مذہبی ہم آہنگی میں ریاست کا کردار

اللہ پاک نے قرآن میں ارشاد فرمایا ہے کہ بے شک ہم نے اس قرآن کو نازل کیا اور بے شک ہم خود اس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔جس طرح اللہ پاک رب العالمین ہے ،حضرت محمد ﷺ رحمت للعالمین ہیں اسی طرح قرآن پاک ساری دنیا کے لوگوں کی ہدایت کے لیے اتارا گیا ۔قرآن پاک سے ساری دنیا کے لوگ استفادہ حاصل کررہے ہیں اور تاقیامت قرآن اللہ کے بندوں کی رہنمائی کرتا رہے گا ۔کیونکہ قرآن پاک حضرت موسی علیہ السلام ،حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا ذکر کئی بار آتا ہے، ایک سورۃ کا نام ہی سورۃ مریم ہے۔ اس لیے حضرت موسیٰ علیہ السلام ،حضرت عیسیٰ علیہ السلام اورحضرت مریم علیہ السلام کو ماننے والا کوئی انسان قرآن پاک کی بے حرمتی کا تصور بھی نہیں کرسکتا ہے۔جڑانوالہ میں توہین قرآن کا واقعہ انتہائی افسوس ناک ہے ۔اس سے مسلمانوں کے دل دکھی ہیں ۔جس نے یہ جرم کیا ہے اس بدبخت کے خلاف قانون کو وقت پر حرکت میں آنا چاہیے تھا لیکن افسوس ایسا نہ ہو سکا اوربجائے مجرموں کو قرار واقعی سزا دی جاتی ۔لوگوں نے خود قانون کو ہاتھ میں لے لیا ،مساجد سے اعلانات کیے گئے اور دیکھتے ہی دیکھتے مشتعل لوگوں نے پوری مسیحی برادری کے خلاف آپریشن شروع کردیا۔گرجا گھروں کو جلا دیا گیا ،لوگوں کے گھروں پر حملے کیے گئے اور ایسی تصاویر دیکھنے میں آئیں کہ بہت سے لوگوں کو اپنا گھر چھوڑ کے کھیتوں میں رات گزارنا پڑی ۔
سوال تو یہ ہے جب یہ سب ہورہا تھا تو میرے ملک کی قانون نافظ کرنے والے ایجنسیاں کہاں تھیں؟ پولیس کیوں بروقت کاروائی نہ کرسکی؟ اب بتایا جارہا ہے کہ اصل مجرم ملک سے فرار ہو چکے ہیں۔ یہ درست ہے کہ پاکستان دو قومی نظریے کی بنیاد پر حاصل کیا گیا تھا۔ لیکن دو قومی نظریے کا یہ مطلب ہرگز نہیں تھا کہ مسلمان ریاست میں دوسری اقلیتوں کے لیے کوئی جگہ نہ ہوگی۔ قائد اعظم محمد علی جناح ؒ نے اپنی تقریر میں فرمایا تھا کہ ’آپ آزاد ہیں۔ آپ آزاد ہیں اپنے مندروں میں جانے کے لیے۔ آپ آزاد ہیں اپنی مسجدوں میں جانے کے لیے اور ریاست پاکستان میں اپنی کسی بھی عبادت گاہ میں جانے کے لیے۔ آپ کا تعلق کسی بھی مذہب ذات یا نسل سے ہو۔ ریاست کا اس سے کوئی لینا دینا نہیں۔‘قائد اعظم نے اس تقریر میں پاکستانیت پر زور رکھا ہے اور بتایا کہ لوگ اپنی عبادت گاہوں میں جانے کے لیے آزاد ہیں اور کسی کے مذہب سے ریاست کو کوئی سروکار نہیں ہوگا۔
