مینارِ پاکستان کے سائے تلے درندگی 

یہ بات تو طے ہے کہ مینار پاکستان پر نوجوان لڑکی کو جن سینکڑوں افراد نے برہنہ کیا، اسے ہوا میں اچھالتے رہے، اسکے ساتھ سرعام دست درازی کی، وہ سارے کے سارے اس وقت تک موت کا منہ دیکھ ہی نہیں سکیں گے جب تک ان کی بہنیں یا بیٹیاں اسی قسم کے سلوک کے مراحل سے گزر نہیں جاتیں۔یہ تو وہ قرض ہے جو ان کی اولاد اور نسل نے ہر حال میں ادا کرنا ہے کہ یہی قانون قدرت ہے۔ بچپن سے مینارِ پاکستان کی گراؤنڈز میں صبح کی سیر کرنا اور شام کے ڈھلتے سورج کو دیکھنا سالہا سال کا معمول رہا۔ہم تو کتابیں لے کر پڑھنے اور گرمیوں کی چھٹیوں کا کام کرنے بھی بادشاہی مسجد کے مینارِ پاکستان کی جانب کھلنے والے جھروکوں میں شدت کی گرمی میں بھی قدرتی ٹھنڈے ماحول میں جا بیٹھتے تھے اور وہاں دنیا بھر سے سیاحوں کی آمدورفت بھی دیکھتے مگر اس قسم کی درندگی آج تک دیکھی نہ سنی حالانکہ غیر ملکی سیاح لباس کے معاملے میں تب بھی بہت آزاد ہوا کرتے تھے۔
یہ کم از کم 40 سال پرانا واقعہ ہے۔ پنجاب یونیورسٹی کی ایک طالبہ نے سرگودہا میں اپنے والد کو ہاسٹل سے فون کرکے بتایا کہ ایک لڑکے نے اسکی ساتھی طالبات کی موجودگی میں اسکے ساتھ بہت بدتمیزی کی اور یہ بتاتے ہوئے وہ فون پر ہی پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔طالبہ کا والد فوری طور پر لاہور کیلئے روانہ ہوجاتا ہے۔ لاہور پہنچ کر بیٹی سے ملتا ہے۔ بیٹی اور اس کی کلاس فیلوز سے ساری بات پوچھتا ہے۔ بیٹی بتاتی ہے کہ معمولی بات پر اس کے کلاس فیلو نے دوپٹہ کھینچ کر زمین پر پھینک دیا اور اس پر اپنے پائوں رکھ دیئے اور اب وہ معافیاں مانگتا ہے۔باپ بیٹی سے سوال کرتا ہے کہ اس سے زیادہ تو کچھ نہیں ہوا اور پھر جواب سن کر باپ آنسو بہاتے ہوئے کہنے لگا ’’اے اللہ تعالی تیرا شکر ہے میں تیرے عدل اور انصاف پر قربان۔‘‘اس کی بیٹی اور ساتھی طالبات یہ دیکھ کر حیران رہ جاتی ہیں۔ اگلے روز یونیورسٹی کے متعلقہ ڈیپارٹمنٹ کے ہیڈ سے ملکر بیٹی کی طرف سے دی گئی درخواست واپس لے لیتا ہے اسی شام اپنی بیٹی اور اس کی ساتھی طالبات کو کھانے پر لے کر جاتا ہے اور بتانے لگ جاتا ہے کہ میں نے شکرانے کے نفل پڑھ لیے ہیں کیونکہ اسی یونیورسٹی میں دوران تعلیم میں نے اپنی ہم جماعت طالبہ کے سر کی چادر بلیڈ سے کاٹ دی تھی۔ کسی کو علم نہ ہوا، چند دن بعد میں نے پھر وہی حرکت کی اور پکڑا گیا۔ میں امیر باپ کا بیٹا تھا اور لڑکی کمزور گھرانے کی۔ میں نے چیئرمین صاحب کی ڈانٹ کھا لی معافی نہ مانگی۔ جب میری بیٹی کا اسی یونیورسٹی میں داخلہ ہوا اور میں اسے نیو کیمپس چھوڑنے آیا۔اس دن سے مجھے بار بار وہ واقعہ یاد آتا تھا میرے دل کو ہر وقت عجیب سا دھڑکا لگا رہتا تھا یہ ہونا تھا اور ہو کر رہا مگر شکر ہے اللہ کا کہ مجھے اپنے کیے کا بدلہ ضرب دے کر نہیں ملا۔ یہ واقعہ مجھے پنجاب یونیورسٹی ہی کی ایک پروفیسر نے سنایا تھا جو سارے واقعے کی عینی شاہد تھیں ۔
