گرمیاں اور ، اور حضرت غالب کا فرمانا کہ آم ھوں اور عام ھوں لوگوں کے ذہنوں میں ایسا سمایا کہ نکلنے کا نام ھی نہیں لیتا ، کبھی آم صرف درختوں پر پکتے اور اترتے تھے اکثریت تو اپنے ھی گھر کے آم کھاتے تھے کہ تقریباً ھر تیسرے گھر میں ایک پھلدار درخت ضرور ھوتے تھے پھر انسان نے بہت ترقی کر لی ھر کام میں شارٹ کٹ اپنانے ، پیسہ بے دریغ کمانے ، اور کسی کو خاطر میں نہ لانے کا خیال اس کے دل آ سمایا اور پھر وہ موت کا بھی بیوپار کرنے لگا وہ اپنے فائدے کیلئے دوسروں کو موت فروخت کرنے لگا جی ھاں ایسا ھی ھیے ۔ایک مسالہ ہے کیلشیم کاربائیڈ CaC2 جسے بازار میں موجود اکثریت آموں کو لگا کر آموں کا رنگ بدلا جاتا ہے۔ یہ ایک زہر ہے جو پوری دنیا میں پھلوں کو لگا کر پکانا ممنوع ہے۔ اسکا ایک استعمال آپکو بتاتا ہوں۔ گیس ویلڈنگ تو یقیناً دیکھی ہے؟ جو لوہے کی بڑی سی ٹینکی ہوتی اس میں ایک مسالہ ڈال کر آگ پیدا کی جاتی جس سے ویلڈنگ کی جاتی ہے۔ وہ مسالہ یہی کیلشیم کاربائیڈ ہوتا ہے۔ یہ آتش گیر مادہ ہے جسے فیکٹریوں میں استعمال کیا جاتا۔ آموں کی پیٹی میں اسکی تھوڑی سی مقدار کبھی چھوٹی چھوٹی کاغذ کی تھیلیوں میں رکھا جاتا تھا لیکن اب کاغذ کی یہ تھیلیاں ختم کر کے پیسوں کی بچت کر لی گئی ھے یوں ھی چھڑک دیا جاتا ھے اتنی حرارت پیدا کر دیتی کہ آموں کا رنگ بدل جاتا اور آم اندر تک گل سڑ جاتے ہیں اور یہ زہر آموں میں بھی سرائیت کر جاتا ہے۔ اسکا استعمال پاکستان میں بھی ممنوع ہے مگر یہاں قانون صرف طاقتوروں کے گھر کی باندی ہے۔ اسکے ساتھ ایک تو آم کی قدرتی خوشبو بدل جاتی۔ دوسرا کیلشیم کاربائیڈ سے پکے آم فوری تو منہ میں تیزابیت پیدا کرتے۔ گلا پکڑا جاتا گلے میں جلن سی ہوتی ہے، خوراک کی نالی میں زخم ہوجاتے اور لانگ ٹرم نقصانات میں معدے کے السر انتڑیوں کے زہر، اسکن پرابلمز اور کینسر، گردے فیل ہونا جیسی بیماری کا باعث بنتے ہیں۔ دوسری طریقہ ہے ایک گیس کا استعمال۔ جس کا نام ہے ethylene ایتھائلین C2H2 ہے۔ یہ گیس آموں کے اپنے اندر بھی ہوتی ہے۔ جس سے خود ہی آم پک جاتے ہیں۔ اسے پنجاب فوڈ اتھارٹی سمیت پوری دنیا پھل پکانے کے استعمال میں ریکمنڈ کرتی ہے۔ ایک بند چیمبر میں آم پھیلا کر ایتھائلین گیس چھوڑ دی جاتی ہے۔ اس سے پکے آم رنگ تو بہت زیادہ پیلا نہیں کرتے۔ مگر ان کا ذائقہ بلکل قدرتی اور کمال ہوتا ہے۔ دوسرا صحت کے لیے اسکا کوئی بھی نقصان نہیں،یہ شاھد مہنگی ھیے اس لیے اسکا استعمال نہیں کیا جاتا سوچنا تو ارباب اختیار نے ھیے کاش کبھی سوچ لیں کہ انسانوں کی زندگی کو کس قدر ارزاں کر دیا ھیے اس لالچ اور ہوس نے ، خیال یہ بھی آتا رھا کہ اس کالم کو خط بنا کر تمام ’’بڑوں‘‘ کو ارسال کر دیا جائے شاید کے اتر جائے تیرے دل میں میری بات …سوچ کا خط کی طرف گیا تو گزشتہ ماہ بہت ھی محترم چوہدری شجاعت حسین کے لکھے خط سے اٹھنے والے طوفانی حالات بھی نظر کے سامنے لہرا گے اور خطوط کا سلسلہ زہن کی سکرین چلنے لگا جان نثار اختر اور صفیہ جان اختر کے خطوط زیر لب کے نام سے اردو ادب کا اثاثہ ہیں ۔علامہ ڈاکٹر محمد اقبال کے اور عطیہ فیضی کے کے خطوط پھر اسد اللہ خان غالب کے خطوط کا سلسلہ اور بے شمار تذکرہ ھے ۔