فیض عالم :قاضی عبدالرؤف معینی
ایک دفعہ کا ذکر ہے ایک قصبہ میں ایک کفن چور رہتا تھا۔جب بھی لوگ مردہ کی تدفین کرتے تو رات کے وقت وہ چور کفن چوری کرلیتا۔ کفن چور کی اچھی عادت یہ تھی کہ وہ لاش کی بے حرمتی نہیں کرتا تھا بلکہ احترام کے ساتھ میت کو دفن کر دیتا۔یہ سلسلہ کئی دہائیوں پرمحیط رہا۔ کفن چور جب بستر مرگ پر آیا تو اسے ندامت کا احساس ہوا،اللہ تعالی سے معافی کا طلب گار ہوااور اپنے نوجوان بیٹے کا بلایا اور نصیحت کرتے ہوئے کہا کہ بیٹا میری زندگی غلط کام میں بسر ہوئی اب تم کوئی ایسا کام کرنا کہ لوگ مجھے اچھے الفاظ سے یاد کریں۔بیٹے نے بڑے ادب سے جواب دیا ابا تو فکر نہ کر ایسے ہی ہوگا۔باپ کے وصال کے بعدبیٹے نے آبائی کام زور شور سے شروع کیا۔کفن چوری کرنے کے بعدوہ نہ صرف لاش کو کھلے آسمان کے نیچے پھینک دیتا بلکہ بے حرمتی بھی کرتا۔کچھ ہی عرصہ بعد لوگوں کی زباں پر یہ جملہ عام ہو گیا کہ پہلے والا کفن چور بہت اچھا تھا۔یوں اس نوجوان نے اپنے باپ سے کیا ہوا وعدہ پورا کردیا۔یہ واقعہ صرف تفنن طبع کے لیے بیان کیا گیاہے۔
پون صدی سے جاری ملک عزیز میں سیاسی بحرانوں نے عوام کا بیڑا غرق کر دیا ہے۔ہر حکومت کے جانے پر مٹھائیاں تقسیم ہوتی ہیں اور نئے آنے والوں سے امیدیں وابستہ کی جاتی ہیں۔لیکن مایوسی کے سوا کچھ نہیں ملتا۔کہا جاتا ہے کہ معاشی حالات نے ہر طبقہ کو متاثر کیا ہے جو کہ بالکل غلط ہے۔خراب معاشی حالت کی وجہ سے صرف غریب دیہاڑی دار اور ملازم پیشہ طبقہ کا کچومر نکل گیا ہے۔مہنگائی کے جن نے لو گوں کا جینا مشکل کر دیا ہے۔تاجروں نے اشیائ کی قیمتوں میں اضافہ بھی کرلیا اور شرح منافع بھی بڑھا لی۔ٹرانسپورٹروں نے اپنے طور پر کرایوں میں بے تحاشہ اضافہ کر لیا۔نجی تعلیمی اداروں کے مالکان نے بھی بہتی گنگا میں غسل کر لیا۔پٹرول پمپ مافیا کی تو ہمیشہ سے چاندی رہی ہے۔ملی بھگت سے راتوں رات کروڑوں سمیٹ لیتے ہیں۔بھاری تنخواہوں کی وجہ سے اشرافیہ کے معاشی حالات پر مہنگائی کے جھٹکوں کا کوئی اثر نہیں پڑتا۔نہ تیل کی فکر نہ بجلی کے بل کی پریشانی۔منگائی کی چکی میں پس رہا ہے تو صرف غریب۔مہذب معاشروں میں بنیادی سہولتوں کی فراہمی اور عوامی فلاحی ریاست کا قیام حکمرانوں کی بنیادی ذمہ داریوں میں شامل ہے۔پاکستان میں حکمرانوں کا تعلق عوام کے ساتھ کبھی بھی نہیں رہا اور نہ ہی انہیں غریب کے دکھ کا احساس ہے۔انتظامی پوزیشنز پر بیٹھے افراد نے چونکہ کبھی غربت کا مزا نہیں چکھا اس لیے ان کوبھی پرواہ نہیں۔بنیادی سہولتوں کا رونا رونے والے اب زندگی کی بھیک مانگ رہے ہیں۔عوام کا دم اس حدتک گھٹ رہا ہے کہ
اب بوئے گل نہ باد صبا مانگتے ہیں لوگ
وہ حبس ہے کہ لو کی دعا مانگتے ہیں لوگ
کوئی ماہر معاشیات اس مسئلہ کا حل بتائے کہ مہینے بھر کی تنخواہ بل کی ادائیگی میں لٹا کر کوئی فرد اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ کس چیزسے بھرے گا۔پہلے تو لوگ صرف بھوک سے پریشان تھے اب کپڑے بھی اتر جانے کا خدشہ ہے۔اور وہ بزرجمہر تو یوم آزادی پر بڑے ایوراڈ کا مستحق ہے جس نے یونٹس کے حساب سے بجلی کے بلز کی سلیبیں بنائیں۔دو سو یونٹ کے بعد صرف ایک یونٹ خرچ کرنے پر بجلی کے بل کی چھلانگ قابل دید منظر ہے۔سچی بات تو یہ ہے کہ حکمرانوں کو عوام کی جیب سے پیسے نکالنے کا ہنر آگیا ہے۔
مزے کی بات یہ ہے کے ہر سال یوم آزادی کے موقع پر تھوک کے بھا? ایوارڈز بانٹے جاتے ہیں۔کوئی بھلا مانس پوچھے بھی تو صحیح کہ کس لیے دیے جارہے ہو جب مملکت خداد کے تمام شعبے بد ترین اور شرمناک زوال کا شکار ہیں تو یہ ایوارڈز کی تقسیم کس لیے۔عوام سوال کرنے میں حق بجانب ہے کہ ان ایواڈز یافتہ ہستیوں نے اپنے شعبوں میں کون سے کارنامے سر انجام دیے ہیں۔ساری دنیا کے ممالک ترقی کی دوڑ میں ہیں لیکن ملک عزیزنا اہلوں کی وجہ سے ترقی معکوس کا شکار ہے۔اس صورت حال کو دیکھتے ہوئے تو یہی کہا جا سکتا ہے کہ
منیر اس ملک پر آسیب کا سایہ ہے یا کیا ہے
حرکت تیز تر ہے اور سفر آہستہ آہستہ
حکمرانوں کی عیاشیاں اپنی جگہ اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ ملک کے موجودہ بحران کی ذمہ دار عوام بھی ہے۔جہالت، کرپشن ، بے ایمانی ہڈوں میں رچ بس گئی ہے۔سب ایک دوسرے کی جیبیں کاٹنے میں لگے ہوئے ہیں۔حلال اور حرام کی تمیز ختم ہو گئی ہے۔عوام کا یہ ہجوم بد ترین اخلاقی زوال کا شکار ہے۔اس ہجوم کو قوم بنانے کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔عوام کی بد اعمالیوں کی سزا ا س طرح کے حکمرانوں کی صورت میں مل رہی ہے۔سیانے کہتے ہیں کہ کہ جیسا منہ ویسی چپیڑ(تھپڑ)،جیسی روح ویسے فرشتے اور جیسے عوام ایسے ہی حکمراں۔اب تو ملک کو بحران سے نکالنے کی صرف ایک صورت ہی ہے کہ عوام اپنے کرتوت ٹھیک کرے ،کثرت سے استغفار کر اور اپنے رب سے دعا کرے کہ نیک اور صالح حکمران عطا فرمائے۔