ہم نے پل بھر میں نصیبوں کو بدلتے دیکھا

صبح کے تخت نشیں شام کو مجرم ٹہرے ہم نے پل بھر میں نصیبوں کو بدلتے دیکھاافغانستان میں طالبان عملی طور پر اپنا کنٹرول سنبھال چکے اور اشرف غنی حکومت ماضی کا قصہ بن چکی، جن خدشات اور تحفظات کا پوری دنیا کی جانب سے اظہار کیا جا رہا تھا اس کے بالکل برعکس انتہائی پرامن انداز میں افغان عوام کی اکثریت نے خوف اور امید کی کیفیت کے زیر اثر طالبان کا کنٹرول تسلیم کر لیا ہے۔ کابل شہر میں چند خواتین کی جانب سے احتجاجی مظاہرہ بھی دیکھنے کو ملا جس میں وہ اپنے مطالبات کے لئے پلے کارڈز اٹھائے نعرے لگا رہی ہیں اور بندوق بردار طالبان وہاں جمع ہونے والے شہریوں کو ہٹانے کے علاوہ اس سارے منظر سے لاتعلق دکھائی دیتے ہیں، مسلح جتھے کے اس رویے اور سوچ سے ان کے مستقبل کے لائحہ عمل کے بارے میں اندازہ ضرور لگایا جا سکتا ہے کہ وہ بات چیت کرنے، مخالف نکتہ نظر سننے اور برداشت کرنے کا حوصلہ لے کر آئے ہیں۔ بیس سال تک افغان باشندوں کو ساتھ ملا کر افغانیوں کا خون بہانے والے غیر ملکیوں کی بدحواسی سمجھ میں آتی ہے لیکن کابل میں مقیم غیر ملکیوں کے ساتھ ساتھ بعض افغانیوں کو بھی متفکر دیکھا گیا جن کا اب شاید ضمیر ملامت کر رہا ہے کہ اندرونی خلفشار میں بندوق اٹھانا تو رائے کا اختلاف ہو سکتا ہے لیکن غیروں کے ساتھ مل کر اپنے ہی بھائیوں پر ہتھیار اٹھانا مٹی سے غداری کے زمرے میں آتا ہے اور آنے والے دنوں میں یہی شاید اشرف غنی رجیم کا سب سے بڑا ''گلٹ'' بھی بن جائے۔ اگرچہ باقیات ڈھٹائی سے کہہ رہی ہیں کہ اشرف غنی کے فرار کے باوجود جنگ جاری رہے گی لیکن یہ کنفرم نہیں ہوا کہ وہ جنگ امریکہ سے کریں گے، بھارت سے کریں گے یا اپنے آپ سے کریں گے کیونکہ طالبان کے ساتھ تو سپرپاور بھی نہیں لڑ پائی۔ انسانی تاریخ عبرت ناک واقعات سے بھری پڑی ہے لیکن ہم اب اتنے لکھ پڑھ گئے ہیں کہ ہم نے تاریخ کو متروک سمجھ کر اسے الماریوں میں بند کر دیا ہے۔ ادھر انسانی حقوق کے ''علمبرداروں'' نے حقوق کی پامالی کے وہ ریکارڈ قائم کئے ہیں کہ شاید تاریخ بھی شرما گئی ہو۔ امریکہ بہادر نے دو ہزار ارب ڈالر، بیس برس اور ہزاروں قیمتی جانوں کے ساتھ ساتھ بطور سپر پاور برسوں سے کمائی ہوئی ساکھ بھی افغانستان کی سنگلاخ وادیوں میں گنوا دی لیکن ڈھٹائی کے ساتھ کامیابی کا بھی دعوی کیا جا رہا ہے، خفت کی بھی کئی شکلیں ہوتی ہیں۔ ادھر بھارت آخری اطلاعات آنے تک سکتے کی کیفیت میں ہے، اگرچہ اس نے بھی کئی ارب ڈالر افغانستان میں پاکستان کو ''فتح'' کرنے کے چکر میں لٹا دیئے لیکن تقدیر کے فیصلے آپ کی لاجک نہیں مانتے، امریکی انخلائ￿ کے بعد معاملات کو اپنے ہاتھ میں لینے کا خواب آنکھوں میں سجائے بھارت سرکار طالبان کی آمد کے بعد اس قدر ہواس باختہ ہوئی کہ اس کی دھوتی ہی اترگئی۔  