس بندھ جاتی۔ دوسرا آتا تو وہ کہتا کہ پاکستان کو ہماری ضرورت نہیں ہے۔ ہمارا کوئی پْرسان حال نہیں ہو گا، ہم لوگ سڑ کر مر جائیں گے ، پھر دل گر جاتا۔ ہمارے رشتہ دار ، 'ساؤڑی' ) گاؤں کا نام(والے بھی اْدھر ریاست میں چْھپ چْھپا کر اٹک) یعنی ٹھہر(گئیتھے۔ اور ہندْو بن گئے تھے۔ ان کی ہر چند انتظار کری لیکن ان لوگوں نے کوئی پرواہ نہیں کری۔ میں نے کیمپ سے کارڈ بھی لکھے اور ایک درخواست بھی راجہ صاحب کے نام لکھی۔ مگر کوئی عمل در آمد نہیں ہوا۔ ریاست کے ملازمان بھی وہاں کیمپ میں آئے۔ وہ ان لوگوں کو ملنے آئے تھے جو مسلمان سے ہندو ہو کرریاست کے ماتحت اپنا وقت کاٹنا چا ہتے تھے، پْھسلا کر لیجانا چا ہتے تھے اور بہت سے لوگوں کو پْھسلایا بھی گیا ، اور لے بھی گئے۔
محمد دین کا خط اور اس کا ہمیں لانے کے لئے 'کورالی کیمپ' پہنچنا:پھر ہمارے پاس ایک خط پہنچا جو محمد دین کے ہاتھ کا لکھا ہوا تھا اور راولپنڈی سے ڈالا گیا تھا۔ غریبْو) نوٹ: غریبْوہمارے قبیلے کا ایک نو جوان تھا اور ہم چچا کہا کرتے تھے۔ وہ جی ایچ کیو میں پہلے دہلی میں اور پھر راولپنڈی میں کسی جرنیل کے ساتھ لگا ہوا تھا ۔اقبال (نے لکھوایا تھا .۔ اس میں تحریر تھاکہ مال و متاع کا لالچ نہ کریں ، فورا" گھرچھوڑ کر نکل جا ویں۔ میرے پاس 'پوسٹ کارڈ' تھا اور میں نے بھی بواپسی جواب 'کورالی' کیمپ سے لکھ مارا۔وہ خط وہاں راولپنڈی میں مل گیا جس میں لکھا تھا کہ ہم کورالی کیمپ میں آ گئے ہیں۔ محمد دین دہلی سے بذریعہ ہوائی جہازراولپنڈی پہنچ چکا تھا۔ یہ سب کلرک لوگ، حکیم ا لدین، غلام ا لدین ، محمد دین اور دوسرے کئی ایک کورالی کیمپ کیلئے ٹرک پہنچانے کی کوشش کرنے لگے۔ خیر، ان کے لئے ٹرک منظور ہو گیا اور کورالی چھ ٹرک لیکر پہنچے۔ )نوٹ :صرف بھائی محمد دین ساتھ آئے تھے۔اقبال (۔۔ میں اس وقت جانے سے کچھ کچھ نا امید ہو چلا تھا۔ پتہ چلا کہ محمد دین آیا ہے۔ ملازمان لوگوں کے رشتہ دار تمام جا ویں گے۔ میں اپنے بیٹے کی آمد کی خبر سن کر بہت رویا۔ یہاں تک کہ وہ صبح سے آیا ہوا شام تک ہمارے پاس پہنچا۔ لیکن میرے آنسْو بند نہیں ہو ئے، کہ میں کس کو لے جاؤں اور کسے چھوڑ جاؤں۔ تمام کے تمام رشتہ دار یہاں پر موجود ہیں۔ مجھے جاتا ہوا کس حسرت کی نگاہ سے دیکھیں گے۔ ویسے تو لسٹ سب ملازمان کے گھر والوں کی تھی جن میں تین سو کے قریب منظوری تھی۔ چنانچہ رات بھر پنجیری بنائی گئی۔ گھر والوں کو ازحد خوشی تھی کہ اب پاکستان میں پہنچ جا ئیں گے۔
صبح کو سب لوگ جمع ہو کر موٹروں کے پاس پہنچے تو معلوم ہوا کہ جمعدار فوجی منحرف ہو کر جس نے رشوت دی ان کو موٹروں میں چڑھا رہا ہے۔ اور ہم لوگوں کو بھی واپس کر دیا۔ پھر شکایت کریں کہ یہ خود اپنی فیملی کو لینے آیا ہے۔ ہمارے جانے سے پہلے موٹریں لبا لب بھر گئی تھیں۔ ہمارے گاؤں والا ابراہیم ۰۵۱/= روپیہ دے کر موٹر چڑھا۔ صبح سے موٹریں ٹھہرائی ہوئیں ، شام ہو گئی تھی۔ دْھوپ میں کھڑے کھڑے ہوئے جل گئے اور لوگوں کو ٹٹی پیشاب کی حاجت تھی۔ مروڑے لگے ہوئے تھے۔ غرضیکہ ایک ٹرک میں ۲۳۱' نفوس بھر دیئے گئے تھے۔
اللہ اس ملک کو تاقیامت قائم و دائم رکھے، ہمیں اس ملک کو اسلام کی تجربہ گاہ بنانے کی ہمت دے، اللہ ہمیں اس ملک کو دنیا میں اسلام کو پھیلانے کا ذریعہ بنائے، اس ملک کے بسنے والوں کو نبی کریم ? کے دین کی سربلندی کے لیے کام کرنے والے بنائے۔ اس ملک کو دنیا کے لیے مثال بنا دے۔ آمین ثم آمین