ڈوب مرنے کا مقام ہے لاہور پولیس کیلئے جو ایک چیختی چلاتی لڑکی کی فون کال پر اڑھائی گھنٹے تک کوئی رسپانس نہیں دیتی۔ جس وقت انہیں 15 پر اس متاثرہ لڑکی خواہ کوئی بھی تھی کہ ٹک ٹاکر کا تو بعد میں علم ہوا ہو گا، نے خود کال کی تب شاید وہاں کوئی غیرت کی گود میں پل کر جوان ہونے والا اہلکار موجود نہ تھا۔ کاش کوئی غیرتمند کال سنتا تو شاید فوری ایکشن ہوجاتا۔ یقینی طور پر 15 پر موجود اہلکار عورت کی حرمت سے آشنا نہیں ہونگے اور جس جس نے بھی وہ کال سنی غیرت کے معاملے پر اس کا ہاتھ بہت ہی زیادہ تنگ ہوگا ورنہ جائے وقوعہ سے تھانہ ٹبی کا فاصلہ صرف 3 منٹ، تھانہ بادامی باغ  5 منٹ ، تھانہ راوی روڈ اور تھانہ بھاٹی گیٹ 7 منٹ، تھانہ شفیق آباد 6 منٹ اور ایس پی سٹی کے دفتر کا فاصلہ بھی 7 سے 8 منٹ ہی کا تھا۔ مگر جس پنجاب پولیس کیلئے کمشنر کا گمشدہ کتا زیادہ اہم ہو اسے عزتوں اور حرمتوں کا کیا ادراک؟ کیا اس نا اہلی، سوری نااہلی بہت چھوٹا لفظ ہے اس مردہ ضمیری اور غیرت کی تنگ دستی پر سارے کا سارا سٹی سرکل نوکریوں سے معطل نہیں ہو جانا چاہئے مگر سنا ہے کہ سٹی سرکل میں جو ایس پی تعینات ہیں وہ اتنے ’’ تابعدار ‘‘ہیں کہ ان کی ہر کوتاہی کی افسران ہی پردہ پوشی کر دیتے ہیں۔ وہ کوئیک رسپانس تو دیتے ہیں مگر صرف اور صرف افسران کو۔ یاد رہے کہ دیر تک 15کی کال پر رسپانس نہ کر نے والی یہ وہی پولیس ہے جو آج سے کئی سال پہلے بادشاہی مسجد اور شاہی قلعہ کے عقبی شاہی محلے اور تھانہ ٹبی کی حدود میں کسی کو پر نہیں مارنے دیتی تھی۔(جاری)
 ادھر کسی’’آفس‘‘ سے کوئی نسوانی کال آئی ادھر پولیس سے بازار بھر گئے کہ شاید ’’آفسز‘‘ کی حفاظت کا دنیاوی معاوضہ ایک عورت کی عزت سے بہت زیادہ ہوتا ہے اور ہمارے ادارے تو مکمل طور پر کمرشل ہو چکے ہیں، پیسہ پھینکو اور جیسا چاہو ویسا ہی تماشا دیکھو۔ یہ بداخلاقی کرنے والے دس پندرہ تھے مگر تماشا دیکھنے والے سینکڑوں۔ اب کون ان چند ملزموں کو پہچاننے کا تردد کرے لہٰذا 400 نامعلوم افراد کے خلاف ایف آئی آر درج کرکے پولیس نے اپنا فرض پورا کردیا اور ویسے بھی ’’ پولیس کا ہے فرض مدد آپ کی، کریں دل سے ان کی مدد آپ بھی۔ مگر شاید مینارِ پاکستان کے سائے تلے سر عام بے آبرو ہونے والی یہ لڑکی پولیس والوں کی ’’ مدد‘‘ کرنے کی پوزیشن میں نہ تھی۔اس لئے 15 پر کی جانے والی تین کالز کا جواب نہیں دیا گیا۔کبھی نصف درجن گارڈز پورے مینار پاکستان کے ارد گرد کی گراؤنڈز میں چڑیا کو بھی پر نہیں مارنے دیتے تھے۔ محض ایک کیئر ٹیکر مرکزی دروازے کے اندر بنے دفتر میں موجود ہوتا تھا اور ہر روز ملک بھر سے ہزاروں افراد یہاں آتے تھے۔آج پنجاب میں سینکڑوں کمپنیاں ہیں اور ’’ کھاتا ہے تو لگاتا بھی ہے ‘‘ والے میاں شہباز شریف نے ہر چیز کمپنیوں کے حوالے کر رکھی تھی اور واقفان حال کے مطابق 90 فیصد کمپنیاں آج حکومت بدل جانے کے باوجود کسی نہ کسی طرح انہی کی ہیں۔