اسی طرح ذوالفقار علی بھٹو کا ایک تاریخی خط جو انھوں نے موت کی کوٹھڑی سے اپنی بیٹی بینظیر بھٹو کو لکھا تھا وہ سیاست کے ھر طالب علم کو تو ضرور پڑھنا چاہیے پھر ایک اور خط ایسا بھی ھے جو ایک مجبور لڑکی نے لکھا تھا مگر اس زمان و مکان کی تاریخ تبدیل کر کے رکھ دی اور دیبل کی بندرگاہ سے مسلمان سپہ سالار سندھ کی سرزمین پر اترا اور یوں یہاں اسلام کا بول بالا ہو ا تھا
لیکن برصغیر پاک وہند کی سیاست میں پہلا خط ریشمی رومال کی تحریک کے دوران لکھا گیا تھا جو سامراج کے خلاف چلای جارھی تھی یہ خط ایک رومال پہ لکھا گیا تھا اور پکڑا گیا تھا ڈاک کا محکمہ حضرت عمر فاروق نے قائم کیا تھا مگر برصغیر میں اسے برٹش نے قائم کیا تھا مگر اب خط اپنی اھمیت کھو بیٹھا ہے کیونکہ اس سے زیادہ جدید ذرایع اور جدید ٹیکنالوجی آ چکی ھیے اب خطوط وٹس ایپ اور میسنجر کی صورت میں دستیاب ہیں مگر 1980 کی دھائی تک خط اور عید کارڈز کی بہت اھمیت ہوا کرتی تھی دیہاتی علاقوں میں پوسٹ مین خط پڑھ کر سنانے کی ذمہ داری بھی بہ خوبی سر انجام دیا کرتے تھے۔ پاکستانی سیاست میں خط کا تذکرہ 1977 میں اس وقت ہوا جب سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے پنڈی کے میسی گیٹ میں امریکی وزیر خارجہ کے دھمکی آمیز خط کو عوامی اجتماع کے سامنے لہرایا تھا کہ امریکہ ایٹمی پروگرام کے ختم نہ کرنے پر ان سے ناراض تھا اور قومی اتحاد کے ذریعے ان کے خلاف تحریک چلوا رہا تھا دوسری بار خط کا تذکرہ اس وقت ہوا جب نواز شریف وزیر اعظم تھے اور مقدمات میں گھرے ہوے تھے تو اس وقت عدالت میں ایک قطر کے شہزادے کاخط پیش کیا گیا تیسری بار جب عمران خان سے مالکان ناراض ہوے اور انکی حکومت کے اخری دن تھے تو انھوں نے اسلام آباد کے جلسہ میں امریکی دھمکی آمیز خط عوام کے سامنے لہرایا اب چوتھی بار ایک نیا خط اس وقت منظر عام پر آیا ہے جب وزیر اعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش ہوئی۔کچھ خطوط ایسے بھی ھوتے تھے جن کے پکڑے جانے پر لڑکوں کی بہت ٹھکائی ھوا کرتی تھی یہ وہ دل جلے محبت نامے ھوتے تھے جو کئی کئی ماہ اس خوف سے عاشقوں کی جیبوں میں پڑے رہتے تھے کہ پکڑے ھی نہ جائیں ۔پھر اس دور میں ہمارے شعراء کرام نے بھی خط کو نہایت رومانی انداز میں پیش کیا ہے خط پر لکھے گیے کبھی ہمیں بھی بیشمار شعر یاد تھے ایک شعر تو ایسا تھا جو ھر کسی کو ازبر تھا
شیشی بھری گلاب کی پتھر توڑ دوں
تیرا خط نہ آیا تو جینا چھوڑ دوں
پھر فلموں میں گانے بھی خط کے موضوع تھے جیسے
لکھے جو خط تجھے تیری یاد میں سہارا بن گیے
خط پڑھ کہ تیرا ادھی ملا قات ہوگئی
چھٹی آئی ہے چھٹی آئی ہے بڑے دنوں کے بعد
چھٹی جرا سیاں جی کے نام لکھ دے
میرے محبوب کا آیا ہے محبت نامہ
تمھارے خط میں نیا اک سلام کس کا تھا
بہرحال بات نکلتی ھے تو دور تک جاتی ہے اس لیے لکھنے سے پہلے ھی سوچنا چاہیے کہ پکڑے گئے تو کیا ھو گا ۔صفحہ قرطاس پر جب کچھ آجاتا ھیے تو وہ ثبوت بن کر اچھائی اور برائی دونوں کا راستہ جو بناتا ھیے اسی لیے تو کہا جاتا ھے پھونک پھونک کر چلیں
ایک نظر ادھر بھی
Aug 21, 2022