کم اور درمیانی آمدنی والے ممالک کو اگلے سات سالوں میں 940 بلین ڈالر کی اصل اور سود کی ادائیگی کرنی ہوگی 


 اسلام آ باد (نوائے وقت رپورٹ ) رواں سال پاکستانی روپے کی قدر میں 20 فیصد اور تھائی بھات کی قدر میں 6 فیصد سے زیادہ کمی ہوئی ہے، امریکہ دنیا بھر میں افراط زر کو پھیلانے کے لیے ایک اعلیٰ بین الاقوامی کرنسی کے طور پر ڈالر کی حیثیت کا فائدہ اٹھا رہا ہے، مقامی حکومتیں اور کمپنیاں قرض کی مصیبت میں ہیں، مغربی کمپنیاں سستے داموں اعلیٰ معیار کی کمپنیوں کا شکار کرنے کا انتظار کر رہی ہیں ،انہیں مارکیٹ کے بظاہر منصفانہ اصولوں کے تحت جال میں پھنسنے پر مجبور کر رہی ہیں، کم اور درمیانی آمدنی والے ممالک کو اگلے سات سالوں میں 940 بلین ڈالر کی اصل اور سود کی ادائیگی کرنی ہوگی۔ گوادر پرو کے مطابق یو ایس فیڈرل ریزرو بورڈ اور فیڈرل اوپن مارکیٹ کمیٹی (ایف او ایم سی) نے جولائی 2022 کے لیے کمیٹی کے اجلاس کے منٹس جاری کیے ہیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پالیسی ساز صارفین کی قیمتوں کو ا پنے 2 فی صد ہدف کے قریب لانے کے لیے شرح سود کو ضرورت سے زیادہ بڑھانے کے لیے پرعزم ہیں۔ شرکائ￿  نے اتفاق کیا کہ آج تک اس بات کے بہت کم ثبوت موجود ہیں کہ افراط زر کا دباؤ کم ہو رہا ہے۔چار دہائیوں میں سب سے زیادہ افراط زر کو کنٹرول کرنے کی کوشش میں فیڈ اس سال پہلے ہی چار بار شرح سود بڑھا چکا ہے، جس میں جون اور جولائی میں دو 75 بیس پوائنٹ اضافہ بھی شامل ہے۔ اس غیر معمولی اقدام نے ان خدشات کو جنم دیا ہے کہ امریکہ دنیا بھر میں افراط زر کو پھیلانے کے لیے ایک اعلیٰ بین الاقوامی کرنسی کے طور پر ڈالر کی حیثیت کا فائدہ اٹھا رہا ہے، جس سے کمزور غیر ملکی قرضوں ممالک قرضوں کے جال میں پھنسے ہوئے ہیں۔ امسال پاکستانی روپے کی قدر میں 20 فیصد اور تھائی بھات کی قدر میں 6 فیصد سے زیادہ کمی ہوئی ہے۔ مضبوط ڈالر نے ترقی پذیر ممالک خاص طور پر کم آمدنی والے ممالک کے لیے اپنے ڈالر سے متعین قرض کی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کے لیے اسے مزید مہنگا بنا دیا ہے۔ وہ پرانے قرضوں کی ادائیگی کے لیے نئے قرضے لینے کے چکر میں پڑ جاتے ہیں اور کم شرح مبادلہ اور بلند شرح سود کے شیطانی چکر میں پھنس جاتے ہیں۔ لیکن یہ بدترین نہیں ہے جب مقامی حکومتیں اور کمپنیاں قرض کی مصیبت میں ہیں، مغربی کمپنیاں سستے داموں اعلیٰ معیار کی کمپنیوں کا شکار کرنے کا انتظار کر رہی ہیں اور انہیں مارکیٹ کے بظاہر منصفانہ اصولوں کے تحت جال میں پھنسنے پر مجبور کر رہی ہیں۔ یو کے کی غیر منافع بخش جوبلی ڈیبٹ کمپین کی شائع کردہ ایک رپورٹ کے مطابق، ترقی پذیر ممالک کے قرضوں کی ادائیگیوں میں 2010 اور 2021 کے درمیان 120 فیصد اضافہ ہوا، ورلڈ بینک کا تخمینہ ہے کہ کم آمدنی والے اور کم درمیانی آمدنی والے ممالک کو اگلے سات سالوں میں 940 بلین امریکی ڈالر کی اصل اور سود کی ادائیگی کرنی ہوگی۔ عالمی مالیاتی منڈی میں اس کا اہم کردار اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ اس کی مالیاتی اور مالیاتی پالیسی ہماری باہم جڑی ہوئی دنیا کی معیشتوں پر اثر انداز ہو۔ اس لیے ضروری ہے کہ امریکہ اپنی پالیسیوں کے منفی اثرات کو کم کرنے کے لیے بڑی ذمہ داری کے ساتھ کام کرے اور ابھرتی ہوئی معیشتوں کے ساتھ مل کر کام کرے۔ 

ای پیپر دی نیشن