معاشرے کے بناو¿ اور بگاڑ میں اچھے اور ب±رے لوگوں کی صحبت اور ہم نشینی کا بڑا دخل ہوتا ہے، کوئی بھی انسان پیدا ہوتے ہی برا نہیں ہوتا یہ انسان اچھی صحبت کا کم اور بری صحبت کا اثر بڑی تیزی سے پکڑتا ہے تو پھر وہ حالات ہی تو ہوتے ہیں جس سے وہ معاشرتی ماحول کا اثر فوری قبول کرتے ہوئے کوئی معزز ہو جاتا ہے اور کوئی معاشرے کا بدمعاش بن جاتا ہے۔
پنجاب حکومت کی تبدیلی کے بعد لاہور میں نئے آنے والے سی سی پی او لاہور غلام محمود ڈوگر صاحب نے کہا ہے کہ لاہور ہم سب کا شہر ہے جس میں کوئی قبضہ گروپ اور بدمعاش نہیں رہے گا۔ پولیس آپ کی فون کال پر دستیاب ہوگی۔ سٹریٹ کرائم کیلئے خصوصی پٹرولنگ سسٹم بنایا گیا ہے جبکہ جرائم کے سدباب کیلئے کمیونٹی پولیسنگ کو فروغ دیا جائے گا۔ کریمنلز لاہور چھوڑ جائیں۔ اب کلاشنکوف کلچر ختم ہو گا۔ رٹ ا?ف دی سٹیٹ کو ہر صورت قائم کیا جائے گا۔ اوورسیز پاکستانیوں کے مسائل ترجیحی بنیادوں پر حل کئے جایئں گے۔ اس پریس کانفرنس میں ڈوگر صاحب نے بدمعاشوں کو للکارا ہے کہ وہ لاہور چھوڑ جائیں ورنہ میں انہیں کسی طرح سے برداشت نہیں کروں گا لیکن اس میں وضاحت نہیں کی گئی کہ یہ کس قسم کے بدمعاشوں کی بات کر رہے ہیں جو معاشرے میں بگاڑ پیدا کرتے ہیں کیا وہ بدمعاش جو غریبوں کو تنگ کرکے غنڈہ گردی کرتے ہوئے زبردستی جگا ٹیکس وصول کرتے ہیں جنہوں نے ہر طرف لوٹ مار مچا رکھی ہے اور قتل و غارت کا بازار گرم کر رکھا ہے یاپھر وہ بدمعاش جو ایک عرصہ سے پولیس کی وردی میں ملبوس نہ صرف بدمعاشی کر رہے ہیں بلکہ معاشرے کے اندر پیدا ہونے والے بدمعاشوں کو بھی بدمعاشی کا اپنی سرپرستی میں سرٹیفکیٹ جاری کرتے ہیں کیا پولیس والوں سے بھی کوئی بڑا بدمعاش ہے.؟ یہ پولیس اگر نیت سے کام کرے تو کوئی کسی قسم کی بد معاشی نہیں ہو سکتی اور نہ ہی کوئی بدمعاش پیدا ہوگا یہاں پر میں تمام پولیس والوں کی بات نہیں کر رہا خیر سے اس شعبہ میں اچھے انسان بھی موجود ہیں جنہیں معاشرے میں لوگ آج بھی اچھی نگاہ سے دیکھتے ہیں مگر نہایت افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ تقریبا اکثریت بدکردار پولیس اہلکاروں کی ہے یاد رہے کہ یہاں پر یہ امر قابل ذکر ہے کہ ڈوگر صاحب اس سے پہلے بھی اسی سیٹ پر اپنے فرائض بھرپور طریقے سے ایک عرصہ تک انجام دے چکے ہیں. معذرت کے ساتھ اس وقت انہیں دونوں سرکاری اور معاشرتی بدمعاش نظر کیوں نہیں آئے چلیں کوئی بات نہیں بعض اوقات ایسا ہو جاتا ہے