ڈاکٹر طاہر محمودبھلر
غالبا ،نہیں یقینا یہ سولہ اگست دو ہزار تئیس کی بات ہے جب میں ڈی سی کالونی سے اپنے گھر سے نکلا ہی تھا اور جی ٹی روڈ پر ابھی چڑھا ہی تھا کے دل میں اچانک خیال آیا کہ کہ کیوں نہ آج گوجرانوالہ کے نامی گرامی لیکن شریف النفس انسان جو صوم وصلات کاانتہائی پابند اور کسی قسم کی کرپشن کے الزام سے پاک جانا جاتا ہے اور کوئی کسی بھی پارٹی کا سیاسی مخالف بھی ان کے اوپر کوئی کرپشن یا کوئی اور الزام نہیں لگا سکا ان سے آج کل کے حالات اور مغلیہ تنظیم پر ہی کچھ بات کی جائے۔ لیکن مسئلہ یہ آڑے آ رہا تھا کہ ان سے میرا کوئی خاص براہ راست تعارف بھی نہیں۔ چلو کوشش کر کے دیکھتے ہیں۔ ہاں یا د آیاکی کسی فنکشن میں میرے تقریر کے بعد انہیں نے بڑی جامع تقریر کر ڈالی تھی جس کا ایک تاثر میرے دماغ کے نہاں خانے میں تھا۔ انہی حیالات میں محو میں گاڑی کوگولڈن پمپ نام کی ایک فیکٹری کی طرف موڑا تو گیٹ پر پوچھا تو پتہ چلا کے روف مغل صاحب فیکٹری میں ہی ہیں۔ اوپر جا کر دیکھا تو وہ چھوئیں موئیں بنے ایک کارنر میں جیسے دبکے بیٹھے ہوں، ملے۔ سلام کی تو انہوں نے کمال حاضر دماغی سے میرے ساتھ اپنی ملاقات کا حوالہ دیا اور بغیر کسی تکلف یا ہچکچاہٹ کے اپنے ماضی اور حال کی زندگی اور میرے ساتھ، مغل برادری اور مسلم لیگ سمیت اپنی تمام زندگی کے واقعات بتانے لگ گئے۔ جب انہوں نے اپنی زندگی کی کوشش اور محنت کا ذکر ان کی سادہ سی زبان میں سنا تو جیسے ایک یادوں کی برات چل نکلی ہو اور ان کے ماضی کے ورق ایک ایک کر کے از خود کھلتے جا رہے تھے جس میں ان کی غلام حیدر وائیں سے ملاقات ، اپنی شالیمار ٹاو ن میں فاروق سکول کا قیام اور مسلم لیگی کمٹننٹ نظر آرہی تھی۔بلا تکلف یہی چند ایسے بے لوث صاحب ثروت لوگ ہیں جو بغیر کسی شہرت آزمائی اور دنیاوی شہرت کے غربا کی اندر ہی اندر مالی اور ان کے خانگی اور مختلف محکموں میں کاموں کے لئے میرے ساتھ کھانا کھاتے ہوئے مختلف محکموں کے سر براہوں کو کہہ رہے تھے۔قطعہ نظر بشری خامیوں کے جن سے کوئی بھی مبرا نہیں، ان کی بے ساختگی ، سادگی اور سچائی سے میں متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔ بشمول رفیق انور ہسپتال جہاں میں بھی عرصہ سے بھی زیادہ سے ایک جز وقتی پیتھالوجسٹ ،لیبارٹری انچارج کی حیثیت سے کام کر رہا ہوں جناب روف مغل صاحب بیشمار ٹرسٹ اور این جی او کے ممبر اور ٹرسٹی نکلے۔ لیکن قارئین آپ حیران ہوں گے کہ نہ انہوں نے کسی شہرت کے حصول کی کوئی ادنی سی بھی کوشش کی اور میڈیا میں اپنی دریا دلی اور نیک نامی کے جھنڈے گاڑھنے کی کوشش کی ، اور نہ اس نفسا نفسی کے دور میں کسی ٹھیکے یا قبضہ مافیہ میں بھی کبھی ان کا نام تو کیا وہ نا داروں کی خفیہ مدد بھی کرتے رہے ہیں۔ دو دفعہ خود اور ایک دفعہ ان کے بھائی سعید مغل صاحب ایم پی اے بنے نیک نامی کمائی اور نہ ہی وزارت کے حصول کی کوئی تگ و دو کی۔ حالانکہ ایسے مخلص ، اور صاحب ثروت ممبروں ہی کے طفیل جو روائتی چاپلوسی اور خوشامد ،لفاظی اور بیان بازی، چرب زبانی سے کوسوں دور ہیں کہ طفیل ہی نون لیگ پنجاب میں ابھی تک زندہ ہے۔ نون لیگ کو چاہئے کہ ایسے ذاتی وجماعتی با کردار لوگوں کو مسقبل میں کسی بڑے عہدے یا وزارت کے لئے منتخب کرے کہیں پی ٹی آئی کے عوامی ہمدردی کے ووٹ ینک کے مقابل اس کو ہزیمت کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ ان کی فیکٹری گولڈن پمپ کا ایک نام ہے اسی طرح گوجرانوالا میں بھی سیالکوٹ طرز پر ایر پورٹ ، موٹر وے ، یونیورسٹی کاقیام ایسے صنعت کار جیسے روف مغل ہیں کو وزارت یا کوئی مناسب عہدہ دے کر شائدجلد ممکن ہو سکے۔ ہاں تو ملاقات کے بعد میں نے ان کو ایک ایم پی اے سے زیادہ ایک شفیق بڑا بھائی پایا جس میں اس نفسا نفسی کے دور میں تکبر اوخودد غرضی نام کو نہ تھی۔ بحر حال اس سیاست کے میدان کار زار میں وہ اپنا ایک تشخص رکھتے ہیں اور قوی امید ہے کہ اس علاقہ کے عوام ان کو دوبارہ خدمت کا موقع دیں گے
ماضی میں گوجرانوالہ شہر سے خان دستگیر، اسلم لون ، اسماعیل ضیا، عثمان ابراہیم ، منظورالحسن اس علاقے کی نمائندگی کر چکے ہیں۔ لیکن راقم کی نظر میں اسماعیل ضیا ایک کمیٹڈ نظریاتی ورکر کے طور پر بغیر کسی مالی فوائد کے اپنے کام سر انجام دیتے رہے۔ پی پی پی کے منظورالحسن بھی عام لوگوں ورکروں کے کام کرنے ان کی تکالیف کا ازالہ کرنے میں ایک نام کما چکے ہیں۔ورنہ بقول شاعر ریاض خیر آبادی، آج تو سیاست اور اہل اقتدار کا یہ عالم ہے
جام ہے توبہ شکن، توبہ میری جام شکن
سامنے ڈھیر ہے ٹوٹے ہوئے پیمانوں کا۔