سیّد شمیم حیدر کی زیرِطبع کتاب سب خواب بولتے ہیں دیوانے کا خواب نہیں بلکہ اْس فرزانے کا خواب ہے جس کا اندازہ مرزا غالب کے اِس فکر انگیز شعر سے ہوتا ہے ’’ہے غیبِ غیب جس کوسمجھتے ہیں ہم شہود…ہیں خواب میں ہنوز جو جاگے ہیں خواب میں‘‘ سیّد شمیم حیدر گْلستانِ ادب میں بادِشمیم ہیں۔ میدانِ شاعری میں مردِ زعیم ہیں۔ روحانیات میں موج کوثر و تسنیم ہیں۔ اِس کتاب میں حمد، دعائیہ منظومات،قصائد ، منقبت، سلام ، قومی نظمیں اور غزلیات شامل کی گئی ہیں جو شاعر کی جودتِ طبع کی آئینہ دار ہیں۔ ان کے والدِ محترم سیّد ابو محمّد رضوی مستنصر نامور شاعر اور سماجی و مذہبی شخصّیت تھے۔ بڑے بھائی سیّد عون محمّد رضوی شہید شعر اور خطیب تھے۔ گویا ‘‘ ایں ہمہ خانہ آفتاب است’’ والا معاملہ ہے۔سیّد شمیم حیدر نامور شعر، ماہرِ تعلیم ، ادبی و سماجی شخصیّت ہیں انکا چہرہ متبسّم اور دل پْر از ترحّم ہے۔ انسانیّت کی خدمت ان کا شعار اور حق گوئی وجہ افتخار ہے۔ انہوں نے کبھی بھی آمریّت سے سمجھوتا نہیں کیا اور ہمیشہ نعرہ حق بلند کیا ہے۔ آپ جمہوریّت کے نقیب اور فْسطائیت کے رقیب رہے ہیں ۔ آپ مصلحت کوشی سے دْور اور شبِ ظلمت میں چراغِ طْور بن کر ضوفشاں رہے۔ ان کے کردار میں منافقت نام کی کوئی چیز نہیں۔ ان کی شاعری سادہ و سلیس، دلپذیر و دلسوز ہے اِس میں گہرائی اور گیرائی ہے۔ اگر سمندر کو کوزے میں بند کرنا ہو یا بقول مرزا غالب قطرے میں دریائے دجلہ کا نظّارہ کرنا ہو تو سیّد شمیم حیدر کے بارے میں اِتنا کہوں گا کہ وہ علمی و ادبی خانوادے کے چراغ ہیں، محفلِ رنداں میں ایاغ ہیں، دلِ داغ داغ ہیں اور صاحبانِ دین و دانش میں عالی دماغ ہیں ۔
( ڈاکٹر مقصود جعفری ،اسلام آباد)