کہ سب کچھ انسان کی آنکھوں کے سامنے ہو رہا ہوتا ہے مگر انسان کسی مجبوری کے باعث بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر آنکھیں چرا لیتا ہے جبکہ اس وقت انہیں اسی سیٹ پر ایک لمبے عرصہ تک کام کرنے کا بھرپور موقع ملا تھا لیکن انہوں نے اپنی تعیناتی کے دوران کچھ بھی ایسا نہیں کیا کہ جس سے کسی غریب کو فائدہ ہوتا لہذا اب میرا ایک مشورہ ہے یہ سب سے پہلے پولیس کے بگڑے ہوئے قبلہ کو درست کریں پھر دیکھنا یہ شہر لاہور ہر طرح کے بدمعاشوں سے پاک ہوجائے گا لیکن اس کے لیے کچھ کرنا ہوگا صرف باتوں سے کام نہیں چلے گا ڈوگر صاحب آپ نے شاید مولا جٹ فلم نہیں دیکھی جس میں ایک بدمعاش نوری نت بطور اداکار مصطفی قریشی ایک پولیس آفیسر کو کہتا ہے کہ ”نواں آیاں ایں سوہنیا“ ! اس ڈائیلاگ کے بعد اس پولیس افسر کی بولتی بند ہوگی اس ڈائیلاگ کا مقصد بھی یہی ہے کہ سب سے پہلے پولیس کا قبلہ درست کیا جائے پھر کوئی نوری نت مولاجٹ جگا گجر اچھا شوکر والا بدمعاش پیدا نہیں ہوگا ۔میں نے پچھلے کالم میں یوم آزادی کے حوالہ سے کچھ لطیفے قارئین کی نذر کیے تھے جنہیں قارئین نے بہت پسند کیا اور اصرار کیا کہ پولیس کے محکمہ کے خلاف بھی بہت سارے لطیفے ہیں ان پر پھی ایک کالم ہو جائے اس میں کوئی شک نہیں پولیس والوں کے خلاف بھی بہت سارے لطیفے مشہور ہیں پہلا بڑا مشہور لطیفہ کچھ اس طرح سے ہے کہ ایک غریب آدمی روزانہ ایک کاغذ پر لکھ کر اے میرے پروردگار مجھے ایک لاکھ روپے بھیج دے اس عبارت کو ایک غبارے کے ساتھ باندھ کے آسمان کی طرف چھوڑ دیتا غبارہ پولیس سٹیشن کے اوپر سے گزرتا تو پولیس والوں نے ایک دن اس غبارے کو پکڑا لکھی ہوئی عبارت کو پڑھ کر اس غریب اور بھولے بھالے آدمی کی دعا پر ہنستی پھر پولیس والوں نے اسے پڑھ کر سوچا کہ کیوں نہ اس غریب آدمی کی مدد کی جائے سب پولیس والوں نے مل کر چندہ اکٹھا کیا بمشکل پچاس ہزار روپے جمع کئے اور انکے گھر جاکر رقم دے آئے دوسرے روز پولیس والوں نے پھر وہ پرچی والا غبارہ دیکھا تو حیران ہوئے اور اسے فورا پکڑا اور اس میں لکھی عبارت پڑھی تو ان کے ہوش اڑ گئے اس میں لکھا تھا یا رب العالمین آپ کی بھیجی ہوئی رقم تو مجھے مل گئی ہے لیکن آپ کو یہ رقم پولیس والوں کے ہاتھ نہیں بھیجنی چاہیے تھی حرامخور اس میں سے آدھی رقم کھا گئے ہیں۔ بس ضرورت اس امر کی ہے کہ پولیس کو اپنا اعتماد عوام کے اوپر بحال کرنا چاہیے پھر دیکھنا سب کچھ اپنے آپ ٹھیک ہو جائے گا۔