  تاریخ اور مقام کے حوالے سے یہ ایک شرمناک اور اس معاشرے کی اخلاقی ابتری کا بہت اذیتناک ثبوت ہے۔سوال یہ نہیں کہ وہ کون تھی فلم سٹار تھی یا کوئی ٹک ٹاک سٹار ، وہ تو مکمل قومی لباس میں تھی اور لباس بھی پاکستانی پرچم کا عکاس۔ وہ کوئی عوام اور ہجوم کی ملکیت یا پبلک پراپرٹی تو نہ تھی کہ اسے اس طرح سرعام رُسوا کیا جاتا۔وہاں اگر چند بے غیرت تھے تو کافی تعداد میں موجود غیرت مند بھی اسے بچانے کی کوشش کرتے مگر بے غیرتوں پر جب حیوانیت طاری ہوجائے تو انہیں کون روک سکتا ہے۔ پولیس نے ایف آئی آر  درج کرکے مدد کرنے کا فرض پورا کردیا۔اچھا تھا یا برا مگر ضیاء الحق کے دور میں پپو کے تین قاتلوں کو کیمپ جیل لاہور کے قریب سرعام پھانسی دی گئی تھی تو کئی سال تک کوئی بچہ اغوا نہیں ہوا تھا۔سعودی عرب میں سرعام سر قلم ہوتے ہیں۔ لہٰذا وہاں بہت زیادہ امن ہے۔ چاہئے تو یہ کہ وہیں اور اسی مینارِ پاکستان کے سائے تلے ایک ٹکٹکی اسٹینڈ لگایا جائے اور انہیں اسی طرح برہنہ کرکے کوڑے مارے جائیں کہ یہ عین اسلامی سزا ہے اور ویسے بھی نبی کریم ﷺ کے آخری خطبے کی روشنی میں دین کے مکمل ہونے کے بعد کسی کو یہ حق ہی حاصل نہیں کہ وہ کسی دینی حکم پر اعتراض کرے۔ آپ تجربہ کرلیں اور کوڑے مارنے کی ’’تقریب‘‘ کو اسی طرح نشر کریں جس طرح غیرت کے حوالے سے چند تنگدست افراد نے یہ ویڈیو نشر کی ہے۔ میں دعوی سے کہتا ہوں کہ ایک بار ایسا ہوجائے تو آئندہ کئی سال تک پنجاب میں عورتوں کیلئے امن ہی امن ہوگا۔ یہ قومی غیرت کا سوال ہے اور کہیں نہ کہیں تو اس طرح کے ظلم کے نظام کے سامنے بند باندھنا ہوگا۔ 
اہل لاہور آئی جی پنجاب اور سی سی پی او لاہور ذرا سانحہ احمد پور شرقیہ کو یاد کر لیں جب چند لوگوں نے ایک بے گناہ شخص کو آگ لگائی تھی اور پھر چند ہی ماہ بعد اسی شہر کے 110 سے زائد افراد پٹرول کی آگ سے جل گئے تھے۔ ابھی وقت ہے ملزمان کو سزا دلوا دیں اگر کوتاہی کی گئی تو غالب امکان ہے کہ یہ سزا کئی گناہ سے ضرب کھا کر اہل لاہور اور لاہور پولیس پر تقسیم نہ کر دی جائے۔ کہیں وہی دور واپس تو نہیں آرہا جب لوگ عزت کے خوف سے بیٹیاں زندہ درگور کردیتے تھے کہ آج پھر بیٹیاں بازاروں، تعلیمی اداروں حتی کہ دینی مدارس میں بھی محفوظ نہیں ہیں۔ اصل حقیقت تو یہ ہے کہ عورت بھیڑ میں ہو یا تنہا، وہ تو ذمہ داری ہوتی ہے موقع نہیں۔ بیٹیوں کو کہنا چاہوں گا کہ عورت کا تو مطلب ہی ڈھکی چھپی ہوتا ہے لیکن آج کل کی لڑکیوں کو بھی اس بات کا احساس کہاں؟

ای پیپر دی نیشن