جیکب آباد (این این آئی) پاکستان پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما سید خورشید شاہ نے کہا ہے کہ سیاستدانوں سے 35 سال کا حساب مانگنے والے مارشل لاؤں کے 40 سال کا حساب کیوں نہیں مانگتے؟ کسی صحافی نے 40 سال کے مارشل لاء کی کبھی بات کی ہے؟ سیاستدانوں سے 35 سال کا حساب مانگا جاتا ہے جس میں ایٹم بم اور 73 کا آئین ملا، اسٹیل مل، پورٹس ملے، سوشل کام ہوئے، این ایف سی ایوارڈ سمیت صوبوں کو اختیارات اور خودمختاری دی گئی، صوبوں کے نام تبدیل کرکے قوموں کے نام سے رکھے گئے سیاستدانوں کا نام تو جلدی لیتے ہیں لیکن جنہوں نے ہمیں 65 اور 71 کی جنگوں میں دھکیلا جن لوگوں نے پاکستان کو توڑا 90 ہزار قیدی بھی ہم سیاستدان چھڑا کر آتے ہیں اس پر بولتے ہوئے صحافی ڈرتے ہیں انگلیاں صرف سیاستدانوں پر اٹھائی جاتی ہیں۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے جیکب آباد کی تحصیل ٹھل میں پیپلز پارٹی کے رہنما سابق رکن صوبائی اسمبلی ڈاکٹر سہراب سرکی سے بھائی کی وفات پر تعزیت کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ سید خورشید شاہ نے مزید کہا کہ نئی حلقہ بندیوں کے بعد انتخابات اگلے سال مارچ تک ہونا چاہئے ستمبر میں صدر کی مدت ختم ہوگی اس کے بعد چیئرمین سینٹ نگراں صدر ہوسکتے ہیں، انہوں نے کہا کہ آئین کے مطابق انتخابات 90 روز کے اندر ہونا چاہئے لیکن نئی حلقہ بندیوں کا بہانا بناکر انتخابات مارچ تک کرائے جاسکتے ہیں کیوں کہ آئین میں گنجائش ہے کہ نئی حلقہ بندیوں کی وجہ سے انتخابات کو آگے لے جایا جاسکتا ہے، پیپلز پارٹی رہنما کا کہنا تھا کہ تاریخ میں پہلی بار ہوا تھا کہ عمران خان کو اپوزیشن کی جماعتوں نے درخواست کی تھی کہ آئیں بیٹھ کر چارٹر آف اکانامی کریں کیوں کہ مہنگائی بڑھ رہی ہے ملک تباہی کی طرف جارہا ہے اس میں جتنی تاخیر کریں گے یہ مہنگائی اور بڑھے گی اور لوگ اس کو برداشت بھی نہیں کرسکیں گے اس لیے ہمیں بیٹھنا ہوگا لیکن ہمیں اس کا جواب ملا کہ میں این آر او نہیں دونگا اور سزائیں معاف نہیں کرونگا پھر سب نے دیکھا کہ ڈالر 110 سے 185 تک پہنچا، پیٹرول سمیت اشیاء خوردونوش کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگی عمران خان آیا ہی ملک کو تباہ کرنے کے لیے تھا ہمارے 16 ماہ میں جو مہنگائی ہوئی وہ ہمیں ساڑھے تین سال کی ناقص حکومت کی جانب سے تحفے میں ملی لیکن اس کے باوجود ہم گھبرائے نہیں اور ملک کو ڈیفالٹ سے بچانے کے لیے میدان میں رہے اور ملک کو ڈیفالٹ ہونے سے بچایا۔