حکمرانوں نے اپنے اقتدار کو طول دینے کے لیے فرقہ واریت کو ہوا دینی شروع کی۔آج سے ڈیڑھ صدی پیچھے چلے جائیں توہمیں اس خطے میں نہ کوئی بریلوی ملے گا نہ دیوبندی اور نہ اہل حدیث۔علمائے دین کے نزدیک فرقہ واریت شرک ہے ۔لیکن آج کے پاکستان میںفرقوں کے نام پر مسجدیں اورمدرسے بنائے جارہے ہیں۔خاندان غلاماں سے لے کر بہادر شاہ ظفر کے عہد تک ہماری تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ اسلا م ہی وہ مذہب ہے جو ساری انسانیت کے ساتھ ہم آہنگی رکھتے ہوئے ریاست کو چلا سکتا ہے ۔یہ ہمارا درخشاں ماضی ہے ۔برطانوی ہند میں جب ہندووں کو اقتدار میں شامل کیا گیا تو انھوں نے اپنے طرز عمل سے یہ ثابت کیا کہ ان کے اندر بین المذاہب ہم آہنگی کے اس طرح روادار نہیں ہیں ۔
اگر ہم آج کے بھارت کا جائزہ لیں تو یہ نقطہ اور بھی واضح ہوجاتا ہے کہ ہندوؤں کے اندر دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کو برداشت کرنے صلاحیت نہ ہونے کے برابر ہے ۔آج بھارت میں سماجی سطح پر لوگ پوری طرح تقسیم ہیں ۔مسلمان،سکھ ،عیسائی اور نچلی ذاتی کے ہندووں کو حکومتی سرپرستی میں کچلا جارہا ہے ۔ مذہبی اور سماجی ہم آہنگی ہندو دھرم کے اندر ناممکن ہے ۔اسی بات کو مدنظر رکھتے ہوئے مسلمانوں نے ایک الگ وطن حاصل کیا جہاں ہر مذہب کے ماننے والوں کے لیے مکمل آزادی ہوگی ۔پاکستان میں بسنے والی مذہبی اقلیتوں میں سب سے زیادہ تعداد ہندوؤں کی ہے۔ مسیحی آبادی کے اعتبار سے دوسری بڑی اقلیت ہیں جبکہ ان کے علاوہ سکھ، پارسی، بودھ اورکیلاشی نمایاں ہیں۔پاکستان میں ایسے واقعات ہوتے رہتے ہیںکہ جرم کوئی ایک بندہ کرتا ہے لیکن اس جرم میں پوری برادری کو مجرم تصور کرتے ہوئے ان پر چڑھائی کردی جاتی ہے ۔اگر ایک آدمی کا قصور ہے تو اسے سزا دی جانی چاہیے۔
مستقبل میںجڑانوالا جیسے واقعات کی روک تھام کے لیے ریاست کو اپنا کردار اد ا کرنا ہوگا ۔پہلے یہ بات یقینی بنانا ہوگی کہ کوئی شہری کسی مذہب کے ماننے والوں کی دل آزاری نہ کرسکے۔پھرلوگوں کے اندر اجتماعی شعور پیدا کرنے کی کوشش کرنا ہوگی کہ کسی ایک بندے کے جرم کی سزا پوری برادری کو نہیں دی جانی چاہیے ۔ریاست کو لوگوں کی ذہن سازی کرنے کے لیے فنون لطیفہ کو عام کرنا ہوگا۔ریاست کو یہ نقطہ سمجھنا ہوگا کہ جس معاشرے میں ادب، آرٹ، فلسفہ، مثبت مکالمہ، تعمیری سوچ، جمالیاتی حسیات اور فکری نشستیں منعقد نہیں ہوتیں وہاں جہالت، وحشت اور  متشدد رویے خود رو جھاڑیوں کی طرح پروان چڑھتے ہیں ۔دھرتی سے محبت ماں سے محبت جیسی ہوتی ہے اس لیے اگر کوئی ملکی پالیسوں پر تنقید کرے تو اس کا یہ ہر گز یہ مطلب نہیں لیا جانا چاہیے کہ وہ ریاست سے محبت نہیں کرتا ۔بہت ضروری ہے کہ ریاست تعصب سے پاک ایسا معاشرہ تشکیل دینے کی کوشش کرے جہاں شہریوں کو ان کے عقیدے، مسلک، مذہب، رنگ اور نسل کی بنیاد پر کسی امتیازی سلوک کا سامنا نہ کرنا پڑے۔چونکہ ریاست ماں کی مانند ہوتی ہے، اس لیے اس ملک میں رہنے والے سبھی افراد کو تحفظ فراہم کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے۔

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...