بطور انسان اور بطور مسلمان ہمیں افغان عوام کی مشکلات اپنی مشکلات سمجھنی چاہییں لیکن ہم خود غرضی کے اس مقام پر پہنچ چکے ہیں کہ ہمیں اب دوسروں کا دکھ دکھائی ہی نہیں دیتا، قوموں کی زندگی میں مشکلات آتی رہتی ہیں اور ان مشکلات سے نبردآزما بھی ہونا پڑتا ہے لیکن اہم یہ ہے کہ قومیں مشکلات کا سامنا کیسے کرتی ہیں۔ افغان قوم نے گزشتہ چار دھائیوں میں دو سپرپاورز کو دھول چٹائی اور اپنی خودمختاری اور آزادی پر کمپرومائز نہیں کیا۔ حالانکہ دراندازوں کے شانہ بشانہ مقتدر افغان عناصر بھی آزادی کی جدوجہد کچلنے میں مصروف تھے لیکن کامیابی انہی کوملی جنہوں نے وطن کی مٹی کی خاطر جانیں گنوائیں۔ یہ نکتہ سمجھنے کا ہے کہ اگر جدوجہد اقتدار کے لئے ہو تو اقتدار کا اختتام ہے، اگر جدوجہد وطن کے لئے ہو تو وطن کی محبت امر ہوتی ہے۔ امریکہ نے چین ، پاکستان اور سی پیک کے خلاف جو جال بچھایا ہے اس کو سمجھنے کی ضرورت ہے، بے شمار پاکستانی تجزیہ کار افغانستان سے امریکی انخلائ￿  اور طالبان کے کابل پر قبضے کو پاکستان کے مستقبل سے جوڑتے ہیں، بالکل درست بات ہے، پاکستان افغانستان کی اندرونی صورتحال سے لاتعلق نہیں رہ سکتا، اس کے اچھے یا برے اثرات پاکستان پر پڑتے ہیں، پڑیں گے، اس سے انکار ممکن ہی نہیں لیکن اہم نکتہ یہ ہے کہ کیا پاکستان نے حالات پیدا کئے ہیں، نہیں بالکل بھی نہیں اور یہی باریک لائن ہے جو دکھائی نہ دینے کے باوجود بندے کی پہچان کرواتی ہے۔ ابھی ذہنوں سے محب اللہ کے ساتھ پاکستان کے تین بار وزیراعظم رہنے والے سیاستدان سے ہوئی تو ان کے حواری رگیں پھلا پھلا کر دفاع کر رہے تھے کہ ملاقات خیر کے لئے کی گئی ہے۔ مجھے کوئی یہ بات سمجھا دے کہ پاکستان مخالف لوگوں سے میل جول سے پاکستان کے لئے کون سی خیر برآمد ہوئی ہے آج تک…! بھارت اپنے پلاننگ فیل ہوجانے کے بعد اب زخمی بھیڑیا بن چکا ہے اور بدلہ لینے کے لئے وہ بلوچستان اور دیگر علاقوں میں دہشت گردی اور عدم استحکام پیدا کرنے کی مذموم کوششیں ضرور کرے گا، اس موقع پر پاکستان کے قومی مفاد اور ملکی سلامتی کا تقاضا ہے کہ قومی سیاسی قیادت اس موقع کو اپنے لئے فائدہ سمجھنے کی بجائے ریاست کی مضبوطی کے لئے ذاتی مفادات کو بالائے طاق رکھ کر قومی ہم آہنگی اور یکجہتی کی فضا بنانے میں حکومت اور اداروں کی مددگار و معاون بنے۔ اگر اس موقع پر بھی ہماری سیاسی جماعتوں کی جانب سے کوتاہ اندیشی کا مظاہرہ کیا گیا تو عوام جو کہ سیاسی جماعتوں سے انتہائی حد تک مایوس ہو چکے ہیں ان کا رہا سہا اعتماد بھی جاتا رہے گا۔ ہماری نوجوان نسل بھارتی بیانیے سے جس قدر متاثر ہے اس کا ابھی ہمیں اندازہ نہیں اور ابھی بھی ہم نے اداروں کو مضبوط نہ کیا تو ''میرا'' یا ''آپ'' کا نہیں بلکہ ''ہمارا'' نقصان ہو گا۔ پاکستان بھر کے نوجوانوں کے نام  
اپنی ہی مٹی پہ چلنے کا سلیقہ سیکھو
سنگ مر مر پہ چلو گے تو پھسل جائوگے


۔

ای پیپر دی نیشن